جام ایک روشن تارا
جام ساقی نے ایک الگ اور شاندار راہ اپنے لیے سندھ میں نکالی۔
MUZAFFARABAD:
جام ساقی کا موروثی نام محمد جام ہے جو تھرکے دور دراز علاقے چھاچھرو میں پیدا ہوئے۔ چونکہ مزاج میں شاعرانہ ذوق کوٹ کوٹ کے بھرا تھا لہٰذا انھوں نے سندھی اور اردو شاعری کا خوب مطالعہ کیا اور ازخود جام کے ساتھ تخلص ساقی کو ڈال کر نام میں رنگ بھر دیا۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے پاس کرنے سے قبل ہی طلبا تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایوب خان نے ون یونٹ کی جو داغ بیل ڈالی تھی جس کے معنی یہ تھے کہ ہر صوبے کی یکساں سیاسی قوت کو جواز بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی سات کروڑ آبادی کو مغربی پاکستان کی 5 کروڑ آبادی کے برابر ٹھہرایا جائے۔
یعنی مشرقی پاکستان کو پسماندہ رکھنے اور مغربی پاکستان کے ہر صوبے کو بظاہر یکساں قوت کا مالک 40-40 ہزار بی ڈی (Basic Democracy) بلدیاتی ممبران ہی صوبوں کی قسمت کے مالک اور ملک کے قانون ساز ادارے کی شکل پاگئے اور 2 فروری 1965ء کے انتخابات نے ایوب خان کو فاتح قرار دے دیا گیا اور فادر آف نیشن (Father Of Nation) کی ہمشیرہ کو شکست خوردہ قرار دیا گیا۔
اس پر پورے ملک میں افسردگی، غم کا غیر نمایاں طوفان برپا تھا۔ خصوصاً چھوٹے صوبے نیم جاں ہوچلے تھے، مگر 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے ایوب خان کو پھر ہیرو بنادیا اور اس جنگ کو ایوب خان نے اپنی فتح کی شکل میں بدل دیا اورظاہر تھا اس کے اثرات پڑنے کا عمل تو فطری تھا کیونکہ بھارت کے مدمقابل ہونا کوئی آسان نہ تھا، مگر سندھ سے دارالسلطنت کے ہٹائے جانے کا عمل اسی دوران کیا گیا، مگر جب ایوب خان نے ڈیکوراما کا جشن شروع کیا تو ملک کی خاموش فضا میں این ایس ایف نے ایک طوفان بپا کردیا جب کسی لیڈرکو گستاخی کی جرأت نہ تھی تو طلبا طبل و علم لے کے چلے اور اسی دوران سندھ یونیورسٹی جام شورو اور پنڈی کے طلبا نے گرانقدر تحریک میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا۔ سندھ چونکہ سیاسی طور پر پسماندگی کے دور سے گزر رہا تھا تو یہاں بھی شور شرابہ زور پکڑتا گیا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملکی سطح پر این ایس ایف کے کارکن پس زنداں ہوئے۔ کراچی میں زبردست کریک ڈاؤن ہوا مگر سندھ میں این ایس ایف جس کو جام ساقی کی تیارکردہ تنظیم نے سندھ میں جئے سندھ کا نعرہ لگایا جو نعرہ سندھ کے طور پر مشہور ہوا اور اس نام کی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ مگر جام ساقی نے ایک الگ اور شاندار راہ اپنے لیے سندھ میں نکالی۔
سندھ کا مظلوم ترین طبقہ اور سندھ کا انمول خطہ جہاں ریگ صحرا کے تھپیڑوں میں جوان ہوئے اور پانی کی قلت کے علاوہ طویل تر راستوں پر عوامی سواری بھی دستیاب نہیں وہاں پر بلوغت کے دن گزارے پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے سندھ یونیورسٹی میں عبا اور قبا والے بنے۔
ان کے یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ اردو ادب کے نامور اور بلند قامت ادیبوں اور شعرا اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ خصوصاً ان میں سائیں عزیز اللہ جو 1948ء سے بھارت کو خیرباد کہہ کر کراچی آئے اور حیدر بخش جتوئی سندھی ہاری تحریک کے اہم رکن بنے۔ اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے دوسرے سیکریٹری جنرل امام علی نازش جو تقریباً عمر بھر زیر زمین مولوی کی وضع قطع کا بھیس بدل کے کام کرتے رہے جنھوں نے بڑی عسرت میں دن گزارے ان کی علمی ادبی صلاحیت سے اکتساب کیا۔
آپ نے سید سجاد ظہیر سے تربیت نہ پائی مگر ان کی کتابوں اور رفقا سے مل کر ایسا اکتساب علم کیا کہ سجاد ظہیر جو کلاں پور ضلع جونپور یوپی کے رہائشی تھے ان سے جام ساقی کی قدر قدرومنزلت کے علاوہ محبت کا رشتہ پیدا ہوگیا کہ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام سجاد ظہیر رکھا اور سندھ کے ہاریوں کی زبوں حالی دیکھ کر انھوں نے ہاریوں کے لیے خصوصی میدان کو چنا اور وہیں اصلاحات کا کیمپ لگایا۔ کوچہ کوچہ کو بہ کو ریگ صحرا میں اتنا کام کیا کہ ایک طریقے سے ہاری حقدارکا یہ دوسرا عمل تھا جو جام ساقی نے صحرائے تھر میں شروع کیا۔
ماضی میں 1966ء،1967ء اور 1968ء میں اس قدر میٹنگیں رکھیں کہ صحرا تھر میں جام ساقی کوئی انجان نام نہ تھا جام ساقی گو کہ سندھ این ایس ایف کے روح رواں تھے مگر این ایس ایف کی مرکزی لیڈرشپ ان کی بڑی تکریم و عزت کیا کرتے تھے۔ جب بھی جام ساقی جیل جاتے تھے تو این ایس ایف حرکت میں آتی تھی (شہر کے درودیوار پر چاکنگ جام ساقی کو رہا کرو، کراچی جیل اور شہر کی دیواریں اس کی گواہ تھیں کہ ان پرکیا لکھا گیا اور شہر کے اردو کالج اور ناظم آباد کے گرد و نواح میں ان کو اچھے کلمات سے یاد کیا جاتا رہا۔
1968ء سے 1970ء تک کا دور پاکستان میں بڑا ہی نوید انقلاب کا دور تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سندھ کے دیہی خصوصاً ضلع میر پور خاص اور شہر میں جام کا طوطی بولتا تھا۔ جب 1970ء کے انتخاب کے یوم قریب تر آگئے تو جام ساقی کی ٹیم نے طے کیا کہ میرپورخاص میں ان کے لیے استقبالیہ دیا جائے گا اور ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دور دور سے لوگ آتے گئے راقم خود ان دنوں ایک جوشیلا مجاہد تھا سو میرپور خاص چند احباب کے ہمراہ پہنچا۔ تقریباً 5 بجے کا وقت تھا میرپورخاص کی مین روڈ پر لوگوں کا ایک بڑا جم غفیر تھا جئے سندھ اور ہاری حقدار کے نعرے لگ رہے تھے۔
کہیں کہیں سے انقلاب آئے گا۔ انقلاب آئے گا۔ کسی کسی کونے سے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کی آواز بلند تھی۔ آوے آوے جام ساقی آوے آوے جام ساقی سندھ جو ساتھی جام ساقی ابھی یہ نعرے لگ ہی رہے تھے اور چند منٹ میں جام ساقی کی آمد میرپورخاص شہر میں متوقع تھی کہ رانا چندر سنگھ جو ان کے مدمقابل سندھ اسمبلی کا تھر سے امیدوار تھا اپنے کارکنوں کو ہر 25 تیس فٹ کے فاصلے پر استقبالیہ لوگوں کے ساتھ کھڑا کر رہا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے سے کم وقت پر شور ہوا کہ جام ساقی اپنی ٹیم کے ہمراہ آنے والے ہیں۔ نعرے اور زور و شور سے لگنے لگے اور دیکھتے دیکھتے جام ساقی اپنے کامریڈ ساتھیوں کے ہمراہ بس سے اترے۔ صحرا میں جو سواری چلتی ہے اس کو کیکڑا کہتے ہیں۔ مگر یہ بس تھی اور جام آہی گئے فلک شگاف نعرے رفتہ رفتہ کم ہوئے اور جام ساقی بس سے برآمد ہوئے۔
ابھی وہ آئے ہی تھے اور چند قدم چلے کہ رانا چندر سنگھ کے حواریوں نے کہنا شروع کردیا سرگوشی نہیں بلکہ خاصی بلند آواز میں سندھی اور اردو زبان میں یہ جملے ادا کیے جا رہے تھے ''بھنڑاں اس کے پاس تو خود کچھ نہیں ہے مسکین ماڑھنوں یہ ہمیں کیا دے گا'' یہ تیر بہ ہدف جملے پورے مشن پر ایٹمی ہتھیار کے طور پر استعمال کیے گئے اور تمام جلوس میں یہ آواز پھیلتی گئی اور آخرکار اس الیکشن کے نتائج مخالف امیدوار کے حق میں گئے۔ مگر تھوڑے عرصے میں رانا چندر سنگھ اپنی قیادت کے ثمرات سے محروم ہوتا گیا، مگر جام ساقی نے اپنی جدوجہد جاری رکھی زیادہ تر وقت جیل میں گزارنے کی وجہ سے جام ساقی پر ایک وقت عسرت کا ایسا بھی گزرا جب وہ ریگ صحرا غربا کی قسمت کا چراغ گاؤں گاؤں جلا رہے تھے تو ان کے گھر کی ملکہ نے مشکلات جو ایک طرف معاشی تھیں دوسری طرف مقامی حکومت کے جبر اور ذلت سے تنگ آکر کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خود کو غم کی وادی سے نکال باہر کیا۔ مگر اس کے بعد جام میں وہ ہمت نہ رہی جو پہلے تھی مگر جام ساقی نے یہ سفر جاری رکھا۔ جو ہر سانس پہ جاری ہے۔
چند دن قبل ان کے گھر، جہاں وہ علاج کی غرض سے ٹھہرے ہیں سچل گوٹھ جو محکمہ موسمیات سے بھی خاصا دور ہے گھر گیا تو غشی میں تھے ان کے بیٹے سروان نے کہا کہ آپ کے پرانے دوست انیس باقر آئے ہیں، آنکھ فوراً کھولی پھر بند کرلی دوبارہ میں نے کہا چلو یار! آخری انقلابی مارچ کی تیاری ہے مگر وہ پھر غشی میں چلے گئے۔ ان کی شخصیت کے نشیب و فراز کو محترمہ بینظیر بھٹو نے سمجھا اور جب وہ آخری بار پاکستان واپس آئیں تو انھوں نے تھرکول سے اس ہیرے کو باہر نکال کر چیف منسٹر سندھ کا مشیر مقرر کیا۔ جو ایک مختصر عرصے کے لیے کچھ راحت تھی پھر امراض مشکلات کی وجہ سے غالب آگئے چونکہ عمر بھی 70 کو تجاوز کرگئی ہے یہ بھی علاج میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ان کی سیاسی زندگی پر سیر حاصل گفتگو نہ ہوسکی اور نہ ادبی محاذ پر گوکہ جام ساقی نے سات کتابیں لکھی ہیں جن میں چند کتابیں خاصی مقبول ہوئیں اور سندھیالوجی ڈپارٹمنٹ میں موجود ہیں۔
ان کتابوں میں(1)۔ سندھ کے طالب علموں کی جدوجہد۔ (2)۔ضمیر کا قیدی۔ (3)۔مظلوم مومن کا مستقبل۔ یہ تمام کتابیں سندھی زبان کا سرمایہ ہیں کیونکہ یہ ایسے قلم کار کی آوازیں ہیں جس کے قلم سے اتحاد اور اتفاق کی مہک آتی ہے جام کے اعصاب پہ ضعف طاری ہے اللہ ان کی حفاظت کرے۔ جام جیسے روشن تارے کبھی کبھی نمودار ہوتے ہیں جو اندھیروں میں رہنمائی کرتے ہیں اور اکیلے پیدا ہوتے ہیں۔
جام ساقی کا موروثی نام محمد جام ہے جو تھرکے دور دراز علاقے چھاچھرو میں پیدا ہوئے۔ چونکہ مزاج میں شاعرانہ ذوق کوٹ کوٹ کے بھرا تھا لہٰذا انھوں نے سندھی اور اردو شاعری کا خوب مطالعہ کیا اور ازخود جام کے ساتھ تخلص ساقی کو ڈال کر نام میں رنگ بھر دیا۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے پاس کرنے سے قبل ہی طلبا تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایوب خان نے ون یونٹ کی جو داغ بیل ڈالی تھی جس کے معنی یہ تھے کہ ہر صوبے کی یکساں سیاسی قوت کو جواز بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی سات کروڑ آبادی کو مغربی پاکستان کی 5 کروڑ آبادی کے برابر ٹھہرایا جائے۔
یعنی مشرقی پاکستان کو پسماندہ رکھنے اور مغربی پاکستان کے ہر صوبے کو بظاہر یکساں قوت کا مالک 40-40 ہزار بی ڈی (Basic Democracy) بلدیاتی ممبران ہی صوبوں کی قسمت کے مالک اور ملک کے قانون ساز ادارے کی شکل پاگئے اور 2 فروری 1965ء کے انتخابات نے ایوب خان کو فاتح قرار دے دیا گیا اور فادر آف نیشن (Father Of Nation) کی ہمشیرہ کو شکست خوردہ قرار دیا گیا۔
اس پر پورے ملک میں افسردگی، غم کا غیر نمایاں طوفان برپا تھا۔ خصوصاً چھوٹے صوبے نیم جاں ہوچلے تھے، مگر 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے ایوب خان کو پھر ہیرو بنادیا اور اس جنگ کو ایوب خان نے اپنی فتح کی شکل میں بدل دیا اورظاہر تھا اس کے اثرات پڑنے کا عمل تو فطری تھا کیونکہ بھارت کے مدمقابل ہونا کوئی آسان نہ تھا، مگر سندھ سے دارالسلطنت کے ہٹائے جانے کا عمل اسی دوران کیا گیا، مگر جب ایوب خان نے ڈیکوراما کا جشن شروع کیا تو ملک کی خاموش فضا میں این ایس ایف نے ایک طوفان بپا کردیا جب کسی لیڈرکو گستاخی کی جرأت نہ تھی تو طلبا طبل و علم لے کے چلے اور اسی دوران سندھ یونیورسٹی جام شورو اور پنڈی کے طلبا نے گرانقدر تحریک میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا۔ سندھ چونکہ سیاسی طور پر پسماندگی کے دور سے گزر رہا تھا تو یہاں بھی شور شرابہ زور پکڑتا گیا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملکی سطح پر این ایس ایف کے کارکن پس زنداں ہوئے۔ کراچی میں زبردست کریک ڈاؤن ہوا مگر سندھ میں این ایس ایف جس کو جام ساقی کی تیارکردہ تنظیم نے سندھ میں جئے سندھ کا نعرہ لگایا جو نعرہ سندھ کے طور پر مشہور ہوا اور اس نام کی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ مگر جام ساقی نے ایک الگ اور شاندار راہ اپنے لیے سندھ میں نکالی۔
سندھ کا مظلوم ترین طبقہ اور سندھ کا انمول خطہ جہاں ریگ صحرا کے تھپیڑوں میں جوان ہوئے اور پانی کی قلت کے علاوہ طویل تر راستوں پر عوامی سواری بھی دستیاب نہیں وہاں پر بلوغت کے دن گزارے پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے سندھ یونیورسٹی میں عبا اور قبا والے بنے۔
ان کے یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ اردو ادب کے نامور اور بلند قامت ادیبوں اور شعرا اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ خصوصاً ان میں سائیں عزیز اللہ جو 1948ء سے بھارت کو خیرباد کہہ کر کراچی آئے اور حیدر بخش جتوئی سندھی ہاری تحریک کے اہم رکن بنے۔ اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے دوسرے سیکریٹری جنرل امام علی نازش جو تقریباً عمر بھر زیر زمین مولوی کی وضع قطع کا بھیس بدل کے کام کرتے رہے جنھوں نے بڑی عسرت میں دن گزارے ان کی علمی ادبی صلاحیت سے اکتساب کیا۔
آپ نے سید سجاد ظہیر سے تربیت نہ پائی مگر ان کی کتابوں اور رفقا سے مل کر ایسا اکتساب علم کیا کہ سجاد ظہیر جو کلاں پور ضلع جونپور یوپی کے رہائشی تھے ان سے جام ساقی کی قدر قدرومنزلت کے علاوہ محبت کا رشتہ پیدا ہوگیا کہ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام سجاد ظہیر رکھا اور سندھ کے ہاریوں کی زبوں حالی دیکھ کر انھوں نے ہاریوں کے لیے خصوصی میدان کو چنا اور وہیں اصلاحات کا کیمپ لگایا۔ کوچہ کوچہ کو بہ کو ریگ صحرا میں اتنا کام کیا کہ ایک طریقے سے ہاری حقدارکا یہ دوسرا عمل تھا جو جام ساقی نے صحرائے تھر میں شروع کیا۔
ماضی میں 1966ء،1967ء اور 1968ء میں اس قدر میٹنگیں رکھیں کہ صحرا تھر میں جام ساقی کوئی انجان نام نہ تھا جام ساقی گو کہ سندھ این ایس ایف کے روح رواں تھے مگر این ایس ایف کی مرکزی لیڈرشپ ان کی بڑی تکریم و عزت کیا کرتے تھے۔ جب بھی جام ساقی جیل جاتے تھے تو این ایس ایف حرکت میں آتی تھی (شہر کے درودیوار پر چاکنگ جام ساقی کو رہا کرو، کراچی جیل اور شہر کی دیواریں اس کی گواہ تھیں کہ ان پرکیا لکھا گیا اور شہر کے اردو کالج اور ناظم آباد کے گرد و نواح میں ان کو اچھے کلمات سے یاد کیا جاتا رہا۔
1968ء سے 1970ء تک کا دور پاکستان میں بڑا ہی نوید انقلاب کا دور تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سندھ کے دیہی خصوصاً ضلع میر پور خاص اور شہر میں جام کا طوطی بولتا تھا۔ جب 1970ء کے انتخاب کے یوم قریب تر آگئے تو جام ساقی کی ٹیم نے طے کیا کہ میرپورخاص میں ان کے لیے استقبالیہ دیا جائے گا اور ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دور دور سے لوگ آتے گئے راقم خود ان دنوں ایک جوشیلا مجاہد تھا سو میرپور خاص چند احباب کے ہمراہ پہنچا۔ تقریباً 5 بجے کا وقت تھا میرپورخاص کی مین روڈ پر لوگوں کا ایک بڑا جم غفیر تھا جئے سندھ اور ہاری حقدار کے نعرے لگ رہے تھے۔
کہیں کہیں سے انقلاب آئے گا۔ انقلاب آئے گا۔ کسی کسی کونے سے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کی آواز بلند تھی۔ آوے آوے جام ساقی آوے آوے جام ساقی سندھ جو ساتھی جام ساقی ابھی یہ نعرے لگ ہی رہے تھے اور چند منٹ میں جام ساقی کی آمد میرپورخاص شہر میں متوقع تھی کہ رانا چندر سنگھ جو ان کے مدمقابل سندھ اسمبلی کا تھر سے امیدوار تھا اپنے کارکنوں کو ہر 25 تیس فٹ کے فاصلے پر استقبالیہ لوگوں کے ساتھ کھڑا کر رہا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے سے کم وقت پر شور ہوا کہ جام ساقی اپنی ٹیم کے ہمراہ آنے والے ہیں۔ نعرے اور زور و شور سے لگنے لگے اور دیکھتے دیکھتے جام ساقی اپنے کامریڈ ساتھیوں کے ہمراہ بس سے اترے۔ صحرا میں جو سواری چلتی ہے اس کو کیکڑا کہتے ہیں۔ مگر یہ بس تھی اور جام آہی گئے فلک شگاف نعرے رفتہ رفتہ کم ہوئے اور جام ساقی بس سے برآمد ہوئے۔
ابھی وہ آئے ہی تھے اور چند قدم چلے کہ رانا چندر سنگھ کے حواریوں نے کہنا شروع کردیا سرگوشی نہیں بلکہ خاصی بلند آواز میں سندھی اور اردو زبان میں یہ جملے ادا کیے جا رہے تھے ''بھنڑاں اس کے پاس تو خود کچھ نہیں ہے مسکین ماڑھنوں یہ ہمیں کیا دے گا'' یہ تیر بہ ہدف جملے پورے مشن پر ایٹمی ہتھیار کے طور پر استعمال کیے گئے اور تمام جلوس میں یہ آواز پھیلتی گئی اور آخرکار اس الیکشن کے نتائج مخالف امیدوار کے حق میں گئے۔ مگر تھوڑے عرصے میں رانا چندر سنگھ اپنی قیادت کے ثمرات سے محروم ہوتا گیا، مگر جام ساقی نے اپنی جدوجہد جاری رکھی زیادہ تر وقت جیل میں گزارنے کی وجہ سے جام ساقی پر ایک وقت عسرت کا ایسا بھی گزرا جب وہ ریگ صحرا غربا کی قسمت کا چراغ گاؤں گاؤں جلا رہے تھے تو ان کے گھر کی ملکہ نے مشکلات جو ایک طرف معاشی تھیں دوسری طرف مقامی حکومت کے جبر اور ذلت سے تنگ آکر کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خود کو غم کی وادی سے نکال باہر کیا۔ مگر اس کے بعد جام میں وہ ہمت نہ رہی جو پہلے تھی مگر جام ساقی نے یہ سفر جاری رکھا۔ جو ہر سانس پہ جاری ہے۔
چند دن قبل ان کے گھر، جہاں وہ علاج کی غرض سے ٹھہرے ہیں سچل گوٹھ جو محکمہ موسمیات سے بھی خاصا دور ہے گھر گیا تو غشی میں تھے ان کے بیٹے سروان نے کہا کہ آپ کے پرانے دوست انیس باقر آئے ہیں، آنکھ فوراً کھولی پھر بند کرلی دوبارہ میں نے کہا چلو یار! آخری انقلابی مارچ کی تیاری ہے مگر وہ پھر غشی میں چلے گئے۔ ان کی شخصیت کے نشیب و فراز کو محترمہ بینظیر بھٹو نے سمجھا اور جب وہ آخری بار پاکستان واپس آئیں تو انھوں نے تھرکول سے اس ہیرے کو باہر نکال کر چیف منسٹر سندھ کا مشیر مقرر کیا۔ جو ایک مختصر عرصے کے لیے کچھ راحت تھی پھر امراض مشکلات کی وجہ سے غالب آگئے چونکہ عمر بھی 70 کو تجاوز کرگئی ہے یہ بھی علاج میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ان کی سیاسی زندگی پر سیر حاصل گفتگو نہ ہوسکی اور نہ ادبی محاذ پر گوکہ جام ساقی نے سات کتابیں لکھی ہیں جن میں چند کتابیں خاصی مقبول ہوئیں اور سندھیالوجی ڈپارٹمنٹ میں موجود ہیں۔
ان کتابوں میں(1)۔ سندھ کے طالب علموں کی جدوجہد۔ (2)۔ضمیر کا قیدی۔ (3)۔مظلوم مومن کا مستقبل۔ یہ تمام کتابیں سندھی زبان کا سرمایہ ہیں کیونکہ یہ ایسے قلم کار کی آوازیں ہیں جس کے قلم سے اتحاد اور اتفاق کی مہک آتی ہے جام کے اعصاب پہ ضعف طاری ہے اللہ ان کی حفاظت کرے۔ جام جیسے روشن تارے کبھی کبھی نمودار ہوتے ہیں جو اندھیروں میں رہنمائی کرتے ہیں اور اکیلے پیدا ہوتے ہیں۔