ہم پیار کی زبان بہتر سمجھتے ہیں
سرکاری سطح پر چھوٹی زبانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا
KARACHI:
ماں ہی وہ ہستی ہے جو انسان کو انسانوں سے پیار کرنے کا پہلا درس دیتی ہے۔ لیکن میرا موضوع ماں کی ہستی نہیں، اور نہ ہی میں اس قابل ہوں کہ ماں کےلیے تعریفی الفاظ کا انتخاب کرسکوں۔ بہرحال، میں صرف ماں کی زبان پر بات کروں گا کہ انسان بولنا سیکھتا ہے تو پہلا لفظ اپنی ماں سے سنتا ہے، پھر جب وہ بولنا سیکھ جاتا ہے تو اس کی بولی جانے والی زبان کو اس کی ''ماں بولی'' کہتے ہیں؛ اور ماں سے سیکھی ہوئی زبان کے ہر لفظ سے اتنا پیار چھلکتا ہے کہ انسان بس بولتا جائے۔
قارئین کرام! جیسا کہ انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، اس لحاظ سے درس گاہ میں تعلیمی زبان ماں کی زبان ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انسان پیار کی زبان بہتر سمجھتا ہے، تو پھر ماں کی زبان سے پیاری زبان بھلا اور کون سی ہوسکتی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ یونیسکو نے 17 فروری 1999 کو ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق اس پیار والی زبان یعنی مادری زبان کے تحفظ اور فروغ کےلیے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
ہر کوئی یہی رونا رو رہا ہے کہ سرکاری اداروں کی خستہ حالی کی بڑی وجہ تعلیمی نظام کی ابتر صورت حال ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے صرف ڈگری یافتہ کے بجائے تعلیم یافتہ افراد پیدا کریں، مگر حکومتی سطح پر کبھی یہ محسوس نہیں کیا گیا کہ تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنے کےلیے ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا جائے جس سے طلباء علم کا بھرپور خزانہ بہ آسانی سمیٹ سکیں۔
اور جب ہم مانتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد کچھ سیکھنا ہے تو ہمیں اس بات پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ ایسی کیا دشواریاں ہیں جن کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں بہتر طریقے سے سیکھنا مشکل ہے؟
غور کرنے سے پتا چلے گا کہ دیگر دشواریوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی دشواری زبان بھی ہے۔ فرض کیجیے آپ کے بچوں کی مادری زبان گاؤری، تور والی یا کھوار ہے۔ مگر جب وہ پڑھنے کےلیے اسکول جاتا ہے تو اسے اردو یا انگریزی میں سکھایا جاتا ہے تو کیا وہ کسی ایسی زبان میں کچھ سیکھ پائے گا جس زبان کو وہ خود نہیں سمجھتا؟
ظاہر ہے، بچہ اس زبان میں سیکھے گا جس زبان کو وہ سمجھتا ہے۔ اگر کوئی دوسری زبان ہے تو ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اردو یا انگریزی کو پڑھنے اور لکھنے پر عبور تب حاصل ہوتا ہے جب طالب علم دسویں پاس کرتا ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ دسویں تک جتنا سبق پڑھا وہ طوطے کی طرح رٹا اور بس! اب آگے پڑھتے ہوئے زبان کی دشواری تھوڑی کم ہوجائے گی اور سیکھنے میں آسانی ہوگی۔
قارئین کرام! آپ کا یہ سوال بھی بجا اور اہم ہے کہ اگراردو ہماری قومی زبان اور انگریزی عالمی رابطہ کاری کی زبان ہے تو ہم ان کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں؟
تو اس کا آسان حل بھی یونیسکو اور دیگر عالمی تنظیموں نے مل کر ڈھونڈ نکالا ہے جسے کثیراللسانی تعلیم (Multilingual Education) کہا جاتا ہے۔
اس نظام تعلیم میں بچہ بنیادی تعلیم پلے گروپ سے کم از کم مڈل تک تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتا ہے۔ پہلی کلاس میں استاد بچوں کو مختلف اشکال اور آوازوں کے ذریعے کھیل کود میں اپنی زبان میں ہدایات دے کر سکھاتا ہے۔ اس کے بعد اگلی کلاس میں بچوں کو تمام مضامین ان کی مادری زبان میں ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اردو اور انگریزی کو بھی محض زبان کو سیکھنے کےلیے نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جوں جوں بچہ اگلی جماعتوں میں جاتا ہے، مادری زبان کم جبکہ اردو اور انگریزی کے مضامین بڑھتے جاتے ہیں۔ یوں پیار والی زبان میں بچہ نہ صرف معیاری بنیادی تعلیم حاصل کرپاتا ہے بلکہ اردو اور انگریزی، جن کا سیکھنا اس کےلیے ناگزیر ہے، وہ بھی سیکھ جاتا ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم کےلیے خواہ وہ ملکی تعلیمی اداروں میں جائے یا بیرونی اداروں میں، اسے سیکھنے کی زبان میں دشواری پیش نہیں آتی۔
یہاں پر قابلِ فخر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے ایسے اسکولوں کا نظام شروع کیا ہوا ہے۔ سوات کے خوبصورت علاقے کالام، اپر دیر، مٹلتان اور اتروڑ میں بولی جانے والی زبان ''گاؤری'' کے چھ کثیراللسانی اسکول چل رہے ہیں۔ اسی طرح بحرین اور مضافاتی علاقوں میں بولی جانے والی زبان توروالی کے چار اسکول چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈس کوہستانی، شینا، کھوار، پلولا اور دیگر مختلف چھوٹی زبانوں میں اسی طرح کے کثیراللسانی اسکول چل رہے ہیں۔
اب تک کیے گئے مخلتف سروے نے ثابت کردیا ہے کہ ان اسکولوں سے فارغ ہونے والے طلباء میں سیکھنے کی مہارتیں سرکاری اسکولوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔
پچھلے دنوں مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر مختلف زبانوں کے نمائندوں نے لوک ورثہ اسلام آباد میں اپنی اپنی زبانوں کی نمائندگی کی، مخلتف علاقوں کے ثقافتی گیت اور موسیقی بھی پیش کیے۔
جب ہم نے مخلتف زبانوں کے نمائندوں سے جاننے کی کوشش کی تو ملتا جلتا ردِعمل یہ تھا کہ سرکاری سطح پر چھوٹی زبانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔ اس سے قبل بھی مردم شماری کے دوران یہ شکایات سامنے آ رہی تھیں کہ چھوٹی زبانوں کو ''دیگر'' کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔
کسی کی پیار والی زبان کو ''دیگر'' کے خانے میں ڈال کر نظرانداز کرنا ان کے احساسات کو مجروح کرنا ہے۔ اب اگر ہم نے یونیسکو کے قرارداد کو تسلیم کرلیا ہے تو ہمیں ملکی سپریم ادارے پارلیمنٹ میں اس پر بات بھی کرنی چاہیے، چھوٹی زبانوں کے مسائل حل کرنے کےلیے کام کرنے والوں کی فریاد بھی سن لینی چاہیے؛ اور نظام تعلیم میں بھی ایسی اصلاحات کرنی چاہئیں جن سے معیاری تعلیم کا حصول ممکن ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ماں ہی وہ ہستی ہے جو انسان کو انسانوں سے پیار کرنے کا پہلا درس دیتی ہے۔ لیکن میرا موضوع ماں کی ہستی نہیں، اور نہ ہی میں اس قابل ہوں کہ ماں کےلیے تعریفی الفاظ کا انتخاب کرسکوں۔ بہرحال، میں صرف ماں کی زبان پر بات کروں گا کہ انسان بولنا سیکھتا ہے تو پہلا لفظ اپنی ماں سے سنتا ہے، پھر جب وہ بولنا سیکھ جاتا ہے تو اس کی بولی جانے والی زبان کو اس کی ''ماں بولی'' کہتے ہیں؛ اور ماں سے سیکھی ہوئی زبان کے ہر لفظ سے اتنا پیار چھلکتا ہے کہ انسان بس بولتا جائے۔
قارئین کرام! جیسا کہ انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، اس لحاظ سے درس گاہ میں تعلیمی زبان ماں کی زبان ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انسان پیار کی زبان بہتر سمجھتا ہے، تو پھر ماں کی زبان سے پیاری زبان بھلا اور کون سی ہوسکتی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ یونیسکو نے 17 فروری 1999 کو ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق اس پیار والی زبان یعنی مادری زبان کے تحفظ اور فروغ کےلیے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
ہر کوئی یہی رونا رو رہا ہے کہ سرکاری اداروں کی خستہ حالی کی بڑی وجہ تعلیمی نظام کی ابتر صورت حال ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے صرف ڈگری یافتہ کے بجائے تعلیم یافتہ افراد پیدا کریں، مگر حکومتی سطح پر کبھی یہ محسوس نہیں کیا گیا کہ تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنے کےلیے ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا جائے جس سے طلباء علم کا بھرپور خزانہ بہ آسانی سمیٹ سکیں۔
اور جب ہم مانتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد کچھ سیکھنا ہے تو ہمیں اس بات پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ ایسی کیا دشواریاں ہیں جن کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں بہتر طریقے سے سیکھنا مشکل ہے؟
غور کرنے سے پتا چلے گا کہ دیگر دشواریوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی دشواری زبان بھی ہے۔ فرض کیجیے آپ کے بچوں کی مادری زبان گاؤری، تور والی یا کھوار ہے۔ مگر جب وہ پڑھنے کےلیے اسکول جاتا ہے تو اسے اردو یا انگریزی میں سکھایا جاتا ہے تو کیا وہ کسی ایسی زبان میں کچھ سیکھ پائے گا جس زبان کو وہ خود نہیں سمجھتا؟
ظاہر ہے، بچہ اس زبان میں سیکھے گا جس زبان کو وہ سمجھتا ہے۔ اگر کوئی دوسری زبان ہے تو ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اردو یا انگریزی کو پڑھنے اور لکھنے پر عبور تب حاصل ہوتا ہے جب طالب علم دسویں پاس کرتا ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ دسویں تک جتنا سبق پڑھا وہ طوطے کی طرح رٹا اور بس! اب آگے پڑھتے ہوئے زبان کی دشواری تھوڑی کم ہوجائے گی اور سیکھنے میں آسانی ہوگی۔
قارئین کرام! آپ کا یہ سوال بھی بجا اور اہم ہے کہ اگراردو ہماری قومی زبان اور انگریزی عالمی رابطہ کاری کی زبان ہے تو ہم ان کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں؟
تو اس کا آسان حل بھی یونیسکو اور دیگر عالمی تنظیموں نے مل کر ڈھونڈ نکالا ہے جسے کثیراللسانی تعلیم (Multilingual Education) کہا جاتا ہے۔
اس نظام تعلیم میں بچہ بنیادی تعلیم پلے گروپ سے کم از کم مڈل تک تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتا ہے۔ پہلی کلاس میں استاد بچوں کو مختلف اشکال اور آوازوں کے ذریعے کھیل کود میں اپنی زبان میں ہدایات دے کر سکھاتا ہے۔ اس کے بعد اگلی کلاس میں بچوں کو تمام مضامین ان کی مادری زبان میں ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اردو اور انگریزی کو بھی محض زبان کو سیکھنے کےلیے نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جوں جوں بچہ اگلی جماعتوں میں جاتا ہے، مادری زبان کم جبکہ اردو اور انگریزی کے مضامین بڑھتے جاتے ہیں۔ یوں پیار والی زبان میں بچہ نہ صرف معیاری بنیادی تعلیم حاصل کرپاتا ہے بلکہ اردو اور انگریزی، جن کا سیکھنا اس کےلیے ناگزیر ہے، وہ بھی سیکھ جاتا ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم کےلیے خواہ وہ ملکی تعلیمی اداروں میں جائے یا بیرونی اداروں میں، اسے سیکھنے کی زبان میں دشواری پیش نہیں آتی۔
یہاں پر قابلِ فخر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے ایسے اسکولوں کا نظام شروع کیا ہوا ہے۔ سوات کے خوبصورت علاقے کالام، اپر دیر، مٹلتان اور اتروڑ میں بولی جانے والی زبان ''گاؤری'' کے چھ کثیراللسانی اسکول چل رہے ہیں۔ اسی طرح بحرین اور مضافاتی علاقوں میں بولی جانے والی زبان توروالی کے چار اسکول چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈس کوہستانی، شینا، کھوار، پلولا اور دیگر مختلف چھوٹی زبانوں میں اسی طرح کے کثیراللسانی اسکول چل رہے ہیں۔
اب تک کیے گئے مخلتف سروے نے ثابت کردیا ہے کہ ان اسکولوں سے فارغ ہونے والے طلباء میں سیکھنے کی مہارتیں سرکاری اسکولوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔
پچھلے دنوں مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر مختلف زبانوں کے نمائندوں نے لوک ورثہ اسلام آباد میں اپنی اپنی زبانوں کی نمائندگی کی، مخلتف علاقوں کے ثقافتی گیت اور موسیقی بھی پیش کیے۔
جب ہم نے مخلتف زبانوں کے نمائندوں سے جاننے کی کوشش کی تو ملتا جلتا ردِعمل یہ تھا کہ سرکاری سطح پر چھوٹی زبانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔ اس سے قبل بھی مردم شماری کے دوران یہ شکایات سامنے آ رہی تھیں کہ چھوٹی زبانوں کو ''دیگر'' کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔
کسی کی پیار والی زبان کو ''دیگر'' کے خانے میں ڈال کر نظرانداز کرنا ان کے احساسات کو مجروح کرنا ہے۔ اب اگر ہم نے یونیسکو کے قرارداد کو تسلیم کرلیا ہے تو ہمیں ملکی سپریم ادارے پارلیمنٹ میں اس پر بات بھی کرنی چاہیے، چھوٹی زبانوں کے مسائل حل کرنے کےلیے کام کرنے والوں کی فریاد بھی سن لینی چاہیے؛ اور نظام تعلیم میں بھی ایسی اصلاحات کرنی چاہئیں جن سے معیاری تعلیم کا حصول ممکن ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔