بنگلہ دیش میں عدلیہ شدید دبائو کا شکار ہے
ایک جج بیرون ملک چلا گیا ہے جو ممکن ہے وطن واپس ہی نہ آئے کیونکہ وہ وزیراعظم کے پسندیدہ ججوں میں شامل نہیں۔
لاہور:
بنگلہ دیش میں عدلیہ اس قدر دباؤ کا شکار ہے کہ سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن لیڈر بیگم خالدہ ضیاء کو جو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اس پر یقین نہیں آتا۔ جج حضرات میں ایک بھگدڑ سی مچی ہوئی ہے کیونکہ وزیراعظم حسینہ شیخ ان سے مبینہ طور پر ناراض ہیں۔ ایک جج بیرون ملک چلا گیا ہے جو ممکن ہے وطن واپس ہی نہ آئے کیونکہ وہ وزیراعظم کے پسندیدہ ججوں میں شامل نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب وہ واپس ڈھاکا آئیں گے تو ان کے خلاف انتقامی انتقامی کارروائی ہو سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پوری عدلیہ ہی موجودہ صورت حال سے نجات کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ میں بیگم خالدہ ضیاء کی حمایت نہیں کر رہا لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خالدہ کو سزا دلوانے کے پیچھے وزیر اعظم شیخ حسینہ کا ہاتھ ہے کیونکہ عدلیہ کا یہ فیصلہ عمومی طور پر قابل قبول نہیں لگتا۔
خصوصی عدالت کے جج اختر الزمان نے سابقہ وزیراعظم کو سزا سناتے ہوئے وضاحت کی کہ موصوفہ کی خرابی صحت اور ان کے اہم سماجی مرتبے کے پیش نظر رعایت کرتے ہوئے بہت کم سزا سنائی گئی ہے۔ اس سزا کا مطلب ہے کہ بیگم خالدہ ضیا دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ ان کے خلاف الزامات میں 21 ملین ٹکا (تقریباً 1.6 کروڑ روپے) کی خورد برد کا الزام ہے جو بیرون ممالک سے ضیا یتیم خانہ ٹرسٹ کی امداد کے لیے بھجوائے گئے تھے۔
خالدہ ضیاء کے ساتھ ان کے بیٹے طارق رحمٰن سمیت 5 دیگر ملزموں کی 10 سال جیل کی سزا بھی سنائی گئی۔ استغاثہ نے موقف پیش کیا کہ ضیاء یتیم خانہ اور ضیاء ٹرسٹ بیگم خالدہ ضیاء کے مرحوم شوہر جنرل ضیاء الرحمٰن کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء اور ان کے تین معتمد ساتھیوں کو31 ملین ٹکا (تقریباً ڈھائی کروڑ روپے) کی خورد برد کا الزام بھی لگایا گیا ہے، جو مبینہ طور پر ضیاء مرحوم کے خیراتی ٹرسٹ سے لوٹے گئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء نے ایک پریس کانفرنس میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا ہے۔
انھوں نے حکومت پر دہشتگردی کے ریاستی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا۔ مجھے یقین تھا کہ عدالت مجھے بے قصور قرار دے کر رہا کر دے گی لیکن حکومت عدلیہ کو اپنے مخالفوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جو مجھے اور میرے اہل خانہ کو ڈرانے دھمکانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک کی تاریخ پر ایک دھبہ لگ جائے گا۔
خالدہ ضیاء نے مزید کہا کہ عدالت کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے تاکہ مجھے سیاست سے بے دخل کیا جا سکے اور میں انتخابات میں بھی حصہ نہ لے سکوں اور مجھے عوام سے دور کر دیا جائے لیکن میں ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کروں گی میں جیل جانے یا سزا سے نہیں ڈرتی۔ میں حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گی لیکن قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے بیگم ضیاء کا سیاسی کیریئر انجام کو پہنچ سکتا ہے کیونکہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی تاآنکہ انھیں سپریم کورٹ کی طرف سے اس سزا کے خلاف ریلیف نہ ملے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے کی نقل وصول کرتے ہی خالدہ ضیاء کے وکلا نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ یہ اپیل 1223 صفحات پر مشتمل ہے جس کا ذکر وکیل صفائی عبدالرزاق خان نے کیا۔ جس میں 25 وجوہات کی بنا پر خالدہ کی رہائی کی اپیل کی گئی ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ حکومت خالدہ ضیاء کو ہر قیمت پر انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا چاہتی ہے۔ لیکن وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت اس الزام سے انکار کر رہی ہے۔ خالدہ کے وکیل صفائی عبدالرزاق خاں نے کہا ہے کہ جب عدالت مقدمے کی سماعت کی تاریخ کا اعلان کرے گی تو ہم درخواست ضمانت دائر کر دیں گے۔
اس اپیل کی سماعت ایک دو رکنی بنچ اس ہفتے کے آخر میں کرے گا۔ بیگم ضیاء کئی عشروں سے وزیراعظم شیخ حسینہ کی سیاسی مخالف ہیں اور ان پر کرپشن کے جس قسم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں انھی الزامات کی وجہ سے بیگم ضیاء نے 2014ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ تاہم بیگم ضیاء اس مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے کا مصمم ارادہ رکھتی ہیں۔
بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا عالمگیر نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی بیگم ضیاء کے بغیر انتخابات میں حصہ نہیں لے گی اور بی این پی کی سربراہ کے بغیر کوئی قومی انتخابات منعقد نہیں ہو سکتے لیکن شیخ حسینہ کا کہنا ہے اگر بیگم ضیاء انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں تو پھر حکومت کیا کر سکتی ہے۔
شیخ حسینہ نے میڈیا کی تنقید کے جواب میں اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ خالدہ ضیاء کے خلاف 2008ء میں بھی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اس وقت ملک پر سابق صدر جنرل ضیا الرحمن کے حامیوں کی عبوری حکومت تھی۔ لیکن اگر بیگم ضیاء انتخابات سے باہر رہنا چاہتی ہیں تو اس بارے میں حکومت کیا کر سکتی ہے۔ اس وقت اینٹی کرپشن کمیشن نے آزادانہ طور پر کرپشن کی تحقیقات کی تھیں۔
شیخ حسینہ نے کہا خالدہ کے خلاف چونکہ عدالت نے سزا کا فیصلہ دیا ہے جسے حکومت واپس نہیں لے سکتی بیگم ضیاء 1991ء سے تین مرتبہ ملک کی وزیراعظم رہی ہیں ان پر کرپشن اور ملک دشمنی سمیت 30 الزامات لگائے گئے لیکن جب بیگم ضیاء کو کرپشن کے الزام میں فارغ کیا گیا تو انھوں نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا لیکن حسینہ نے اسے بی این پی کی اخلاقی غربت سے معنون کیا۔
تیسری دنیا کی عدلیہ اس اعتبار سے قابل ستائش ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے اور انھیں ان کے منصب سے ہٹا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے انھیں قصور وار قرار دیا ہے اور کا ہے کہ انھوں نے عدالت کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی نواز شریف نے عدالت کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انصاف حاصل کرنے کے لیے واپس عوام کے پاس جائیں گے۔
بھارت کی راشٹریا جنتا پارٹی کے سربراہ لالو پرشاد یادیو کا معاملہ بھی اس سے مماثل ہے ان کے خلاف رانچی کی ہائی کورٹ کی طرف سے مویشیوں کے چارے میں غبن کا مقدمہ ہے۔ انھوں نے بھی اس مقدمے کو عوامی عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اس نظام کی اصلاح ضروری ہے تاکہ یہ کرپٹ سیاست دانوں کو عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے سکے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مجرم سیاستدانوں کو حکومتی منصب پر براجمان ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)