انتخابی مہم کے غیراخلاقی پہلو

قائداعظم کے سامنے نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے حوالے سے کچھ تصاویر پیش کی گئیں۔


[email protected]

ہر انتخابی مہم ایک معرکہ ہوتی ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایسے میں شراب و شباب کے تذکرے بھی ہونے لگتے ہیں۔ کسی پر دولت اور عورت کے حوالے سے الزام لگانا سب سے آسان سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹا سچا کوئی واقعہ ہوتا ہے جسے بڑھا چڑھا کر زیب داستان یعنی بارہ مصالحے کی چاٹ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

آج کے کالم میں ہم اپنے ملک میں سیاسی معرکہ آرائی کے دوران لگائے جانے یا جا سکنے والے فحش، عریاں اور گندے الزامات کا جائزہ پیش کریں گے۔ غیر ملکی خواتین کے نام لے کر ان کو انتخابی مہم میں گھسیٹے جانے کے واقعات آنے والے چند منٹوں میں آپ کے علم میں آ جائیں گے۔ الزامات لگانے والے حضرات پاکستانی شہری رہے ہیں، جب کہ تینوں خواتین کا تعلق مغرب سے رہا ہے۔ ایک الزام چار دیواری سے باہر نہ نکلا کہ ایک اعلیٰ کردار شخصیت کو یہ گوارا نہ تھا۔

قائداعظم کے سامنے نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے حوالے سے کچھ تصاویر پیش کی گئیں۔ کانگریس اور انگریزوں سے سیاسی جنگ لڑنے والے محمد علی جناح نے اسے پسند نہ کیا۔ انھوں نے بند لفافے میں ان تصاویر کو دیکھنے کا تکلف بھی گوارا نہ کیا۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت برطانیہ اور سب سے بڑی سیاسی قوت کانگریس زد میں آ سکتی تھیں۔ ایک تیر سے دو شکار ہو سکتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے بجائے کسی نام نہاد تنظیم کے ذریعے تصاویر کو پورے ہندوستان میں پھیلایا جا سکتا تھا۔ ایک ساتھ ہندوؤں اور انگریزوں کو لپیٹ میں لیا جا سکتا تھا۔ کانگریس کے دوسرے بڑے لیڈر نہرو کو سیاسی میدان سے بھگایا جا سکتا تھا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دفاعی پوزیشن پر لایا جا سکتا تھا۔ قائد کا مزاج قوم کا مزاج بنتا ہے۔ 45-46ء کی انتخابی مہم کی تلخی کو بدلے کی شکل میں بدلا جا سکتا تھا۔ سب کچھ ہو سکتا تھا۔ دو بڑے مذاہب کی سیاسی شخصیات کو گندا کر کے مسلمانوں کی اخلاقی برتری کی دھاک بٹھائی جا سکتی تھی۔ کچھ نہ کیا۔ قائد اعظم نے اس تجویز کو ابتدائی مرحلے میں مسترد کر دیا۔ سیاسی جنگ کو سیاسی انداز میں لڑنے والے تاریخ کے ایک بڑے رہنما نے اخلاقی برتری کی انتہا کر دی۔ قائد کی تصاویر کو آویزاں کرنے والے اور ان کے نام کی مالا جپنے والے کس حد تک اس برتری کی جھلک پیش کر سکے ہیں؟ اس اخلاقی برتری کا جس کا مظاہرہ ان کے قائد نے صدی کی نازک ترین سیاسی جنگ کے دوران کیا تھا۔

ایوب خان اور فاطمہ جناح کی صدارتی مہم زوروں پر تھی۔ پوری متحدہ حزب اختلاف ایک طرف تھی۔ ایسے میں اپوزیشن کے ہاتھ ایوب خان کی ایک تصویر آ گئی۔ کرسٹینا کیلر نامی خاتون غسل کے لباس میں سوئمنگ پول میں تھی اور ملتے جلتے لباس میں ایوب خان قریب کھڑے تھے۔ تجویز کیا گیا کہ یہ تصویر وسیع پیمانے پر تقسیم کی جائے اس سے لوگوں کی رائے ایوب خان کے خلاف ہو جائے گی۔ مشرقی پاکستان کی متحدہ حزب اختلاف کمیٹی کی صدارت باری باری ہر پارٹی کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ جب ایوب خان والی تصویر کا معاملہ آیا تو جماعت اسلامی کے خرم مراد کے پاس صدارت تھی۔

وہ اپنی کتاب ''لمحات'' میں لکھتے ہیں کہ ''میں نے تصویر لانے والوں سے پوری گفتگو کی اور اس کو شایع کرنے کی تجویز کی سخت مخالفت کی۔ ہم کو اس سطح پر گر کر انتخابی مہم نہیں چلانی چاہیے۔'' خرم صاحب کہتے ہیں کہ وہ فوٹو مغربی پاکستان کے کچھ شہروں میں تقسیم ہوا، مگر پورے مشرقی پاکستان میں یہ تقسیم نہیں ہوا۔ پروپیگنڈے کا یہ طریقہ الٹا اثر ڈالتا ہے۔ کس طرح؟ یہ بات ہم آخر میں کریں گے۔ پہلے دیکھیں گے کہ مولانا مودودی، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے خلاف ناشائستہ انتخابی مہم چلانے والے کس طرح تاریخ کے سامنے شرمندہ ہیں۔

مولانا مودودی کے خلاف جماعت اسلامی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے مولانا کوثر نیازی نے ناشائستہ مہم چلائی۔ انھوں نے امیر جماعت کے چہرے کے ساتھ فلمی اداکاراؤں کے دھڑ والی تصویر اپنے رسالے میں شایع کی۔ سن ستر میں ایسے واقعات کا ارتکاب کرنے والے بعد میں اپنے اعمال پر شرمندہ ہوئے۔ اسی طرح 88ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے میں بے نظیر بھٹو کی مغربی لباس میں ایک تصویر کو ایک ہفت روزہ نے وسیع پیمانے پر تقسیم کیا، ٹائٹل شایع کیے اور پوسٹرز بنائے۔ یہ ہتھکنڈا غیر موثر ثابت ہوا اور پیپلزپارٹی واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔

عمران خان کی چھ ماہ کی پارٹی کے مقابل نواز شریف ان حالات میں سامنے آئے جب طے تھا کہ حکومت وہی بنائیں گے۔ یہ سن 97ء کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان مایوس تھے اور لیگ واضح برتری کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی تھی۔ عمران کے خلاف سیتا وائٹ کے معاملات اچھالنے میں ان کے میڈیا منیجر پیش پیش تھے۔ وقتی طور پر عمران خان دفاعی پوزیشن پر چلے گئے۔ چھ ماہ کی نئی نویلی پارٹی پروپیگنڈے کے اس طوفان کو نہ سہہ سکی۔ ویسے بھی اگر یہ مہم نہ چلائی جاتی تب بھی انتخابی نتیجہ وہی رہنا تھا۔ اس ناشائستہ، غیر مہذب اور غیر اخلاقی مہم نے اعلیٰ کردار شخصیت کے صاف ستھرے سیاسی کیریئر کو بدنما کر دیا۔

پاکستان کو ایک اور انتخابی مہم درپیش ہے۔ قائد کی اعلیٰ ظرفی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایوب خان، مولانا مودودی،بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے اوپر گندگی اچھالنے والوں کے چہرے تاریخ کے سامنے ہیں۔ ایسے ہتھکنڈے کبھی فائدہ مند نہیں ہوتے۔ فحش واقعات یا تصاویر کی تشہیر معاشرے میں ہیجان خیزی کا باعث بنتی ہیں۔ سیاسی لیڈروں کو ایک دوسرے سے مقابلہ سیاسی دلائل سے کرنا چاہیے۔ چوہدری نثار کے ایم کیو ایم کے الطاف حسین پر الزامات اور پھر وسیم اختر کے شہباز شریف پر جوابی الزامات کو پاکستانی عوام نے پسند نہیں کیا۔

کالم اپنی تنگ دامنی کے باوجود پاکستان کے بڑے بڑے واقعات کو اپنے اندر سمو گیا ہے۔ قائد کی اعلیٰ ظرفی نے ان کا سیاسی قد مزید بلند کر دیا۔ گھٹیا سیاسی حربے اختیار کرنے والے اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود تاریخ کے سامنے بونے نظر آتے ہیں۔ آنے والے دن سیاستدانوں کے ظرف کا ایک اور امتحان لینے آ رہے ہیں۔ یہ انتخابی مہم صاف ستھری ہو گی؟ اصولوں پر مبنی ہو گی؟ تنقید قومی لوٹ مار پر ہو گی یا ذاتیات پر؟ ہم جناح کی پاک سیاست کے علمبردار بنیں گے یا ماضی کی طرح دہرائیں گے انتخابی مہم کی گندگیاں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔