نگراں حکومت کا 1300ارب روپے کے قرضے لینے کا اعلان

بڑھتے ہوئے قرضوں کے سبب مالیاتی خسارے میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے


Business Reporter April 01, 2013
پاکستان میں فسکل خسارہ پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہا اور اس سال جی ڈی پی کے 8فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: سابق حکومت نے مقامی ذرائع سے قرض لینے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا، بینکوں اور اسٹیٹ بینک کے علاوہ نیشنل سیونگز کے ذریعے بھی عوام سے بھاری مالیت کے قرضے حاصل کیے گئے۔

اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق سابقہ حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران نیشنل سیونگ سے 289ارب روپے کے قرضے حاصل کیے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران نیشنل سیونگ سے 188ارب روپے کے قرضے حاصل کیے گئے تھے۔ سابقہ حکومت نے رواں مالی سال کے ساڑھے 8 ماہ کے عرصے میں بجٹ سپورٹ کے لیے 911ارب روپے کے قرضے حاصل کیے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے بجٹ سپورٹ کے لیے 1200ارب روپے کے قرضے لیے تھے۔

بڑھتے ہوئے قرضوں کے سبب مالیاتی خسارے میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، دوسری جانب آئی ایم ایف سے قرض لیے بغیر معیشت کو رواں دواں رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نگراں حکومت نے بھی سابقہ حکومت کی روش اختیار کرتے ہوئے رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی میں 1300ارب روپے کے قرضے لینے کا اعلان کیا ہے جس سے حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض پر انحصار کی پالیسی کو تقویت ملی ہے۔

3

پاکستان میں فسکل خسارہ پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہا اور اس سال جی ڈی پی کے 8فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ آئی ایم ایف سمیت معاشی ماہرین فسکل خسارے کو جی ڈی پی کے 4فیصد تک محدود رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔

نگراں حکومت نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا جائے تاہم ملک کو قرض کے بحران سے نکالنے کے لیے نگراں حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے سابقہ حکومت نے اربوں روپے کے قرضوں کا بوجھ نگراں اور آئندہ منتخب ہونیوالی حکومت کے لیے چھوڑا ہے لیکن معاشی بحران کے حل کیلیے کوئی لائحہ عمل نگراں حکومت کوورثے میں نہیں ملا معاشی ماہرین کے مطابق بڑھتے ہوئے فسکل خسارے اور قرضوں کے بوجھ کے سبب اسٹیٹ بینک کے پاس پالیسی ڈسکائونٹ ریٹ کو بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا اور آنے والے دنوں میں سنگل ڈیجٹ پر آنے والی شرح سود بڑھنے کا امکان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔