لیاقت آباد کی پرندہ مارکیٹ پر چھاپہ 154 کچھوے ضبط

دکان پر یہ نایاب کچھوے گھروں میں شوقیہ کچھوے پالنے والوں کو فروخت کرنے کیلیے رکھے گئے تھے۔

تحویل میں لیے گئے 129میٹھے ،9سمندری جبکہ 13خشکی کے کچھوے شامل ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

محکمہ جنگلی حیات نے لیاقت آباد میں پرندو ں کی مارکیٹ پر چھاپہ مارکرغیر قانونی طور پر فروخت کے لیے رکھے گئے 154 نادرو نایاب نسل کے کچھوے قبضے میں لے لیے۔

سندھ وائلڈ لائف نے لیاقت آباد کے گنجان مقام الاعظم اسکوائر پر واقع پرندوں کی مارکیٹ میں دکان پر چھاپہ ما ر کر اور وہاں بکنے والے نادرنایاب نسل کے154کچھوے قبضے میں لیے،جن میں 129میٹھے ،9سمندری جبکہ 13خشکی کے کچھوے شامل ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے ڈپٹی سینچری وارڈن عدنان حامد خان کے مطابق گزشتہ روز سہ پہر خفیہ اطلاع پر محکمہ وائلڈ لائف کی خصوصی ٹیم نے انچارج ریڈ ٹیم عظیم برفت کی نگرانی میں چھاپہ مار اور نادر ونایاب نسل کے کچھوے تحویل میں لیے،دکان پر یہ قیمتی کچھوے عام طور پر گھروں میں شوقیہ کچھوے پالنے والوں کو فروخت کے لیے رکھے گئے تھے ،ان کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی مالیت80ہزار کے لگ بھگ ہے اور ان کی کل مالیت ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ پیسہ کمانے کے لالچ میں اکثر وبیشتر اس معصوم آبی مخلوق کی بیرون ملک اسمگلنگ کی کوشش کی جاتی ہے،ملک بھر میں اس کی فروخت کا مذموم دھندہ جاری ہے۔

وائلڈ لائف کے مطابق قبضے میں لیے گئے کچھووں کی عمریں ایک ماہ سے 6 ماہ کے درمیان ہیں ،ان کمسن کچھوؤں کی فروخت کے علاوہ بڑی عمر اور بڑے سائز کے کچھووں کے خلاف بھی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں ،جن کے خشک گوشت کی دنیا کے بیشتر ممالک میں مانگ ہے، جس کی وجہ سے ان کی اسمگلنگ کی کوششیں کی جاتی ہیں تاہم اس کاروبار کےروک تھام کے لیے مختلف ٹیمیں بھی کام کررہی ہیں اور ماضی میں اس حوالے سے کئی کامیاب کارروائیاں کرکے ان کی اسمگلنگ کو ناکام بنایاگیا۔


کارروائی کے دوران ایک ملزم شاکر علی کو حراست میں لیا گیا جس سے مذید تفتیش کی جارہی ہے،ابتدائی تفتیش میں زیر حراست دکاندارکا کہناتھا کہ یہ کچھوے اندرون سندھ کے ٹھٹھ اور بدین سمیت دیگر اضلاع جبکہ بلوچستان سے لا کر ان کو بیچے گئے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق اسمگل ہونے والے کچھوؤں کی بیشتر اقسام معدومیت سے دوچار ہے اور ان پر قوانین کے مطابق چند ہزار سے ایک کروڑ روپے تک جرمانے عائد کیے جاسکتے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کچھوؤں کی فروخت سے دکانداروں کو باز رکھنے کے لیے نہ صرف وقتا فوقتا تنبیہ کی جاتی ہے بلکہ مارکیٹوں میں اس سے متعلق آگاہی کے لیے پوسٹر بھی آویزاں کیے گئے ہیں ،قبضے میں لیے جانے والے کچھوؤں کو ہاکس بے ،ہالے جی جھیل اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑا جائے گا۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندروں اور دریاؤں میں یہ آبی مخلوق صفائی کا کام کرتی ہے اور کچھوے پانی میں موجود نہ صرف مختلف قسم کی گندگی کو صاف کرتے ہیں بلکہ پانی کی گہرائی میں سانپ یا دیگر مری ہوئی آبی مخلوق کو کھاجاتے ہیں اور پانی کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں مگر جس بے دردی سے ان کی نسل کشی اور اسمگلنگ کی جاتی ہے، وہ انسانی آبادیوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے ،یہ آبی مخلوق وہ جرثومے بھی کھاجاتے ہیں ،جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے اور پانی میں شامل ہونے کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
Load Next Story