بابا رحمتے کیا کیا کرے
بابا رحمتے سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی کیا کرسکتا ہے کیونکہ نیچے سے اوپر تک ہر کوئی مال بنا رہا ہے۔
ایکسپریس کے ممتاز کالم نگار جاوید چوہدری نے سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں ارکان اسمبلی کے ووٹوں کی خرید و فروخت کے مذموم کاروبار کو روکنے کے لیے بابا رحمتے سے ایکشن لینے کی اپیل کی ہے جب کہ بابا رحمتے سے ایک موقعے پر بابا سے ملنے کی خواہش پر چیف جسٹس سپریم کورٹ ایک متنازعہ سیاسی ڈاکٹر کو کہہ چکے ہیں کہ بابا رحمتے آپ کے لیے دعا گو ہے۔ جب سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور میں بابا رحمتے کا ذکر کیا تھا تب سے سیاسی حلقوں میں بابا رحمتے کا ذکر زیادہ ہی ہونے لگا ہے۔
سپریم کورٹ میں سیاسی معاملات کی بھرمار کے بعد اب سپریم کورٹ حکومتی اور سیاسی معاملات سے گریز کررہی ہے کیونکہ عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق کی پاناما میں ناکامی مگر اقامہ میں کامیابی کے بعد ہر کوئی حکومتی و سیاسی ہی نہیں بلکہ عدالتی معاملات کو بھی چیلنج کرنے لگا ہے اور سیاسی معاملات میں ناکامی کے بعد ایسے عادی افراد محض شہرت کے لیے عدالتوں پر بوجھ بڑھارہے ہیں جس کی وجہ سے چیف جسٹس نے لاہور کے ایک ایسے ہی عادی شخص پر سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ کی تمام رجسٹری آفسز میں داخلے پر پابندی عاید کردی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے جس سے ایسے عادیوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
عوامی مسلم لیگ کے تنہا عہدیدار اور اپنی تانگہ پارٹی کے خود ہی سربراہ بنے ہوئے شیخ رشید کو سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے سے سخت پریشانی ہے کہ چیف جسٹس نے شیخ رشید کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی نا اہلی کے لیے دی گئی درخواست کیا مسترد کی ہے شیخ رشید پریشان ہوگئے ہیں کہ ان کی سیاست اب کیسے چلے گی کیونکہ مسلم لیگ حکومت ختم ہونے کی ان کی پیشگوئیاں اور سیاسی دعوے ناکام ہونے کے بعد شیخ رشید عدالتی معاملات کے ذریعے ہی میڈیا میں اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے تھے۔
پاناما میں کامیابی کا سہرا عمران خان اور شیخ رشید زبردستی اپنے سر باندھ رہے ہیں حالانکہ اس کی ابتدا تو سینیٹر سراج الحق نے کی تھی جو اپنی سادگی کے باعث سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال نہ کرسکے اور دو ماہر سیاست دان فائدہ اٹھا گئے اور سراج الحق ان کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے اور متحدہ مجلس عمل میں واپسی پر مجبور ہوگئے کیونکہ ان کے خیال میں مولانا فضل الرحمن اور ایم ایم اے بحال کرانے والے رہنما عمران خان سے بہتر ہیں۔
ایک فاضل جج نے کہا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ میں تو صرف سراج الحق ہی صادق و امین نظر آتے ہیں مگر اگلے روز ہی فاضل جج نے اپنے یہ ریمارکس واپس لے لیے تھے اور سراج الحق ان ریمارکس کو بھی کیش نہیں کراسکے تھے جب کہ عمران خان کو صادق و امین قرار دیے جانے کا فیصلہ حنیف عباسی کی نظر ثانی کی درخواست کے باوجود اب تک برقرار ہے، جسے عمران خان خوب کیش کرارہے ہیں مگر لودھراں کے عوام نے عمران کے انتہائی قریبی ساتھی کے نوجوان بیٹے کو مسترد کردیا اور بوڑھے ن لیگی کو بہت زیادہ ووٹ دے کر پی ٹی آئی سے اس کی اہم سیٹ چھنوا دی۔
افتخار محمد چوہدری نے اپنے طویل مدت ملازمت میں سوموٹو ایکشن کا ریکارڈ قائم کیا تھا جس پر حکومتی وکلا اور سرکاری افسران سوموٹو ایکشن کے خلاف اور خوف زدہ تھے جب کہ عوام خوش تھے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں دکھی اور متاثرہ لوگوں کی درخواستوں کی بھرمار ہوگئی تھی اور بے سہارا لوگوں کو ایک بڑا سہارا میسر آگیا تھا اور لوگوں کی وکیلوں کو بھاری فیس دیے بغیر عدالت عظمیٰ میں شنوائی ہو رہی تھی۔
موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی حکومت، عوام اور ملکی صورتحال سے مایوس ہوکر سوموٹو ایکشن لینے پر مجبور ہوئے ہیں کیونکہ کوئی بھی حکومت جب عوام کو پینے کے صاف اور قدرتی پانی کی فراہمی پر بھی توجہ نہیں دے گی تو عدلیہ کیسے خاموش رہے گی اور مضر صحت پانی سے اپنے عوام کو کیسے مرتا ہوا دیکھے گی۔
ہر حکومت خواہ وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی من مانیوں کی عادی رہی ہے۔ غیر سیاسی حکومت کی من مانیاں سمجھ میں آتی ہیں مگر عوام کے منتخب عوامی نمایندوں کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کی من مانیاں اور سیاسی مفاداتی فیصلے سمجھ سے بالاتر رہے ہیں کیونکہ وہ آئین پر عمل کی بجائے مرضی کی تقرریاں کرنا اپنا جمہوری حق سمجھتی آئی ہیں۔
ان کے ماتحت ارکان اسمبلی، پارٹی عہدیدار اور مصلحت پسند بیوروکریسی انھیں نہیں روکتی بلکہ اپنے ناجائز کام بھی کرالیے جاتے ہیں جس کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کو ہی کرنا پڑتا ہے جس سے کوئی خفا ہو یا خوش عدلیہ کو عوام کی سیاسی حمایت یا عوامی ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حکومتی من مانیوں کے بعد ہر تین سال بعد صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا سیزن سینیٹ الیکشن کے موقعے پر آتا ہے وہ رکن حکومتی ہو یا اپوزیشن کا ہر ایک کو اہمیت ملتی ہے اور اتنا کمانے کی امید ہوجاتی ہے جو وہ پانچ سال میں نہیں کما پاتا۔
سینیٹ کے ارکان منتخب کرنے کی ووٹنگ خفیہ ہوتی ہے اور اکثر ارکان کو اپنے پارٹی سربراہ کا خوف ہوتا ہے نہ ضمیر و اصول کی پرواہ بلکہ کروڑوں روپے اس کی نظر میں سب سے اہم ہوتے ہیں اور ان کروڑوں سے ہی پھر الیکشن لڑا جاسکتا ہے تو بابا رحمتے سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی کیا کرسکتا ہے۔ کیونکہ نیچے سے اوپر تک ہر کوئی مال بنا رہا ہے۔ انھیں ووٹ ڈالتے وقت بابا رحمتے نہیں دیکھتا تو وہ یہ قیمتی ووٹ اپنی مرضی سے کیوں نہ دے؟