دہشت گردی اور ملکی مسائل
اس افسوسناک صورت حال پر عوام بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں
لاہور:
انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس حوالے سے بھرپور انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں نگران عبوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ سب سے مشکل مرحلہ نگران وزیراعظم کا تھا جس کا قرعہ فال غیرمتوقع طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شخصیت جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کے نام نکلا لیکن نگران وزیراعظم کا نام منتخب کرنے میں جو افسوس ناک صورت حال درپیش رہی امید ہے مستقبل میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سبق سیکھیں گی اور ان واقعات کا اعادہ نہیں ہو گا جو اس دفعہ ہوا۔
مہذب جمہوری حکومتوں میں نگران حکومتوں کی کوئی روایت نہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں جو حکومت ہوتی ہے وہی انتخابات کراتی ہے لیکن ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اول تو اس ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی۔ اگر تھی بھی تو اس کا کنٹرول سول اور ملٹری بیورو کریسی کے پاس تھا۔ ایک تو معذور' اپاہج' لولی لنگڑی جمہوریت جس میں سو چھید۔ حقیقی اقتدار سوائے چند سالوں کے کہیں اور تھا جو خارجہ امور، دفاع اور معیشت کے اہم فیصلے کرتا تھا۔ قارئین کے سمجھنے کے لیے ایک مثال ہے کہ سابقہ سویلین حکومت عسکریت پسند اور انتہاپسندوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی کیونکہ پچھلے 30 سالوں سے ہم نے یہ پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کہ یہ ہمارے اسٹرٹیجک اثاثے ہیں اور یہ فیصلہ بھی ان قوتوں نے کیا ہوا ہے جو ہر دور میں نام نہاد جمہوری لولی لنگڑی حکومتوں کے پیچھے ہوتی ہیں۔
اب دہشت گردی ختم ہو تو کیسے ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اکھاڑے میں حریف کے سامنے پھینک دیا جائے اور کہا جائے کہ مقابلہ کرو۔ دہشت گرد آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ نہ یہ یہود ہیں نہ ہنود ۔ یہ ہمارے اپنے ہی کلمہ گو بھائی بند ہیں۔ دہشت گرد آزاد ہیں ہر طرح کی دہشت گردی کرنے میں اور سویلین حکومتیں اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس ہیں۔ وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتیں۔ یہ پوری قوم کے ساتھ عجیب ظالمانہ مذاق ہو رہا ہے اور عوام اس المناک صورت حال سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔
اس افسوسناک صورت حال پر عوام بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں جب کہ وہ اصل حقیقت سے آگاہ نہیں۔ پچھلے 30 سال سے اس ملک میں جو دہشت گردیاں ہوئی ہیں کبھی آپ نے سنا کہ کوئی دہشت گرد پکڑا گیا اگر پکڑا گیا تو اس کو کیا سزا ملی۔ کیا یہ دہشت گرد آسمان سے نازل ہوتے ہیں؟ پوری قوم ایک شاک اور صدمے کے عالم میں ہے۔ لوگوں نے ان دہشت گردیوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے نتیجے میں اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے چھوڑ دیے ہیں۔ ایک عجیب بے بسی کا عالم ہے حالانکہ اس کا حل بھی بہت آسان ہے۔ اتنا آسان کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
قوم نے صرف یہ کرنا ہے کہ متحد ہو کر دہشت گردوں' ان کے سرپرستوں اور حمایتیوں کا سوشل بائیکاٹ کرنا ہے' ان تمام لوگوں' گروہوں اور جماعتوں کا جو گولی اور گالی کی زبان بولیں ہر اس مسجد' مدرسے' مذہبی اجتماع اور گروہ سے کوئی تعلق نہ رکھیں جو مذہبی اور مسلکی منافرت پھیلاتا ہو۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ قوتیں بہت جلد اپنی موت آپ مر جائیں گی اور ملک بھی دہشت گردی سے نجات پا جائے گا۔ صرف حکومتوں کی طرف دیکھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ جب تک ہم بحیثیت قوم خود کچھ نہیں کریں گے۔
دہشت گردی کی اس لعنت سے نجات نہیں پا سکیں گے۔ وہ لعنت جو ملکی اور غیرملکی نادیدہ قوتوں کا آلہ کار بن کر پاکستان توڑنے اور تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہماری خاموشی جانبداری اور غیرجانبداری ہر گزرتے دن کے ساتھ دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ جو بات یاد رکھنے کی ہے کہ دہشت گرد قوتوں کو آنے والے انتخابات میں بادشاہ گر بننے نہ دیں ورنہ ہمیں آج سے بھی بدتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تو بات ہو رہی تھی لولی لنگڑی جمہوریت کی۔ اگر پاکستان میں مکمل جمہوریت رائج ہوتی تو پاکستان دہشت گردوں کے لیے زرخیز اور محفوظ سرزمین ثابت ہوتا نہ ہی آج اسے بدترین انرجی بحران کا سامنا کرنا پڑتا۔ مثال کے طور پر ملک میں آج جتنی بجلی پیدا ہو رہی ہے وہ ان پاور پروجیکٹ کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے جو بے نظیر بھٹو دور میں 96-93ء کے درمیان لگے۔ اس کے بعد 1996ء سے 2008ء تک بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ کا بھی اضافہ نہیں ہو سکا یعنی ایک نہ دو پورے 12 سال!!! آبادی بڑھتی گئی۔
بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا گیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی جو ملک کے خلاف کی گئی۔ ان نادیدہ قوتوں کی طرف سے جو اصل اقتدار کی مالک تھیں۔ اس معاملے میں صرف نواز شریف کو ہی قصوروار ٹھہرانا ناانصافی ہو گی۔ وہ قوتیں جو ہر ''جمہوری حکومت'' میں اقتدار کی اصل مالک رہیں۔ حقیقی ذمے داری ان کی ہی بنتی ہے۔ ایک ہزار میگاواٹ بجلی ایک ارب ڈالر میں پڑتی ہے۔
12 سال بجلی نہ پیدا کرنے کے سنگین جرم کی تلافی چند سالوں میں نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس میں ایک مدت لگتی ہے نہ ہی یہ آسان بات ہے لیکن آج میڈیا اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے قوم کو گمراہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سابق حکومت پر دہشت گردی اور بجلی کے بحران کے حوالے سے دن رات تبرا بھیجا جا رہا ہے حالانکہ ان دونوں معاملات دہشت گردی ہو یا انرجی کرائسس پیپلزپارٹی کا سرے سے کوئی قصور نہیں۔ دہشت گردی ہو یا بجلی کا بحران اگر یہ دو تباہ کن مسائل نہ ہوتے تو آج پاکستان خوش حال ہوتا اور اسے اس غربت' بے روزگاری' بھوک' مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس نے قوم کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
اگر میری بات پر بھروسہ نہیں تو نواز شریف صاحب کا لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کلمہ حق بھی سن لیں پھر آپ جان لیں گے کہ دہشت گردی ہو یا بجلی کا بحران کس طرح پاکستانی عوام کو پچھلے 65 سالوں سے ایک منظم سازش کے تحت سچ سے بے خبر رکھا گیا۔ حال ہی میں 23 مارچ جامعہ نعیمیہ میں تقریب ہوئی جس میں محترم نواز شریف صاحب مہمان خصوصی تھے۔ دوران تقریب مسلم لیگ (ن) لاہور کے ایک اہم لیڈر نے بلند آواز سے کہا جب نواز شریف تقریر کر رہے تھے کہ شہباز شریف صاحب دوسال میں لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے کیونکہ چند دن پہلے انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر وہ دو سال میں لوڈشیڈنگ نہ ختم کر سکے تو ان کا نام شہباز شریف نہیں۔
چھوٹے بھائی کے اس دعویٰ کے جواب میں نواز شریف صاحب نے جو کہا وہ یہ ہے۔ ''چند دن ہوئے میں نے ایک اخبار میں کسی کی تقریر پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر دو سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دے گا تو یہ بالکل غلط دعویٰ ہے اور یہ ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کے دعوے نہیں کرنے چاہئیں جن کا کوئی سر پیر نہ ہو۔'' انھوں نے جامعہ نعیمیہ لاہور میں شرکاء سے خطاب میں واضح کیا کہ ''اگر حقائق کو سامنے رکھیں تو لوڈشیڈنگ پانچ سال میں بھی ختم نہیں ہو سکتی''۔ اب پاکستانی قوم خود ہی فیصلہ کرے کہ پیپلزپارٹی حکومت دہشت گردی اور موجودہ تباہ کن لوڈشیڈنگ میں کس حد تک قصوروار ہے۔
2015ء میں پاکستان قائداعظم کے بتائے ہوئے راستے پر پھر سے گامزن ہو جائے گا۔
انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس حوالے سے بھرپور انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں نگران عبوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ سب سے مشکل مرحلہ نگران وزیراعظم کا تھا جس کا قرعہ فال غیرمتوقع طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شخصیت جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کے نام نکلا لیکن نگران وزیراعظم کا نام منتخب کرنے میں جو افسوس ناک صورت حال درپیش رہی امید ہے مستقبل میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سبق سیکھیں گی اور ان واقعات کا اعادہ نہیں ہو گا جو اس دفعہ ہوا۔
مہذب جمہوری حکومتوں میں نگران حکومتوں کی کوئی روایت نہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں جو حکومت ہوتی ہے وہی انتخابات کراتی ہے لیکن ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اول تو اس ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی۔ اگر تھی بھی تو اس کا کنٹرول سول اور ملٹری بیورو کریسی کے پاس تھا۔ ایک تو معذور' اپاہج' لولی لنگڑی جمہوریت جس میں سو چھید۔ حقیقی اقتدار سوائے چند سالوں کے کہیں اور تھا جو خارجہ امور، دفاع اور معیشت کے اہم فیصلے کرتا تھا۔ قارئین کے سمجھنے کے لیے ایک مثال ہے کہ سابقہ سویلین حکومت عسکریت پسند اور انتہاپسندوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی کیونکہ پچھلے 30 سالوں سے ہم نے یہ پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کہ یہ ہمارے اسٹرٹیجک اثاثے ہیں اور یہ فیصلہ بھی ان قوتوں نے کیا ہوا ہے جو ہر دور میں نام نہاد جمہوری لولی لنگڑی حکومتوں کے پیچھے ہوتی ہیں۔
اب دہشت گردی ختم ہو تو کیسے ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اکھاڑے میں حریف کے سامنے پھینک دیا جائے اور کہا جائے کہ مقابلہ کرو۔ دہشت گرد آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ نہ یہ یہود ہیں نہ ہنود ۔ یہ ہمارے اپنے ہی کلمہ گو بھائی بند ہیں۔ دہشت گرد آزاد ہیں ہر طرح کی دہشت گردی کرنے میں اور سویلین حکومتیں اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس ہیں۔ وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتیں۔ یہ پوری قوم کے ساتھ عجیب ظالمانہ مذاق ہو رہا ہے اور عوام اس المناک صورت حال سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔
اس افسوسناک صورت حال پر عوام بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں جب کہ وہ اصل حقیقت سے آگاہ نہیں۔ پچھلے 30 سال سے اس ملک میں جو دہشت گردیاں ہوئی ہیں کبھی آپ نے سنا کہ کوئی دہشت گرد پکڑا گیا اگر پکڑا گیا تو اس کو کیا سزا ملی۔ کیا یہ دہشت گرد آسمان سے نازل ہوتے ہیں؟ پوری قوم ایک شاک اور صدمے کے عالم میں ہے۔ لوگوں نے ان دہشت گردیوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے نتیجے میں اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے چھوڑ دیے ہیں۔ ایک عجیب بے بسی کا عالم ہے حالانکہ اس کا حل بھی بہت آسان ہے۔ اتنا آسان کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
قوم نے صرف یہ کرنا ہے کہ متحد ہو کر دہشت گردوں' ان کے سرپرستوں اور حمایتیوں کا سوشل بائیکاٹ کرنا ہے' ان تمام لوگوں' گروہوں اور جماعتوں کا جو گولی اور گالی کی زبان بولیں ہر اس مسجد' مدرسے' مذہبی اجتماع اور گروہ سے کوئی تعلق نہ رکھیں جو مذہبی اور مسلکی منافرت پھیلاتا ہو۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ قوتیں بہت جلد اپنی موت آپ مر جائیں گی اور ملک بھی دہشت گردی سے نجات پا جائے گا۔ صرف حکومتوں کی طرف دیکھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ جب تک ہم بحیثیت قوم خود کچھ نہیں کریں گے۔
دہشت گردی کی اس لعنت سے نجات نہیں پا سکیں گے۔ وہ لعنت جو ملکی اور غیرملکی نادیدہ قوتوں کا آلہ کار بن کر پاکستان توڑنے اور تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہماری خاموشی جانبداری اور غیرجانبداری ہر گزرتے دن کے ساتھ دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ جو بات یاد رکھنے کی ہے کہ دہشت گرد قوتوں کو آنے والے انتخابات میں بادشاہ گر بننے نہ دیں ورنہ ہمیں آج سے بھی بدتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تو بات ہو رہی تھی لولی لنگڑی جمہوریت کی۔ اگر پاکستان میں مکمل جمہوریت رائج ہوتی تو پاکستان دہشت گردوں کے لیے زرخیز اور محفوظ سرزمین ثابت ہوتا نہ ہی آج اسے بدترین انرجی بحران کا سامنا کرنا پڑتا۔ مثال کے طور پر ملک میں آج جتنی بجلی پیدا ہو رہی ہے وہ ان پاور پروجیکٹ کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے جو بے نظیر بھٹو دور میں 96-93ء کے درمیان لگے۔ اس کے بعد 1996ء سے 2008ء تک بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ کا بھی اضافہ نہیں ہو سکا یعنی ایک نہ دو پورے 12 سال!!! آبادی بڑھتی گئی۔
بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا گیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی جو ملک کے خلاف کی گئی۔ ان نادیدہ قوتوں کی طرف سے جو اصل اقتدار کی مالک تھیں۔ اس معاملے میں صرف نواز شریف کو ہی قصوروار ٹھہرانا ناانصافی ہو گی۔ وہ قوتیں جو ہر ''جمہوری حکومت'' میں اقتدار کی اصل مالک رہیں۔ حقیقی ذمے داری ان کی ہی بنتی ہے۔ ایک ہزار میگاواٹ بجلی ایک ارب ڈالر میں پڑتی ہے۔
12 سال بجلی نہ پیدا کرنے کے سنگین جرم کی تلافی چند سالوں میں نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس میں ایک مدت لگتی ہے نہ ہی یہ آسان بات ہے لیکن آج میڈیا اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے قوم کو گمراہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سابق حکومت پر دہشت گردی اور بجلی کے بحران کے حوالے سے دن رات تبرا بھیجا جا رہا ہے حالانکہ ان دونوں معاملات دہشت گردی ہو یا انرجی کرائسس پیپلزپارٹی کا سرے سے کوئی قصور نہیں۔ دہشت گردی ہو یا بجلی کا بحران اگر یہ دو تباہ کن مسائل نہ ہوتے تو آج پاکستان خوش حال ہوتا اور اسے اس غربت' بے روزگاری' بھوک' مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس نے قوم کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
اگر میری بات پر بھروسہ نہیں تو نواز شریف صاحب کا لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کلمہ حق بھی سن لیں پھر آپ جان لیں گے کہ دہشت گردی ہو یا بجلی کا بحران کس طرح پاکستانی عوام کو پچھلے 65 سالوں سے ایک منظم سازش کے تحت سچ سے بے خبر رکھا گیا۔ حال ہی میں 23 مارچ جامعہ نعیمیہ میں تقریب ہوئی جس میں محترم نواز شریف صاحب مہمان خصوصی تھے۔ دوران تقریب مسلم لیگ (ن) لاہور کے ایک اہم لیڈر نے بلند آواز سے کہا جب نواز شریف تقریر کر رہے تھے کہ شہباز شریف صاحب دوسال میں لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے کیونکہ چند دن پہلے انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر وہ دو سال میں لوڈشیڈنگ نہ ختم کر سکے تو ان کا نام شہباز شریف نہیں۔
چھوٹے بھائی کے اس دعویٰ کے جواب میں نواز شریف صاحب نے جو کہا وہ یہ ہے۔ ''چند دن ہوئے میں نے ایک اخبار میں کسی کی تقریر پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر دو سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دے گا تو یہ بالکل غلط دعویٰ ہے اور یہ ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کے دعوے نہیں کرنے چاہئیں جن کا کوئی سر پیر نہ ہو۔'' انھوں نے جامعہ نعیمیہ لاہور میں شرکاء سے خطاب میں واضح کیا کہ ''اگر حقائق کو سامنے رکھیں تو لوڈشیڈنگ پانچ سال میں بھی ختم نہیں ہو سکتی''۔ اب پاکستانی قوم خود ہی فیصلہ کرے کہ پیپلزپارٹی حکومت دہشت گردی اور موجودہ تباہ کن لوڈشیڈنگ میں کس حد تک قصوروار ہے۔
2015ء میں پاکستان قائداعظم کے بتائے ہوئے راستے پر پھر سے گامزن ہو جائے گا۔