این اے 105 چوہدری پرویزالٰہی بمقابلہ احمد مختار
چوہدری برادران کوپُورا یقین ہے کہ احمد مختار کے الیکشن لڑنے کی صورت میں ، وہ یہ سیٹ جیت لیں گے۔
GUJRANWALA:
میں یہ بات بہت پہلے لکھ چکا ہوں کہ گجرات این اے 105 سے چوہدری احمد مختار الیکشن لڑیں یا نہ لڑیں، چوہدری پرویزالٰہی بہرصورت یہ الیکشن لڑیں گے۔ یہ بات بھی بہت پہلے لکھ چکا ہوں کہ پنجاب میں بھلے بعض حلقوں میں ق لیگ اور پیپلزپارٹی میں ایڈجسٹمنٹ نہ ہو ، دونوںپارٹیاں آیندہ الیکشن مشترکہ طور پر لڑیں گی ۔ اِن دونوں باتوں میں اب کوئی شک نہیں رہا ۔ گجرات این اے 105 سے چوہدری پرویزالٰہی کو نہ صرف ق لیگ کا پارٹی ٹکٹ جاری کردیا گیا ہے ، بلکہ کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرا دیے گئے ہیں۔
بہت سارے قارئین پُوچھ رہے ہیں کہ کالم نگار نے یہ دونوں باتیں اس قدر قطعی طور پر کس طرح لکھی تھیں ، جب کہ بیشتر 'ذرایع 'کی' خبریں ' اس کے برعکس تھیں ۔میرا جواب یہ ہے کہ جب 'خواہشیں'، 'خبریں' بنتی ہیں تو ہمیشہ اس طرح کی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے ۔جیسے ، پچھلی حکومت کو اول روز سے اس طرح کی' خبروں' کا سامنا رہا کہ حکومت اب گئی ، کہ اب گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عین اس روز بھی ، جب گجرات میں چوہدری پرویزالٰہی کی طرف سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جا رہے تھے، بعض 'ذرایع' کی جانب سے یہ'خبریں' شایع ہو رہی تھیں کہ انھوں نے گجرات کا یہ حلقہ ، چوہدری احمد مختار کے لیے خالی چھوڑ دیا ہے ۔
یہ درست ہے کہ چوہدری احمد مختار نے بھرپورکوشش کی اور تقریباً ہر حربہ اختیار کیا کہ چوہدری پرویزالٰہی اس سیٹ پر الیکشن نہ لڑیں ، لیکن یہ خودچودھر ی احمد مختار کو بھی معلوم تھا کہ یہ ناممکن ہے۔ چوہدری برادران کے لیے گجرات کی یہ سیٹ کیوں اتنی اہم ہے ، اور کیوں وہ اسے اپنی آبائی سیٹ کہتے ہیں ، یہ سمجھنا ضروری ہے ۔گجرات کا یہ حلقہ حقیقتاً چوہدری خاندان کی انتخابی سیاست کا نقطہ آغاز ہے ۔ یہیں اُن کا آبائی گاوں ' نت' اوریہیں شہر میں اُن کا آبائی گھر' ظہور پیلس' واقع ہیں۔ 1962ء میں چوہدری ظہورالٰہی نے پہلی بار یہیں سے کامیابی حاصل کی تھی، تاہم اُس وقت یہ حلقہ ، موجودہ حلقہ این اے 104 پر بھی محیط تھا۔ اس حلقہ کو مستقر بناکر ہی چوہدری ظہورالٰہی نے پھر آگے پیش قدمی کی ۔
یہ وہ زمانہ ہے کہ پیپلزپارٹی ابھی معرضِ وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ 1970ء میں ، جب پورے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا پھریرا لہرا رہا تھا، گجرات کا یہ حلقہ اُن چند حلقوں میں شامل تھا، جہاں سے چوہدری ظہور الٰہی کی بدولت مُسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی ۔1977ء میں چوہدری ظہورالٰہی اپنے اوپر قائم کیے گئے سیاسی اور انتقامی مقدمات کی بنا پر قید میں تھے، لیکن اس کے باوجود جب انتخابات کامرحلہ آیا ، تو اس حلقہ میں مُسلم لیگ کے مُتفقہ امیدوار تھے ۔چوہدری ظہورالٰہی کے بعد ،1985ء میں یہی حلقہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی کی انتخابی سیاست کا نقطۂ آغاز بنا ۔ چوہدری شجاعت حسین پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی اور چوہدری پرویزالٰہی پہلی بار رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔
1985ء سے 2008ء تک چوہدری شجاعت حسین اِس حلقہ سے مجموعی طورپر 7 بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ چُکے ہیں اور 5 بار منتخب ہوچُکے ہیں۔ چوہدری پرویزالٰہی اِس حلقہ میں صوبائی سیٹ پر 1988ء سے 2002ء تک مسلسل 6 مرتبہ الیکشن لڑ چکے ہیں اور ہر مرتبہ ناقابلِ شکست رہے ہیں ۔2008ء میں اِس صوبائی سیٹ پر اُن کی نمایندگی مونس الٰہی نے کی اور وہ بھی کامیاب رہے ہیں۔اس کے برعکس چوہدری احمد مختار نے این اے105 میں پہلی بار 1990ء میں الیکشن لڑا ، اور اب تک 6 بار ، یعنی 5 بار قومی اسمبلی اور ایک بار 2008ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ چُکے ہیں، لیکن صرف 2 بار کامیاب ہو سکے ہیں۔
4 بار ، 3 بار قومی اسمبلی اور ایک بار 2008 ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار چکے ہیں۔ اس طرح اس حلقہ میں مجموعی طور پر چوہدری برادران کا پلہ بھاری رہا ہے۔ 2008ء میں اس حلقہ سے چوہدری شجاعت کی ناکامی کا بظاہرامکان نہیں تھا لیکن، بقول اُن کے ، پہلی بار اُن کا ماتھا اُس وقت ٹھنکا ، جب انتخابی نتائج آنے سے پہلے ہی اُن کو مطلع کردیاگیا کہ ق لیگ کو صرف 35،40 سیٹیں ملیں گی ، لیکن اُن کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ مُلکی مفاد میں وہ یہ نتائج تسلیم کرلیں ۔ یہ پیپلزپارٹی ، ق لیگ اتحاد ہی کا کرشمہ تھا کہ حکومت نے بآسانی اپنی آئینی مدت پوری کر لی ۔ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں اتحاد ختم ہوا تو ق لیگ اور پیپلزپارٹی میں فاصلے مزید سمٹ گئے۔
اور ، پھر اصولی طور پر زرداری اور چوہدری برادران میں یہ بات طے پا گئی کہ ن لیگ کے خلاف آیندہ انتخابات ، ق لیگ اور پیپلزپارٹی ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولہ کے تحت لڑیں گی۔پیپلزپارٹی اور ق لیگ میں انتخابی اتحادکے بعد عام خیال یہی تھا کہ احمد مختار ، چوہدری پرویزالٰہی کے مقابلہ میں الیکشن نہیں لڑ سکیں گے، کہ انتخابی مفاہمت ہو جانے کے بعد اخلاقی طور پر دونوں پارٹیاں اس امر کی پابند تھیں کہ ایک دوسرے کی مرکزی قیادت کے خلاف اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔ گزشتہ 5سال میں ، احمد مختار نے جس طرح گُجرات سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی ،اِس پر ایک ایک کرکے اُن کے قابلِ اعتماد ساتھی اُن کا ساتھ چھوڑ چُکے ہیں۔
اس لیے اندازہ یہی تھا کہ احمد مختار خود بھی اِس بار الیکشن لڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔یہ اطلاعات منظرعام پر آچکی ہیں کہ احمد مختار کا اپنی قیادت سے مطالبہ صرف یہ تھا کہ اُن کو سینیٹ اور اُن کی اہلیہ کے لیے قومی اسمبلی کی ٹکٹ دیں۔لیکن ، چوہدری برادران نے پیپلز پارٹی سے یہ کہہ کر ، کہ اس حلقہ سے اُن کو احمد مختار کے الیکشن لڑنے پر کوئی اعتراض نہیں، احمد مختار کی یہ حکمتِ عملی ظاہراً ناکام بنادی ۔
چوہدری برادران کوپُورا یقین ہے کہ احمد مختار کے الیکشن لڑنے کی صورت میں ، وہ یہ سیٹ جیت لیں گے کہ یُوں پیپلزپارٹی کی گزشتہ 5سال کی ''کارکردگی ''کا ملبہ احمد مختار پر پڑیگا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی اورچوہدری برادران کے خلاف شریف برادران کی حکمتِ عملی البتہ یہی ہوگی کہ احمد مختار اس سیٹ پر الیکشن ضرور لڑیں، تاکہ پنجاب میں ن لیگ کے خلاف ''پیپلزپارٹی ، ق لیگ اتحاد'' میں دراڑیں پڑیں؛ لیکن یہ بات اگر شریف برادران سمجھتے ہیں تو چوہدری برادران اور زرداری بھی سمجھتے ہوں گے۔