غیر معمولی عدالتی فیصلہ
آئین کے کسی دوسرے آرٹیکل سے اس بنیادی حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا
سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل اور بطور صدر مسلم لیگ(ن) ان کے تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نواز شریف کا نام بطور صدر پارٹی تمام ریکارڈ سے ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلے کے ذریعے قرار دیا کہ کوئی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں ہوسکتا۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام مسلم لیگ(ن)کی صدارت سے ہٹا دیا اور یہ عہدہ خالی قرار دے دیا، قبل ازیں بدھ کو کیس کی سماعت ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعت بنانے کا حق آئین فراہم کرتا ہے، آئین کے کسی دوسرے آرٹیکل سے اس بنیادی حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت عظمیٰ کا وزیراعظم کے عہدہ سے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد اب یہ دوسرا غیرمعمولی فیصلہ ہے جس کے سیاسی حلقوں، مبصرین اور قانونی ماہرین کے مطابق بڑے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، دوسری جانب سنجیدہ سیاسی مکاتب فکر نے زور دیا ہے کہ جاری کشمکش میں اسٹیک ہولڈرز کے تماشائی بننے کا عاقبت نااندیشانہ طرز عمل ناقابل معافی اور چیلنجنگ رہے گا، لہذا ہوش مندی سے کام نہ لیا گیا تو جمہوری نظام کونقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا جب کہ ٹکراؤ سے ریاستی معاملات تک سوالیہ نشان بن جائیں گے۔
ملک کے ممتاز ماہرین قانون نے ارباب اختیار، عدلیہ اور سیاسی قائدین سے اپیل کی ہے کہ وہ کشادہ نظری اور تصادم سے گریز کرتے ہوئے جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ کریں، ن لیگ کے لیے قانونی لڑائی کے سارے آپشن کھلے رہنے چاہئیں، شدید خطرات سر اٹھا رہے ہیں،اس لیے لازم ہے کہ اس کشمکش کا دی اینڈ خوشگوار ہو اور انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ بشمول میڈیا مکمل معروضیت اورسنسنی خیزی سے بالاتر رہتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ماحول سازگار کریں، جب کہ صائب رائے بھی یہی ہے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچنے سے پہلے مقتدر سیاستدان مل بیٹھ کر اس بحران اور تلاطم خیز صورتحال کے خاتمہ کے لیے عملی کوشش کریں ورنہ تاریخ سب کو بے عملی کا مجرم گردانے گی۔
ملک کو درپیش صورتحال کے سیاق و سباق میں جمہوری نظام کو اگر کوئی دھچکا لگا تو حکومت اور عدلیہ کے مابین ایک اعصاب شکن کشمکش کے باعث مارچ تک صورتحال کے مزید تہلکہ خیز رہنے کا امکان رہے گا ۔ اپوزیشن نے اسے تاریخی فیصلہ سے تعبیر کیا ہے، پی ٹی آئی کارکنان نے ملک بھر میں عدالتی فیصلہ پر جشن منایا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے بعد اگرچہ نوازشریف اب پارٹی کے سربراہ نہیں رہے مگر فیصلے کی حیثیت اور آئینی اور قانونی اثرات سمیت اس معاملے پر بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا سپریم کورٹ اس طرح کی وسیع تشریح کرسکتی ہے۔بعض ماہرین نے کہاکہ یہ فیصلہ ظاہرکرتا ہے کہ انتظامیہ اورعدلیہ کے درمیان محاذ آرائی زوروں پر ہے اور اس کشمکش میں نقصان بالآخرعوام کاہی ہونا ہے ۔انھوں نے کہا کہ یہ تاریخ بتائے گی کہ آیا ایسے فیصلے درست ہیں یا غلط۔
واضح رہے کہ 2اکتوبر 2017ء کو انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی منظوری کے بعد نواز شریف 3اکتوبر کو بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہوئے جسے تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے ایوب خان اور پرویز مشرف کا آمرانہ اور جمہوریت کش کالا قانون بحال ہو گیا، ایک سیاسی جماعت سے اس کا سربراہ چننے کا جمہوری حق چھین لیا گیا، ن لیگ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
دریں اثنا نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی اور تمام فیصلے کالعدم ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن)کے سینیٹ امیدواروں اب آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے صورتحال واضح کردی ہے، بلاشبہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے لیے عدالتی فیصلوں کے خلاف تصادم کی حکمت عملی اس جمہوری عمل کو بھی ڈی ریل کرسکتی ہے جس نے گزشتہ دس برسوں میں اپنی استقامت ظاہر کردی ہے اور کوئی ماورائے آئین شب خون مارے جانے کا واقعہ بھی نہیں ہوا جب کہ پہلے اس قسم کے مواقع میسر تھے ۔ اس لیے قوم کی یہی امید ہوگی کہ ن لیگ قیادت اور مسند انصاف پر مامور ججز کے حسن تدبر سے تاریخ کے اس نازک اورmake or break لمحہ کی حساسیت ڈی فیوز ہو ۔ جمہوریت کی بقا کی خاطر کوئی تاریخ ساز بریک تھرو ہو، سسٹم بچ جائے اور خدا کرے ملک کسی سانحہ سے دوچار نہ ہو۔
عدالت عظمیٰ کا وزیراعظم کے عہدہ سے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد اب یہ دوسرا غیرمعمولی فیصلہ ہے جس کے سیاسی حلقوں، مبصرین اور قانونی ماہرین کے مطابق بڑے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، دوسری جانب سنجیدہ سیاسی مکاتب فکر نے زور دیا ہے کہ جاری کشمکش میں اسٹیک ہولڈرز کے تماشائی بننے کا عاقبت نااندیشانہ طرز عمل ناقابل معافی اور چیلنجنگ رہے گا، لہذا ہوش مندی سے کام نہ لیا گیا تو جمہوری نظام کونقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا جب کہ ٹکراؤ سے ریاستی معاملات تک سوالیہ نشان بن جائیں گے۔
ملک کے ممتاز ماہرین قانون نے ارباب اختیار، عدلیہ اور سیاسی قائدین سے اپیل کی ہے کہ وہ کشادہ نظری اور تصادم سے گریز کرتے ہوئے جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ کریں، ن لیگ کے لیے قانونی لڑائی کے سارے آپشن کھلے رہنے چاہئیں، شدید خطرات سر اٹھا رہے ہیں،اس لیے لازم ہے کہ اس کشمکش کا دی اینڈ خوشگوار ہو اور انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ بشمول میڈیا مکمل معروضیت اورسنسنی خیزی سے بالاتر رہتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ماحول سازگار کریں، جب کہ صائب رائے بھی یہی ہے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچنے سے پہلے مقتدر سیاستدان مل بیٹھ کر اس بحران اور تلاطم خیز صورتحال کے خاتمہ کے لیے عملی کوشش کریں ورنہ تاریخ سب کو بے عملی کا مجرم گردانے گی۔
ملک کو درپیش صورتحال کے سیاق و سباق میں جمہوری نظام کو اگر کوئی دھچکا لگا تو حکومت اور عدلیہ کے مابین ایک اعصاب شکن کشمکش کے باعث مارچ تک صورتحال کے مزید تہلکہ خیز رہنے کا امکان رہے گا ۔ اپوزیشن نے اسے تاریخی فیصلہ سے تعبیر کیا ہے، پی ٹی آئی کارکنان نے ملک بھر میں عدالتی فیصلہ پر جشن منایا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے بعد اگرچہ نوازشریف اب پارٹی کے سربراہ نہیں رہے مگر فیصلے کی حیثیت اور آئینی اور قانونی اثرات سمیت اس معاملے پر بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا سپریم کورٹ اس طرح کی وسیع تشریح کرسکتی ہے۔بعض ماہرین نے کہاکہ یہ فیصلہ ظاہرکرتا ہے کہ انتظامیہ اورعدلیہ کے درمیان محاذ آرائی زوروں پر ہے اور اس کشمکش میں نقصان بالآخرعوام کاہی ہونا ہے ۔انھوں نے کہا کہ یہ تاریخ بتائے گی کہ آیا ایسے فیصلے درست ہیں یا غلط۔
واضح رہے کہ 2اکتوبر 2017ء کو انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی منظوری کے بعد نواز شریف 3اکتوبر کو بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہوئے جسے تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے ایوب خان اور پرویز مشرف کا آمرانہ اور جمہوریت کش کالا قانون بحال ہو گیا، ایک سیاسی جماعت سے اس کا سربراہ چننے کا جمہوری حق چھین لیا گیا، ن لیگ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
دریں اثنا نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی اور تمام فیصلے کالعدم ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن)کے سینیٹ امیدواروں اب آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے صورتحال واضح کردی ہے، بلاشبہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے لیے عدالتی فیصلوں کے خلاف تصادم کی حکمت عملی اس جمہوری عمل کو بھی ڈی ریل کرسکتی ہے جس نے گزشتہ دس برسوں میں اپنی استقامت ظاہر کردی ہے اور کوئی ماورائے آئین شب خون مارے جانے کا واقعہ بھی نہیں ہوا جب کہ پہلے اس قسم کے مواقع میسر تھے ۔ اس لیے قوم کی یہی امید ہوگی کہ ن لیگ قیادت اور مسند انصاف پر مامور ججز کے حسن تدبر سے تاریخ کے اس نازک اورmake or break لمحہ کی حساسیت ڈی فیوز ہو ۔ جمہوریت کی بقا کی خاطر کوئی تاریخ ساز بریک تھرو ہو، سسٹم بچ جائے اور خدا کرے ملک کسی سانحہ سے دوچار نہ ہو۔