وفاقی دارالحکومت کی دونوں نشستوں NA48NA49 پر سخت مقابلہ متوقع
قومی اسمبلی کی دونوں حلقوں میں ہرپارٹی کی جانب سے نامزدامیداوروں نے باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے.
ISLAMABAD:
ملک بھر میں 11 مئی 2013کو عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے دیگر حلقوں کی طرح وفاقی دارالحکومت کے دونوں انتخابی حلقوں این اے 48 اور 49 میں بھی انتخابی سرگرمیاں اور گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔
تقریبا ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درجنوں امیدوار ان دو حلقوں میں انتخابی دنگل کیلئے اترچکے ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سر فہرست ہیں۔ قومی اسمبلی کی دونوں حلقوں میں ہرپارٹی کی جانب سے نامزدامیداوروں نے باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے اوروفاقی دالحکومت کے ہر سیکٹرمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدواروں نے انتخابی جلسے، پارٹی اجلاس ، کارنر میٹنگز اور پارٹیوں میں شمولیتی تقاریب کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔
این اے 48 سے پارٹی ٹکٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے فیصل سخی بٹ،راجا عمران اشرف، نرگس فیض ملک،امجد ایوب گجر اور ذوالفقارعلی خان نے درخواستیںدے رکھی ہیں، جبکہ پاکستان مسلم لیک(ن) کے انجم عقیل خان،ظفر علی شاہ، عدنان کیانی اور ملک ربنواز بھی ٹکٹ کے حصول کیلئے میدان میں ہیں۔جماعت اسلامی کے میاں محمد اسلم بھی اس حلقے سے مضبوط امیداوار ہیں ،پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر اسرار شاہ، ڈاکٹر شہزاد وسیم، واجد حسین بخاری، عدنان رندھاوا، فیصل جاوید خان، طاہر جمیل اور شاہین خان سمیت متعدد امیدوار بھی پارٹی ٹکٹ کیلئے کوشاں ہیں،جبکہ ایم کیو ایم ،آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف ،ڈاکٹر امجد اور اداکارہ مسرت شاہین بھی اس حلقے سے انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حلقہ این اے 48 کے سابقہ دو انتخابی نتائج کے مطابق اس حلقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار میاں محمد اسلم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیداور انجم عقیل بھاری اکثریت سے جیت چکے ہیں۔سال 2002 کے انتخابات میں اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 187426 تھی،جن میں سے مجمومی طور پر 88227 ووٹ پول ہوئے، جماعت اسلامی کے امیدوار میاں محمد اسلم ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور 40365 ووٹ لیکر فاتح قرار پائے تھے،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ڈاکٹر بابر اعوان 28775 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
جبکہ مسلم لیک (ق) کے منور مغل 3915اور مسلم لیگ(ن) کے ظفر علی شاہ 3893ووٹ حاصل کر سکے تھے،2008کے انتخابات میں اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹرز کی239924 تعداد تھی، 104957ووٹ پول ہوئے اس انتخابات میں جماعت اسلامی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے انجم عقیل سب سے زیادہ 61480ووٹ لیکر فاتح قرار پائے،ان کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر اسرارشاہ 26485ووٹ حاصل کرسکے،پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رضوان صادق 10484ووٹ اور پی ٹی آئی کے امیداور عالمگیر خان1288 ووٹ حاصل کرسکے۔
دوسری جانب حلقہ این اے 48 میں اس بار دیگر تمام جماعتون کے امیدواروں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے امیدوار میاں محمد اسلم سب سے زیادہ متحرک اور مضبوط امیدوار نظر آرہے ہیں،میاں اسلم نے گذشتہ دو ڈھائی سال قبل ہی انتخابی مہم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔وہ 2002 کے انتخابات میں بھی اسی حلقے سے ایم ایم اے کی نشست پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو ئے تھے۔2008 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کی وجہ سے اس حلقے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل پاکستان پیپلز پارٹی کے نامز امیدوار ڈاکٹر اسرار شاہ کو بھاری ووٹوں سے شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔لیکن اس بار صورتحال بہت مختلف دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس بار اس حلقے سے انجم عقیل کو ٹکٹ دینے کے چانسز زیادہ ہیں جبکہ ظفر علی شاہ بھی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کو شاں ہیں اگر پارٹی قیادت اور ملک بھر میں پارٹی پوزیشن کو مد نظر رکھا جائے تو اس حلقے کے ووٹرز کا ووٹ بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ہی پڑ ے گا،تاہم پارٹی امیدوار پارٹی پوزیشن کو کس طرح کیش کرواسکتے ہیں اس کا انحصار امیدوار کی اپنی کریڈیبلیٹی اور عوام میں مقبولیت پرہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اس بار اس حلقے سے فیصل سخی بٹ کو ٹکٹ ملنے کے امکانات زیادہ ہے۔
فیصل سخی بٹ سابق دور حکومت میں بحیثیت چیئرمین وزیراعظم ٹاسک فورس برائے اسلام آباد کام کرتے رہے ہیں وہ بھر پور طرقے سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ نرگس فیض ملک، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے بھائی راجہ عمران اشرف بھی اس حلقے سے ٹکٹ کے حصول کیلئے تگ ودو کررہے ہیں۔تاہم جماعت اسلامی کے امیدوارمیاں اسلم اور مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی پوزیشن زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ اس حلقے سے تحریک انصاف کے کئی امیدوار بھی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کافی سرگرم ہیں جس میں سے ڈاکٹر اسرار شاہ یا ڈاکٹر شہزادوسیم میں سے کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ ملنے کے زیادہ امکانات ہیں۔
ابھی تک تحریک انصاف نے اسلام آباد کے دونوں حلقوں کیلئے کسی امیدوار کا نام فائنل نہیں کیا ہے۔ ان نمایاں سیاسی جماعتوں کے علاوہ اسلام آباد کے دونوں حلقوں سے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف ،ڈاکٹر محمد امجد،تحریک مساوات کی سربراہ و اداکارہ مسرت شاہین ،ایم کیو ایم کے کئی امیدوار اور جمعیت علماء (ف) کے ایک امیدوارسمیت کئی امیدوارون نے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔ تاہم اصل مقابلہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز،پاکستان مسلم لیگ(ن) جماعت اسلامی کے مابین ہی گا ہوا۔
حلقہ این اے 49 میں 2002ء کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد196177تھی جن میں سے مجموعی طور پر 108484ووٹ پول ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے نامزد امیدوار سید نیئر حسین بخاری47884 ووٹ لیکر سے کامیاب ہوئے۔آزاد حیثیت میں الیکش لڑنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر30016 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، جبکہ پاکستان مسلم لیک(ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری16832 ووٹ اور پی ٹی آئی کے ربنوزا چوہدری 7540 ووٹ حاصل کرسکے۔2008کے انتخابات میں اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد242877 تھی،136574ووٹ پول ہوئے۔پاکستان پاکستان مسلم لیک(ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری 45482ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے نامزد امیدوار سید نیئر حسین بخاری44726 ووٹ لیکر ان کے قریب تر رہے،آزاد حیثیت میں الیکش لڑنے والے ملک تبارک حسین (مرحوم) 8294 ووٹ حاصل کرسکے۔2013 کے انتخابات کیلئے اب تک اس حلقے سے مصطفی نواز کھوکھر پیپلز پارٹی کی جانب سے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار کی حیثیت سے میدان میں موجود ہیں ۔اب اس حلقے کی پوزیشن یہ ہے نیئر حسین بخاری چیئرمین سینٹ کے عہدے پر تعینات ہیں جس کی وجہ سے وہ اب اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیںاب ان کی جگہ سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر کے صاحبزادے مصطفی نواز کھوکھر کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ ملنے کی توقع ہے۔
سابق دور حکومت میں مصطفی نواز کھوکھر سابق وزیر اعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اور انہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں مسلم لیگ(ق) کی بھی سپورٹ ملے گی،یوں اس حلقے میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے امیدوار مصطفی نواز کھوکھر اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار وسابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے مابین ہو گا۔جبکہ اس حلقے سے جماعت اسلامی کے نامزد امیدوار زبیر فاروق بھی کافی سرگرم ہیں ،زبیر فاروق خان کا تعلق گولڑہ کی بااثر خان برادری سے ہے۔وہ اپنے حلقے میں مختلف برادریوں کے ساتھ کافی روابط قائم کر چکے ہیں ۔
اگر ان تینوں امیدواروں کا موازنہ کریں تو ہم بجا طور پر یہ کہ سکتے ہیں کہ تینوں امیدواروں کے درمیاں کانٹے دار مقابلے ہوگا ،عام شہریوں اور بااثر حلقوں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) نیاگر اس حلقے میں اپنی انتخابی مہم کو بھر پور طریقے سے نہ چلایا تواس کیلئے اس سیٹ کو حاصل کرنا آسان نہ ہو گاکیونکہ اس حلقے میں کھوکھر برادری کا اچھا خاصا ووٹ بنک ہے اور اگر اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کا اپنا ووٹ بنک بھی شامل ہوجائے تو مصطفی نواز کھوکھر کیلئے یہ سیٹ جیتنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
ساتھ ہی مصطفی نواز کھوکھر کو (پاکستان مسلم (ق) کی مکمل سپورٹ بھی حاصل ہو گی۔دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیدوار زبیر فاروق خان بھی شاندار انتخابی مہم چلا رہا ہے جماعت اسلامی تحصیل،یونین ،گاؤں اور وارڈ کی سطح پر منظم تنظیم سازی ،عوامی رابطوں اور سماجی حلقوں کے ساتھ ملاقاتوںکی وجہ سے وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی اس نشست پر بھی کسی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔اگر تحریک انصاف جماعت اسلامی کے امیدواروںکی حمایت کرتی ہے تو زبیر فاروق کے کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں۔
تاہم یہ بات بھی اہم ہیںکہ وفاقی دارالحکومت کے نواحی علاقوں کے عوام ملک کے دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے تنگ آچکے ہیں اکثر شہریوں کی رائے یہ ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں صرف اس امیدوار کا ساتھ دیں گے جو ان کے مسائل حل کرائیں گے، شہریوں کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو کئی بار آزما چکے ہیں تاہم دونوں جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے،ملک سے غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے،ملک کو دہشتگردی کے عذاب سے پاک کرکے امن قائم کرنے اور کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام میں مکمل ناکام رہی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ نظام اور قیادت میں تبدیلی لائے۔عوامی رائے یہ ہے کہ عوام کے ووٹو ں سے اقتدار میں پہنچنے والوں نے عوامی نمائند گی کا حق ادا نہیں کیا ۔
جن کی نا قص پا لیسیو ں اور نا اہلی کی بناء پر ملک اور معا شرہ مسا ئل کے گرداب میں پھنس چکا ہے معا شی مشکلا ت اور مہنگائی کے ستائے عوام مفاد پرستوں سے چھٹکارہ چا ہتے ہیں ملک کو با کردار صا لح اور دیانتدار قیا دت ہی مسا ئل اور بحرا نوں سے با ہر نکا ل سکتی ہے جو لوگ عوام کو گیس، بجلی ،پانی،کھانے پینے کی اشیاسمیت دیگر روزمررہ بنیا دی ضروریات پوری نہیں کر سکتے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے اور عوامی نما ئند گی کا کوئی حق نہیں، عوام ایسے لوگوں سے سخت تنگ آ چکے ہیں عوام کو چاہیے کے وہ الیکشن میں کرپٹ لوگوں کو مسترد کر دیں۔ان تمام توقعات اور خواہشات کے برعکس یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ جند سالوں کے دوران اسلام آباد میں کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی خاص ترقیاتی منصوبہ یا کسی بھی شعبے میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہ دیا۔
اگر آج اسلام آباد میں ملک کے دیگر حصوں اور حلقوں کی نسبت زیادہترقی دکھائی دے رہی ہے تو یہ منصوبے کسی سیاسی جماعت یا کسی ممبر رکن اسمبلی کی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ سڑکوں اور شاہراہوں کی کشادگی بھی مشرف دور میں سی ڈی اے نے ہی کروائی ہے۔ کسی جماعت نے وفاقی دارالحکومت پر کوئی توجہ نہیں دی ہے،یہی وجہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت جیسے اس اہم اور خوبصورت شہر میں آج بھی ایک درجن کے لگ بھگ کچی آبادیاں قائم ہیں جہاں لوگ دور قدیم کے انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انہیں نہ تو پانی کی سہولت میسر ہیں اور نہ ہی بجلی و گیس جیسی نعمتیں،ان آبادیوں میں نہ تو سرکاری سکول ہیں نہ ہی کوئی ڈسپنسری،نہ وہاں سیوریج کا نظام ہے اور نہ پکی سڑکیں،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہں نہ تو مالکانہ حقوق دیئے جارہے ہیں اور نہ ہی ان کو مستقل کیا جا رہا ہے۔حالانکہ صوبوں نے ان جیسی سینکڑوں کچی آبادیوں کو مستقل کرکے وہاں کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دیدیئے ہیں۔
ملک بھر میں 11 مئی 2013کو عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے دیگر حلقوں کی طرح وفاقی دارالحکومت کے دونوں انتخابی حلقوں این اے 48 اور 49 میں بھی انتخابی سرگرمیاں اور گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔
تقریبا ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درجنوں امیدوار ان دو حلقوں میں انتخابی دنگل کیلئے اترچکے ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سر فہرست ہیں۔ قومی اسمبلی کی دونوں حلقوں میں ہرپارٹی کی جانب سے نامزدامیداوروں نے باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے اوروفاقی دالحکومت کے ہر سیکٹرمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدواروں نے انتخابی جلسے، پارٹی اجلاس ، کارنر میٹنگز اور پارٹیوں میں شمولیتی تقاریب کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔
این اے 48 سے پارٹی ٹکٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے فیصل سخی بٹ،راجا عمران اشرف، نرگس فیض ملک،امجد ایوب گجر اور ذوالفقارعلی خان نے درخواستیںدے رکھی ہیں، جبکہ پاکستان مسلم لیک(ن) کے انجم عقیل خان،ظفر علی شاہ، عدنان کیانی اور ملک ربنواز بھی ٹکٹ کے حصول کیلئے میدان میں ہیں۔جماعت اسلامی کے میاں محمد اسلم بھی اس حلقے سے مضبوط امیداوار ہیں ،پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر اسرار شاہ، ڈاکٹر شہزاد وسیم، واجد حسین بخاری، عدنان رندھاوا، فیصل جاوید خان، طاہر جمیل اور شاہین خان سمیت متعدد امیدوار بھی پارٹی ٹکٹ کیلئے کوشاں ہیں،جبکہ ایم کیو ایم ،آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف ،ڈاکٹر امجد اور اداکارہ مسرت شاہین بھی اس حلقے سے انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حلقہ این اے 48 کے سابقہ دو انتخابی نتائج کے مطابق اس حلقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار میاں محمد اسلم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیداور انجم عقیل بھاری اکثریت سے جیت چکے ہیں۔سال 2002 کے انتخابات میں اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 187426 تھی،جن میں سے مجمومی طور پر 88227 ووٹ پول ہوئے، جماعت اسلامی کے امیدوار میاں محمد اسلم ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور 40365 ووٹ لیکر فاتح قرار پائے تھے،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ڈاکٹر بابر اعوان 28775 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
جبکہ مسلم لیک (ق) کے منور مغل 3915اور مسلم لیگ(ن) کے ظفر علی شاہ 3893ووٹ حاصل کر سکے تھے،2008کے انتخابات میں اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹرز کی239924 تعداد تھی، 104957ووٹ پول ہوئے اس انتخابات میں جماعت اسلامی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے انجم عقیل سب سے زیادہ 61480ووٹ لیکر فاتح قرار پائے،ان کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر اسرارشاہ 26485ووٹ حاصل کرسکے،پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رضوان صادق 10484ووٹ اور پی ٹی آئی کے امیداور عالمگیر خان1288 ووٹ حاصل کرسکے۔
دوسری جانب حلقہ این اے 48 میں اس بار دیگر تمام جماعتون کے امیدواروں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے امیدوار میاں محمد اسلم سب سے زیادہ متحرک اور مضبوط امیدوار نظر آرہے ہیں،میاں اسلم نے گذشتہ دو ڈھائی سال قبل ہی انتخابی مہم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔وہ 2002 کے انتخابات میں بھی اسی حلقے سے ایم ایم اے کی نشست پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو ئے تھے۔2008 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کی وجہ سے اس حلقے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل پاکستان پیپلز پارٹی کے نامز امیدوار ڈاکٹر اسرار شاہ کو بھاری ووٹوں سے شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔لیکن اس بار صورتحال بہت مختلف دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس بار اس حلقے سے انجم عقیل کو ٹکٹ دینے کے چانسز زیادہ ہیں جبکہ ظفر علی شاہ بھی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کو شاں ہیں اگر پارٹی قیادت اور ملک بھر میں پارٹی پوزیشن کو مد نظر رکھا جائے تو اس حلقے کے ووٹرز کا ووٹ بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ہی پڑ ے گا،تاہم پارٹی امیدوار پارٹی پوزیشن کو کس طرح کیش کرواسکتے ہیں اس کا انحصار امیدوار کی اپنی کریڈیبلیٹی اور عوام میں مقبولیت پرہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اس بار اس حلقے سے فیصل سخی بٹ کو ٹکٹ ملنے کے امکانات زیادہ ہے۔
فیصل سخی بٹ سابق دور حکومت میں بحیثیت چیئرمین وزیراعظم ٹاسک فورس برائے اسلام آباد کام کرتے رہے ہیں وہ بھر پور طرقے سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ نرگس فیض ملک، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے بھائی راجہ عمران اشرف بھی اس حلقے سے ٹکٹ کے حصول کیلئے تگ ودو کررہے ہیں۔تاہم جماعت اسلامی کے امیدوارمیاں اسلم اور مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی پوزیشن زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ اس حلقے سے تحریک انصاف کے کئی امیدوار بھی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کافی سرگرم ہیں جس میں سے ڈاکٹر اسرار شاہ یا ڈاکٹر شہزادوسیم میں سے کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ ملنے کے زیادہ امکانات ہیں۔
ابھی تک تحریک انصاف نے اسلام آباد کے دونوں حلقوں کیلئے کسی امیدوار کا نام فائنل نہیں کیا ہے۔ ان نمایاں سیاسی جماعتوں کے علاوہ اسلام آباد کے دونوں حلقوں سے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف ،ڈاکٹر محمد امجد،تحریک مساوات کی سربراہ و اداکارہ مسرت شاہین ،ایم کیو ایم کے کئی امیدوار اور جمعیت علماء (ف) کے ایک امیدوارسمیت کئی امیدوارون نے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔ تاہم اصل مقابلہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز،پاکستان مسلم لیگ(ن) جماعت اسلامی کے مابین ہی گا ہوا۔
حلقہ این اے 49 میں 2002ء کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد196177تھی جن میں سے مجموعی طور پر 108484ووٹ پول ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے نامزد امیدوار سید نیئر حسین بخاری47884 ووٹ لیکر سے کامیاب ہوئے۔آزاد حیثیت میں الیکش لڑنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر30016 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، جبکہ پاکستان مسلم لیک(ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری16832 ووٹ اور پی ٹی آئی کے ربنوزا چوہدری 7540 ووٹ حاصل کرسکے۔2008کے انتخابات میں اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد242877 تھی،136574ووٹ پول ہوئے۔پاکستان پاکستان مسلم لیک(ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری 45482ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے نامزد امیدوار سید نیئر حسین بخاری44726 ووٹ لیکر ان کے قریب تر رہے،آزاد حیثیت میں الیکش لڑنے والے ملک تبارک حسین (مرحوم) 8294 ووٹ حاصل کرسکے۔2013 کے انتخابات کیلئے اب تک اس حلقے سے مصطفی نواز کھوکھر پیپلز پارٹی کی جانب سے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار کی حیثیت سے میدان میں موجود ہیں ۔اب اس حلقے کی پوزیشن یہ ہے نیئر حسین بخاری چیئرمین سینٹ کے عہدے پر تعینات ہیں جس کی وجہ سے وہ اب اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیںاب ان کی جگہ سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر کے صاحبزادے مصطفی نواز کھوکھر کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ ملنے کی توقع ہے۔
سابق دور حکومت میں مصطفی نواز کھوکھر سابق وزیر اعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اور انہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں مسلم لیگ(ق) کی بھی سپورٹ ملے گی،یوں اس حلقے میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے امیدوار مصطفی نواز کھوکھر اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار وسابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے مابین ہو گا۔جبکہ اس حلقے سے جماعت اسلامی کے نامزد امیدوار زبیر فاروق بھی کافی سرگرم ہیں ،زبیر فاروق خان کا تعلق گولڑہ کی بااثر خان برادری سے ہے۔وہ اپنے حلقے میں مختلف برادریوں کے ساتھ کافی روابط قائم کر چکے ہیں ۔
اگر ان تینوں امیدواروں کا موازنہ کریں تو ہم بجا طور پر یہ کہ سکتے ہیں کہ تینوں امیدواروں کے درمیاں کانٹے دار مقابلے ہوگا ،عام شہریوں اور بااثر حلقوں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) نیاگر اس حلقے میں اپنی انتخابی مہم کو بھر پور طریقے سے نہ چلایا تواس کیلئے اس سیٹ کو حاصل کرنا آسان نہ ہو گاکیونکہ اس حلقے میں کھوکھر برادری کا اچھا خاصا ووٹ بنک ہے اور اگر اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کا اپنا ووٹ بنک بھی شامل ہوجائے تو مصطفی نواز کھوکھر کیلئے یہ سیٹ جیتنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
ساتھ ہی مصطفی نواز کھوکھر کو (پاکستان مسلم (ق) کی مکمل سپورٹ بھی حاصل ہو گی۔دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیدوار زبیر فاروق خان بھی شاندار انتخابی مہم چلا رہا ہے جماعت اسلامی تحصیل،یونین ،گاؤں اور وارڈ کی سطح پر منظم تنظیم سازی ،عوامی رابطوں اور سماجی حلقوں کے ساتھ ملاقاتوںکی وجہ سے وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی اس نشست پر بھی کسی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔اگر تحریک انصاف جماعت اسلامی کے امیدواروںکی حمایت کرتی ہے تو زبیر فاروق کے کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں۔
تاہم یہ بات بھی اہم ہیںکہ وفاقی دارالحکومت کے نواحی علاقوں کے عوام ملک کے دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے تنگ آچکے ہیں اکثر شہریوں کی رائے یہ ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں صرف اس امیدوار کا ساتھ دیں گے جو ان کے مسائل حل کرائیں گے، شہریوں کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو کئی بار آزما چکے ہیں تاہم دونوں جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے،ملک سے غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے،ملک کو دہشتگردی کے عذاب سے پاک کرکے امن قائم کرنے اور کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام میں مکمل ناکام رہی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ نظام اور قیادت میں تبدیلی لائے۔عوامی رائے یہ ہے کہ عوام کے ووٹو ں سے اقتدار میں پہنچنے والوں نے عوامی نمائند گی کا حق ادا نہیں کیا ۔
جن کی نا قص پا لیسیو ں اور نا اہلی کی بناء پر ملک اور معا شرہ مسا ئل کے گرداب میں پھنس چکا ہے معا شی مشکلا ت اور مہنگائی کے ستائے عوام مفاد پرستوں سے چھٹکارہ چا ہتے ہیں ملک کو با کردار صا لح اور دیانتدار قیا دت ہی مسا ئل اور بحرا نوں سے با ہر نکا ل سکتی ہے جو لوگ عوام کو گیس، بجلی ،پانی،کھانے پینے کی اشیاسمیت دیگر روزمررہ بنیا دی ضروریات پوری نہیں کر سکتے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے اور عوامی نما ئند گی کا کوئی حق نہیں، عوام ایسے لوگوں سے سخت تنگ آ چکے ہیں عوام کو چاہیے کے وہ الیکشن میں کرپٹ لوگوں کو مسترد کر دیں۔ان تمام توقعات اور خواہشات کے برعکس یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ جند سالوں کے دوران اسلام آباد میں کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی خاص ترقیاتی منصوبہ یا کسی بھی شعبے میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہ دیا۔
اگر آج اسلام آباد میں ملک کے دیگر حصوں اور حلقوں کی نسبت زیادہترقی دکھائی دے رہی ہے تو یہ منصوبے کسی سیاسی جماعت یا کسی ممبر رکن اسمبلی کی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ سڑکوں اور شاہراہوں کی کشادگی بھی مشرف دور میں سی ڈی اے نے ہی کروائی ہے۔ کسی جماعت نے وفاقی دارالحکومت پر کوئی توجہ نہیں دی ہے،یہی وجہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت جیسے اس اہم اور خوبصورت شہر میں آج بھی ایک درجن کے لگ بھگ کچی آبادیاں قائم ہیں جہاں لوگ دور قدیم کے انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انہیں نہ تو پانی کی سہولت میسر ہیں اور نہ ہی بجلی و گیس جیسی نعمتیں،ان آبادیوں میں نہ تو سرکاری سکول ہیں نہ ہی کوئی ڈسپنسری،نہ وہاں سیوریج کا نظام ہے اور نہ پکی سڑکیں،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہں نہ تو مالکانہ حقوق دیئے جارہے ہیں اور نہ ہی ان کو مستقل کیا جا رہا ہے۔حالانکہ صوبوں نے ان جیسی سینکڑوں کچی آبادیوں کو مستقل کرکے وہاں کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دیدیئے ہیں۔