پی ٹی آئی ۔ جی
پی ٹی آئی سے وفا شعاری کی یہ حد تھی کہ فوزیہ قصوری نے امریکی شہریت بھی چھوڑ دی۔
ISLAMABAD:
قبائلی پس منظر رکھنے والی ایک خاتون کے بارے میں آدمی کیا لکھے؟خاص طور پر جب وہ رکن اسمبلی بھی ہو اور اپنی محسن پارٹی کی باغی بھی ۔کچھ استثنائی واقعات چھوڑ کر، ہمارے ہاں بالعموم خواتین کا نہایت احترام کیا جاتا ہے۔ الحمد للہ۔ محترمہ عائشہ گلہ لئی وزیر سے کئی لوگوں کو کئی گلے شکوے ہو سکتے ہیں مگر اُن کی بہادری اور جرأت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عائشہ نے وزیرستان ایسے سخت قبائلی ماحول سے نکل کر کامیابی کے ساتھ قومی سیاست میں اپنا نام بنایا ہے۔
یوں ایک خاتون ہونے کے ناتے وہ خصوصی شاباش اور ستائش کی مستحق ہیں۔ ریحام خان کی طرح وہ بھی صحافی رہ چکی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے انھیں اپنے والد گرامی کی بھی قدم قدم پر اعانت حاصل رہی ہے۔ اُن کی چھوٹی ہمشیرہ نے بھی اِسی لیے کھیل کی دنیا میں عالمی شہرت پائی ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ پی ٹی آئی کی رکنِ اسمبلی محترمہ عائشہ گلہ لئی کو اپنی پارٹی کے سربراہ جناب عمران خان سے کچھ شکوے پیدا ہو گئے۔ استقامت اُن کی دیدنی ہے کہ وہ جرأت کے ساتھ یہ ''شکوے'' میڈیا میں لے آئیں۔ ان شکووں میں الزامات کا عنصر نمایاں تھا۔ان الزامات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
سب لوگوں کا یہ کہنا اصولی تھا کہ عائشہ گلہ لئی اپنی پارٹی سربراہ کے خلاف برہنہ تلوار تھامے میدان میں اُتری ہیں تو انھیں پی ٹی آئی سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ عائشہ نے مگر ایسا نہیں کیا۔ وہ ابھی تک قومی اسمبلی کی اُس رکنیت سے چمٹی ہُوئی ہیں جو عمران خان اور پی ٹی آئی کا تحفہ ہے۔
مبینہ طور پر کپتان کی طرف سے عائشہ کے موبائل فون پر ارسال کیے گئے میسجزنے ہماری سیاست میں خاصے دن طوفان اٹھایا۔ یوں بھی محسوس ہُوا جیسے کپتان دیوار سے لگ گئے ہیںکہ عائشہ گلہ لئی کی کپتان کے خلاف تہمتانہ یلغار خاصی طاقتور تھی۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے ان الزامات کا وقتی طور پر فائدہ بھی خوب اٹھایا، جیسا کہ ایسے معاملات میں اکثر ہوتا ہے۔ اب عائشہ گلہ لئی صاحبہ اپنی نئی جماعت ''پاکستان تحریکِ انصاف، گلہ لئی''(پی ٹی آئی۔جی)لانچ کررہی ہیں۔ شنید ہے کہ اِس نیک کام کے لیے آج جمعہ کے مبارک دن کا انتخاب کیا گیا ہے۔''پی ٹی آئی۔جی'' کا انجام کیا ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس اقدام سے کپتان کو نقصان پہنچنے کے بہرحال اندیشے موجود ہیں۔
عائشہ گلالئی کو تو خیر اپنا رنج اور غصہ ہے جس کی بنیاد پر وہ کپتان کے خلاف اپنی جماعت (پی ٹی آئی۔جی)بنانے جارہی ہیں لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ خان صاحب نے پی ٹی آئی کی بہت سی نمایاں خواتین کو وہ مقام اور احترام نہیں دیا جس کی وہ میرٹ کی اساس پر حقدار تھیں۔ ان خواتین نے پاکستان تحریکِ انصاف کی مضبوطی، استحکام اور مقبولیت کے لیے شب وروز کام کیا۔ اپنے گھر بار کو نظر انداز کیا۔ اپنا بہترین وقت پی ٹی آئی کے لیے وقف کیے رکھا۔ اور یہ خدمات دنوں، ہفتوںاور مہینوں کے لیے نہیں تھیں بلکہ برسوں پر محیط رہیں۔اور جب ان محنتوں کا نتیجہ نکلا، انھیں پھل سے محروم کر دیا گیا۔
محترمہ فوزیہ قصوری ہی کی مثال لے لیجئے: کپتان اور پی ٹی آئی کے آدرشوں اور آرزوؤں پر دل وجان سے جانثار اس عظیم خاتون نے پی ٹی آئی کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ امریکا اور کینیڈا میں پی ٹی آئی کے لیے فنڈز اکٹھے کرتی رہیں۔ کپتان صاحب جب بھی اپنے کینسر اسپتال کے لیے چندہ لینے شمالی امریکا پہنچے، فوزیہ بغیر کسی لالچ اور لوبھ عمران کے کندھے سے کندھا ملا کر ہمیشہ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتی نظر آتی رہیں۔ وہ پاکستان آکر بھی پی ٹی آئی کی خدمات میں سر گرداں رہیں۔
پی ٹی آئی سے وفا شعاری کی یہ حد تھی کہ فوزیہ قصوری نے امریکی شہریت بھی چھوڑ دی۔ ان سب کا صلہ مگر کیا ملا؟ جناب کپتان نے صوبائی، قومی اور سینیٹ کے لیے خواتین کی مخصوص سیٹوں کی تقسیم کے وقت فوزیہ کو بالکل فراموش کر دیا۔ تو کیا اس اقدام سے اِس خاتون کا دل نہ ٹوٹتا؟ لیکن وہ خاموش رہیں۔ زبان سے شکوے میں ایک لفظ نہ نکالا۔ منحرف ہُوئیں نہ کوئی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور نہ ہی کبھی پی ٹی آئی کے مخالفین کی زبان بولنے پر آمادہ ہُوئیں۔ناز بلوچ صاحبہ کی کہانی بھی فوزیہ قصوری صاحبہ سے مختلف نہیں ہے۔ بلوچ قبیلے کی اس شریف النفس خاتون نے بھی پی ٹی آئی کے لیے ہر محاذ پر جنگ کی۔ ازل کی وفادار جمائما تو اب تک اُن پر احسان کرتی چلی آرہی ہیں۔ لیکن کیا وہ انھیں اپنا محسن ماننے اور تسلیم کرنے پر تیار ہیں؟
ایسے ماحول میں جب کہ کپتان کی سابقہ اہلیہ محترمہ ریحام خان مبینہ طور کپتان مخالف کوئی کتاب سامنے لانے والی ہیں، اگر فوزیہ قصوری، ناز بلوچ اور عائشہ گلہ لئی بھی یکجا اور یکجہت ہو کر جناب عمران خان کے خلاف اکٹھی میدان میں اُتر آئیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کی حالت کیا ہو سکتی ہے؟
بھارتی میڈیا کو ریحام خان کا دیا گیا انٹرویو کئی روز تک کپتان اور اُن کے چاہنے والوں کے کندھوں پر بُری طرح سواررہا ہے۔سچ یہ ہے کہ میڈیا کے میدان میں یہ چاروں بہادر خواتین پی ٹی آئی کوٹَف ٹائم دے سکتی ہیں۔ ایسے امکانات کو سرے ہی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اگر ایسا ہو جائے تو ''پی ٹی آئی۔ جی'' کی پتنگ بھی بلند ہو سکتی ہے اور کپتان کا سیاسی پھلکا بھی اڑایا جا سکتا ہے۔پی ٹی آئی کی قیادت جناب فواد چوہدری کی زبان میں یہ گلہ کرتی نظر آتی ہے کہ نواز شریف اور اُن کی پارٹی(پی ایم ایل این)ریحام خان اور عائشہ گلہ لئی کو کپتان کے خلاف بروئے کار لارہے ہیں(جیسا کہ عائشہ گلہ لئی نے الزام عائد کیا کہ نون لیگ نے انھیں کہا تھا کہ انھیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے گا بشرطیکہ وہ فوج کے خلاف بات کریںمگر انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔
نون لیگ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہُوئے کہا کہ عاشہ گلہ لئی کی طرف سے یہ الزام سوائے سستی شہرت حاصل کرنے کے کوئی حقیقت نہیں رکھتا) پی ٹی آئی والوں کا یہ شکوہ اپنی جگہ بجا ہو سکتا ہے لیکن ہماری سیاست میں یہ اقدام کیا نیا ہے؟ کیا دنیا بھر کے سیاستدان اپنے حریفوں کی ناک رگڑنے اور اُن کا تیا پانچہ کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتے؟ اُن کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی کمزوریوں کا بروقت فائدہ نہیں اُٹھاتے؟ کیا بھارت، امریکا اور برطانیہ میں ایسا نہیں ہوتا؟ کیا خود جناب عمران خان ان ہتھکنڈوں سے کبھی دُور رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نواز شریف صاحب سے کسی آئیڈیل صورت کی توقع کیوں اور کیسے کی جاسکتی ہے؟
گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران کپتان صاحب نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کونسی کسر چھوڑی ہے؟ کیا کیا اقدامات نہیں کیے؟ کیا یہ سب اصولی اور اخلاقی تھے؟ پھر کپتان، فواد حسین چوہدری اور ساری پی ٹی آئی کسی سے بلند تر توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟
قبائلی پس منظر رکھنے والی ایک خاتون کے بارے میں آدمی کیا لکھے؟خاص طور پر جب وہ رکن اسمبلی بھی ہو اور اپنی محسن پارٹی کی باغی بھی ۔کچھ استثنائی واقعات چھوڑ کر، ہمارے ہاں بالعموم خواتین کا نہایت احترام کیا جاتا ہے۔ الحمد للہ۔ محترمہ عائشہ گلہ لئی وزیر سے کئی لوگوں کو کئی گلے شکوے ہو سکتے ہیں مگر اُن کی بہادری اور جرأت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عائشہ نے وزیرستان ایسے سخت قبائلی ماحول سے نکل کر کامیابی کے ساتھ قومی سیاست میں اپنا نام بنایا ہے۔
یوں ایک خاتون ہونے کے ناتے وہ خصوصی شاباش اور ستائش کی مستحق ہیں۔ ریحام خان کی طرح وہ بھی صحافی رہ چکی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے انھیں اپنے والد گرامی کی بھی قدم قدم پر اعانت حاصل رہی ہے۔ اُن کی چھوٹی ہمشیرہ نے بھی اِسی لیے کھیل کی دنیا میں عالمی شہرت پائی ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ پی ٹی آئی کی رکنِ اسمبلی محترمہ عائشہ گلہ لئی کو اپنی پارٹی کے سربراہ جناب عمران خان سے کچھ شکوے پیدا ہو گئے۔ استقامت اُن کی دیدنی ہے کہ وہ جرأت کے ساتھ یہ ''شکوے'' میڈیا میں لے آئیں۔ ان شکووں میں الزامات کا عنصر نمایاں تھا۔ان الزامات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
سب لوگوں کا یہ کہنا اصولی تھا کہ عائشہ گلہ لئی اپنی پارٹی سربراہ کے خلاف برہنہ تلوار تھامے میدان میں اُتری ہیں تو انھیں پی ٹی آئی سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ عائشہ نے مگر ایسا نہیں کیا۔ وہ ابھی تک قومی اسمبلی کی اُس رکنیت سے چمٹی ہُوئی ہیں جو عمران خان اور پی ٹی آئی کا تحفہ ہے۔
مبینہ طور پر کپتان کی طرف سے عائشہ کے موبائل فون پر ارسال کیے گئے میسجزنے ہماری سیاست میں خاصے دن طوفان اٹھایا۔ یوں بھی محسوس ہُوا جیسے کپتان دیوار سے لگ گئے ہیںکہ عائشہ گلہ لئی کی کپتان کے خلاف تہمتانہ یلغار خاصی طاقتور تھی۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے ان الزامات کا وقتی طور پر فائدہ بھی خوب اٹھایا، جیسا کہ ایسے معاملات میں اکثر ہوتا ہے۔ اب عائشہ گلہ لئی صاحبہ اپنی نئی جماعت ''پاکستان تحریکِ انصاف، گلہ لئی''(پی ٹی آئی۔جی)لانچ کررہی ہیں۔ شنید ہے کہ اِس نیک کام کے لیے آج جمعہ کے مبارک دن کا انتخاب کیا گیا ہے۔''پی ٹی آئی۔جی'' کا انجام کیا ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس اقدام سے کپتان کو نقصان پہنچنے کے بہرحال اندیشے موجود ہیں۔
عائشہ گلالئی کو تو خیر اپنا رنج اور غصہ ہے جس کی بنیاد پر وہ کپتان کے خلاف اپنی جماعت (پی ٹی آئی۔جی)بنانے جارہی ہیں لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ خان صاحب نے پی ٹی آئی کی بہت سی نمایاں خواتین کو وہ مقام اور احترام نہیں دیا جس کی وہ میرٹ کی اساس پر حقدار تھیں۔ ان خواتین نے پاکستان تحریکِ انصاف کی مضبوطی، استحکام اور مقبولیت کے لیے شب وروز کام کیا۔ اپنے گھر بار کو نظر انداز کیا۔ اپنا بہترین وقت پی ٹی آئی کے لیے وقف کیے رکھا۔ اور یہ خدمات دنوں، ہفتوںاور مہینوں کے لیے نہیں تھیں بلکہ برسوں پر محیط رہیں۔اور جب ان محنتوں کا نتیجہ نکلا، انھیں پھل سے محروم کر دیا گیا۔
محترمہ فوزیہ قصوری ہی کی مثال لے لیجئے: کپتان اور پی ٹی آئی کے آدرشوں اور آرزوؤں پر دل وجان سے جانثار اس عظیم خاتون نے پی ٹی آئی کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ امریکا اور کینیڈا میں پی ٹی آئی کے لیے فنڈز اکٹھے کرتی رہیں۔ کپتان صاحب جب بھی اپنے کینسر اسپتال کے لیے چندہ لینے شمالی امریکا پہنچے، فوزیہ بغیر کسی لالچ اور لوبھ عمران کے کندھے سے کندھا ملا کر ہمیشہ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتی نظر آتی رہیں۔ وہ پاکستان آکر بھی پی ٹی آئی کی خدمات میں سر گرداں رہیں۔
پی ٹی آئی سے وفا شعاری کی یہ حد تھی کہ فوزیہ قصوری نے امریکی شہریت بھی چھوڑ دی۔ ان سب کا صلہ مگر کیا ملا؟ جناب کپتان نے صوبائی، قومی اور سینیٹ کے لیے خواتین کی مخصوص سیٹوں کی تقسیم کے وقت فوزیہ کو بالکل فراموش کر دیا۔ تو کیا اس اقدام سے اِس خاتون کا دل نہ ٹوٹتا؟ لیکن وہ خاموش رہیں۔ زبان سے شکوے میں ایک لفظ نہ نکالا۔ منحرف ہُوئیں نہ کوئی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور نہ ہی کبھی پی ٹی آئی کے مخالفین کی زبان بولنے پر آمادہ ہُوئیں۔ناز بلوچ صاحبہ کی کہانی بھی فوزیہ قصوری صاحبہ سے مختلف نہیں ہے۔ بلوچ قبیلے کی اس شریف النفس خاتون نے بھی پی ٹی آئی کے لیے ہر محاذ پر جنگ کی۔ ازل کی وفادار جمائما تو اب تک اُن پر احسان کرتی چلی آرہی ہیں۔ لیکن کیا وہ انھیں اپنا محسن ماننے اور تسلیم کرنے پر تیار ہیں؟
ایسے ماحول میں جب کہ کپتان کی سابقہ اہلیہ محترمہ ریحام خان مبینہ طور کپتان مخالف کوئی کتاب سامنے لانے والی ہیں، اگر فوزیہ قصوری، ناز بلوچ اور عائشہ گلہ لئی بھی یکجا اور یکجہت ہو کر جناب عمران خان کے خلاف اکٹھی میدان میں اُتر آئیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کی حالت کیا ہو سکتی ہے؟
بھارتی میڈیا کو ریحام خان کا دیا گیا انٹرویو کئی روز تک کپتان اور اُن کے چاہنے والوں کے کندھوں پر بُری طرح سواررہا ہے۔سچ یہ ہے کہ میڈیا کے میدان میں یہ چاروں بہادر خواتین پی ٹی آئی کوٹَف ٹائم دے سکتی ہیں۔ ایسے امکانات کو سرے ہی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اگر ایسا ہو جائے تو ''پی ٹی آئی۔ جی'' کی پتنگ بھی بلند ہو سکتی ہے اور کپتان کا سیاسی پھلکا بھی اڑایا جا سکتا ہے۔پی ٹی آئی کی قیادت جناب فواد چوہدری کی زبان میں یہ گلہ کرتی نظر آتی ہے کہ نواز شریف اور اُن کی پارٹی(پی ایم ایل این)ریحام خان اور عائشہ گلہ لئی کو کپتان کے خلاف بروئے کار لارہے ہیں(جیسا کہ عائشہ گلہ لئی نے الزام عائد کیا کہ نون لیگ نے انھیں کہا تھا کہ انھیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے گا بشرطیکہ وہ فوج کے خلاف بات کریںمگر انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔
نون لیگ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہُوئے کہا کہ عاشہ گلہ لئی کی طرف سے یہ الزام سوائے سستی شہرت حاصل کرنے کے کوئی حقیقت نہیں رکھتا) پی ٹی آئی والوں کا یہ شکوہ اپنی جگہ بجا ہو سکتا ہے لیکن ہماری سیاست میں یہ اقدام کیا نیا ہے؟ کیا دنیا بھر کے سیاستدان اپنے حریفوں کی ناک رگڑنے اور اُن کا تیا پانچہ کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتے؟ اُن کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی کمزوریوں کا بروقت فائدہ نہیں اُٹھاتے؟ کیا بھارت، امریکا اور برطانیہ میں ایسا نہیں ہوتا؟ کیا خود جناب عمران خان ان ہتھکنڈوں سے کبھی دُور رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نواز شریف صاحب سے کسی آئیڈیل صورت کی توقع کیوں اور کیسے کی جاسکتی ہے؟
گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران کپتان صاحب نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کونسی کسر چھوڑی ہے؟ کیا کیا اقدامات نہیں کیے؟ کیا یہ سب اصولی اور اخلاقی تھے؟ پھر کپتان، فواد حسین چوہدری اور ساری پی ٹی آئی کسی سے بلند تر توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟