حسد کا علاج

ہادیٔ عالم ﷺ نے اپنی اُمت کو حسد،کینہ،بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے۔


ہادیٔ عالم ﷺ نے اپنی اُمت کو حسد،کینہ،بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے۔ فوٹو : فائل

حسد کہتے ہیں کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت دیکھ یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے، چاہے مجھے حاصل ہو یا نہ ہو۔ یہ ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بو دیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال تلف ہوجاتے ہیں، اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق اللہ تعالیٰ چھین لیتے ہیں۔

معاشرتی زندگی کے حوالے سے مختلف مواقع پر ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو حسد، کینہ، بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق و اتحاد، موافقت و یگانگت اور بھائی چارے کی تعلیم دی ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو! نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرو! اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔'' (صحیح مسلم)

ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' حسد سے بچو! کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔''

اور ایک روایت میں آیا ہے : '' حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے۔'' (سنن ابی داؤد)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا، تو اتنے میں ایک انصاری آئے جن کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے، اور اُنہوں نے بائیں ہاتھ میں جوتیاں لٹکا رکھی تھیں۔ اگلے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات فرمائی تو پھر وہی انصاری اسی طرح آئے جس طرح پہلی مرتبہ آئے تھے۔ تیسرے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسی ہی بات فرمائی اور وہی انصاری اسی حال میں آئے۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اُٹھے تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ اُس انصاری کے پیچھے گئے، اور اُن سے کہا : ''میرا والد صاحب سے جھگڑا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے میں نے قسم کھالی ہے کہ میں تین دن تک اُن کے پاس نہیں جاؤں گا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اپنے ہاں تین دن ٹھہرالیں۔'' اُنہوں نے کہا: ''ضرور۔'' پھر حضرت عبداللہ ؓبیان کرتے تھے : ''میں نے اُن کے پاس تین راتیں گزاریں، لیکن میں نے ان کو رات میں زیادہ عبادت کرتے ہوئے نہ دیکھا، البتہ جب رات کو اُن کی آنکھ کھل جاتی تو بستر پر اپنی کروٹ بدلتے اور تھوڑا سا اللہ کا ذکر کرتے اور ''اللہ اکبر'' کہتے، اور نمازِ فجر کے لیے بستر سے اُٹھتے۔ ہاں! جب بات کرتے تو خیر ہی کی بات کرتے۔

جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے ان کے تمام اعمال عام معمول ہی کے نظر آئے (اور میں حیران ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بشارت تو اتنی بڑی دی، لیکن ان کا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں) تو میں نے اُن سے کہا : '' اے اللہ کے بندے! میرا والد صاحب سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا ، نہ کوئی ناراضی ہوئی، اور نہ میں نے اُنہیں چھوڑنے کی قسم کھائی، بل کہ قصہ یہ ہوا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ''ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔'' اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے ۔ اِس پر میں نے سوچا کہ میں آپ کے ہاں رہ کر آپ کا خاص عمل دیکھوں اور پھر اس عمل میں آپ کے نقش قدم پر چلوں۔ میں نے آپ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں، تو اب آپ بتائیں کہ آپ کا وہ کون سا خاص عمل ہے جس کی وجہ سے آپ اس درجے کو پہنچ گئے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا؟ اُنہوں نے کہا: ''میرا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں، وہی عمل ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔'' میں یہ سن کر چل پڑا۔ جب میں نے پشت پھیری تو اُنہوں نے مجھے بلایا اور کہا: ''میرے اعمال تو وہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں، البتہ یہ ایک خاص عمل ہے کہ ''میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے۔ اور کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا فرما رکھی ہو تو میں اِس پر اُس سے حسد نہیں کرتا۔'' میں نے کہا: ''اسی چیز نے آپ کو اتنے بڑے درجے تک پہنچایا ہے۔''

( اخرجہ احمد باسناد حسن و النسائی) (حیاۃ الصحابہؓ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ''دو اشخاص کے سوا کسی سے حسد کرنا جائز نہیں : ایک وہ شخص کہ جس کو حق تعالیٰ شانہ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس میں مشغول رہتا ہو۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جس کو حق سبحانہ و تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرتا ہو۔''

(صحیح بخاری، جامع ترمذی)

اسمٰعیل بن اُمیہؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے آدمی عاجز نہیں : بد شگونی، بدظنی اور حسد۔ آپؐ نے فرمایا : ''بدشگونی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس پر عمل ہی نہ کر۔ اور بدظنی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس کے بارے میں بات ہی نہ کر۔ اور حسد سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی برائی کے پیچھے مت پڑ۔'' (جامع معمر بن راشد)

امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں : حسد وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا۔ یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کیا۔ اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا۔ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی سے حسد کیا اور اُس کو قتل کردیا۔

( المجالسۃ و جواہرالعلم)

امام اصمعیؒ فرماتے ہیں : ''میں نے بنو عذرہ نامی قبیلے میں ایک اعرابی (بدو) کو دیکھا جس کی ایک سو بیس سال عمر تھی، میں نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے اتنی لمبی عمر کا راز کیا ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ : ''میں نے حسد کرنا چھوڑ دیا ہے، اس لیے ابھی تک باقی (زندہ) ہوں۔''

( المجالسۃ و جواہرالعلم )

یحییٰ بن ایوبؒ کہتے ہیں کہ انہیں حضرت حسن بصریؒ کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح فاسد کردیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو فاسد کردیتا ہے۔ (شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ)

وہب بن منبہؒ کہتے ہیں کہ: ''مومن جب حسد کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اُس کی محبت ظاہر ہوجاتی ہے۔''

( حلیۃ الاولیاء)

رجاء بن حیوۃؒ کہتے ہیں : '' جو کوئی موت کو اکثر یاد کرتا ہو وہ حسد اور خوشی کو ترک کردیتا ہے۔''

( حلیۃ الاولیاء)

سفیان بن عیینہ ؒ کہتے ہیں : '' کینہ ٗ حسد ہی کو کہتے ہیں، جو اس سے نکلے وہ شر ہے اور جو اس میں باقی رہے وہ کینہ ہے، اور جس شخص میں حسد نام کی ذرّہ سی بھی کوئی چیز ہوتی ہے وہ صحیح سلامت نہیں رہتا۔ ( حلیۃ الاولیاء)

ال غرض حسد، کینہ، بغض اور کھوٹ یہ ایسی باطنی اور روحانی بیماریاں ہیں جو اوّل تو انسان کو نیک اعمال کی طرف راغب ہی نہیں کرتیں، بل کہ اُلٹا پہلے سے جو نیک اعمال اُس نے کیے ہوتے ہیں اُن کو بھی کو ضایع کردیتی ہیں، اور اس طرح رفتہ رفتہ انسان اعمالِ صالحہ سے دور ہوتے ہوتے گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اُس سے اعمالِ صالحہ کی سعادت چھین لیتے ہیں، اور وہ کوئی نیک عمل نہیں کرسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں