شام میں 200 نئے اقسام کے ہتھیار استعمال کیےروس کا اعتراف
شام کےاسلحہ خانوں میں پڑے ہتھیاروں کی بڑی تعداد روس کے فراہم کردہ ہیں جنہیں جنگ کے دوران وسیع پیمانے پراستعمال کیا گیا
روس نے شامی سرزمین کو تختہ مشق بنانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے اپنے تیار کردہ 200نئے اقسام کے ہتھیاروں کو شام کی خانہ جنگی میں آزمائش کے طور پر استعمال کیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی فوج کے سابق کمانڈر اور موجودہ 'ڈوما' کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ولادی میر شامانوو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ماسکو کے انجینئروں نے ملکی سطح پر تیار کردہ 200 اقسام کے نئے ہتھیاروں کو شام میں ٹیسٹ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انجینئرز نے اپنے ہتھیاروں کی آزمائش کے لیے شام کے شہروں اور قصبوں کو بطور تخت مشق استعمال کیا۔
شامانوو نے کہا کہ ہم نے شامی حکومت کی مدد کے لیے نئے اقسام کے ہتھیار بنائے اور انہیں استعمال کیا،ہمارے ہتھیار اس قدر کامیاب ہوئے کہ خود اسدی حکومت نے ہم سے مانگے اور ذخیرہ کیا جب کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہتھیار شامی حکومت نے اپنے شہریوں پر استعمال کیے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: شام میں روسی طیاروں کی بمباری سے 50 افراد ہلاک
ولادی میر شامانوو نے کہا کہ روس کے تیار کردہ طاقتور ہتھیار حال ہی میں مشرقی غوطہ میں استعمال ہوئے جس پر ماسکو کو فخر کرنا چاہیے،ہمارے نئے ہتھیاروں کی مانگ بڑھ چکی ہے اور مختلف سمتوں سے خریدار ہمارے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے آرہے ہیں، ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو کہ ہمارے اتحادی نہیں۔
شام کے اسلحہ خانوں میں پڑے ہتھیاروں کی بڑی تعداد روس کے فراہم کردہ ہیں جنہیں جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔
شام میں خانہ جنگی آغاز 7 سال قبل 2011میں اس وقت ہوا جب پرُ امن مظاہرین پر فوج نے گولی چلائی اور بے دردی سے انہیں موت کے گھاٹ اتادیا جس کے بعد شام میں قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔
4سال بعد روس شامی جنگ میں کود گیا اور 2015میں جب صدر بشارالاسد کی وفادار فوج کو باغیوں کے خلاف پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو ماسکو اسدی افواج کی مدد کے لیے جنگ میں شامل ہوگیا۔
روسی فوج کی شمولیت سے اسدی رجیم کے مخالف گروہوں کا قلع قمع کرنا کافی حد تک ممکن ہوا تاہم اس کی خاطر لاکھوں شہریوں کی جان و مال کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔روزانہ ہونے والی بمباری کے نتیجے میں اب تک لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں،صرف گزشتہ چار روز میں مشرقی غوطہ میں مرنے والے شہریوں کی تعداد 400سے تجاوز کر چکی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
حالانکہ روس عام شہریوں کونشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ماسکو کے طیارے اُن شہری علاقوں کی فضاؤں میں گھومتے اور بمباری کرتے دیکھے گئے ہیں جو مخالفین کے زیرقبضہ ہیں۔ رواں ہفتے روسی فضائیہ کے طیاروں جس میں راڈار میں نظر نہ آنے والا جنگی طیارہ بھی شامل تھا پہلی بار شامی صوبے لتاکیا میں دیکھا گیا۔
شام کے مغرب میں واقع ہمیم ایئر بیس روسی فضائیہ کے زیر استعمال ہے جب کہ طرطوس میں شامی بحریہ کے اڈے تک بھی ماسکو فوج کی رسائی ہے۔
سال 2016 میں اس وقت کے روسی وزیردفاع سرگئی شوئگو نے ملکی ملٹری ٹیکنالوجی کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ شامی جنگ اپنے ہتھیار ٹیسٹ کرنے کے لیے بہترین موقع ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی فوج کے سابق کمانڈر اور موجودہ 'ڈوما' کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ولادی میر شامانوو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ماسکو کے انجینئروں نے ملکی سطح پر تیار کردہ 200 اقسام کے نئے ہتھیاروں کو شام میں ٹیسٹ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انجینئرز نے اپنے ہتھیاروں کی آزمائش کے لیے شام کے شہروں اور قصبوں کو بطور تخت مشق استعمال کیا۔
شامانوو نے کہا کہ ہم نے شامی حکومت کی مدد کے لیے نئے اقسام کے ہتھیار بنائے اور انہیں استعمال کیا،ہمارے ہتھیار اس قدر کامیاب ہوئے کہ خود اسدی حکومت نے ہم سے مانگے اور ذخیرہ کیا جب کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہتھیار شامی حکومت نے اپنے شہریوں پر استعمال کیے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: شام میں روسی طیاروں کی بمباری سے 50 افراد ہلاک
ولادی میر شامانوو نے کہا کہ روس کے تیار کردہ طاقتور ہتھیار حال ہی میں مشرقی غوطہ میں استعمال ہوئے جس پر ماسکو کو فخر کرنا چاہیے،ہمارے نئے ہتھیاروں کی مانگ بڑھ چکی ہے اور مختلف سمتوں سے خریدار ہمارے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے آرہے ہیں، ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو کہ ہمارے اتحادی نہیں۔
شام کے اسلحہ خانوں میں پڑے ہتھیاروں کی بڑی تعداد روس کے فراہم کردہ ہیں جنہیں جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔
شام میں خانہ جنگی آغاز 7 سال قبل 2011میں اس وقت ہوا جب پرُ امن مظاہرین پر فوج نے گولی چلائی اور بے دردی سے انہیں موت کے گھاٹ اتادیا جس کے بعد شام میں قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔
4سال بعد روس شامی جنگ میں کود گیا اور 2015میں جب صدر بشارالاسد کی وفادار فوج کو باغیوں کے خلاف پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو ماسکو اسدی افواج کی مدد کے لیے جنگ میں شامل ہوگیا۔
روسی فوج کی شمولیت سے اسدی رجیم کے مخالف گروہوں کا قلع قمع کرنا کافی حد تک ممکن ہوا تاہم اس کی خاطر لاکھوں شہریوں کی جان و مال کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔روزانہ ہونے والی بمباری کے نتیجے میں اب تک لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں،صرف گزشتہ چار روز میں مشرقی غوطہ میں مرنے والے شہریوں کی تعداد 400سے تجاوز کر چکی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
حالانکہ روس عام شہریوں کونشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ماسکو کے طیارے اُن شہری علاقوں کی فضاؤں میں گھومتے اور بمباری کرتے دیکھے گئے ہیں جو مخالفین کے زیرقبضہ ہیں۔ رواں ہفتے روسی فضائیہ کے طیاروں جس میں راڈار میں نظر نہ آنے والا جنگی طیارہ بھی شامل تھا پہلی بار شامی صوبے لتاکیا میں دیکھا گیا۔
شام کے مغرب میں واقع ہمیم ایئر بیس روسی فضائیہ کے زیر استعمال ہے جب کہ طرطوس میں شامی بحریہ کے اڈے تک بھی ماسکو فوج کی رسائی ہے۔
سال 2016 میں اس وقت کے روسی وزیردفاع سرگئی شوئگو نے ملکی ملٹری ٹیکنالوجی کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ شامی جنگ اپنے ہتھیار ٹیسٹ کرنے کے لیے بہترین موقع ہے۔