اداروں سے لڑائی کیا حاصل ہوگا
اداروں کی سوچ، فیصلے بھی اجتماعی ہوتے ہیں۔ اس لیے طاقت اور قوت بھی اجتماعی ہوتی ہے۔
افراد کبھی اداروں سے بالادست نہیں ہو سکتے۔ انسانی تاریخ میں افراد نے ہمیشہ اداروں سے شکست کھائی ہے۔اداروں سے لڑنے کے لیے ادارہ ہی بنانا پڑتاہے کیونکہ ایک ادارہ ہی ایک ادارے سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی ایک مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ جتنا مرضی بہادر سپہ سالار ہو ہزاروں پر اکیلا ہی بھاری پڑسکتا ہو۔ لیکن پھر بھی اپنی مخالف دشمن فوج پر جیت کے لیے اسے بھی ایک فوج بنانی پڑتی ہے۔ اس لیے جب ادارہ ہی ادارے سے ٹکراتا ہے تب جیت ہار میں یہ بات معنی رکھتی ہے کہ کس ادارے کی سربراہی کس کے پاس تھی وہ کتنا فعال اور بہتر تھا۔
سیاسی جماعتیں ہمیشہ اس لیے ہار جاتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں خود کوئی ادارہ نہیں ہوتیں۔ بلکہ فرد واحد کی ملکیت سمجھی جاتی ہیں۔ ایسے جب فرد واحد اداروں سے لڑتا ہے تو ہار ہی اس کا مقدر بنتی ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی پر دوسری مہر ثبت ہو گئی ہے۔نہ پہلی نا اہلی کوئی سرپرائز تھا اور نہ ہی اس پر مہر ثبت کوئی سرپرائز ہے۔نواز شریف پہلے سیاستدان نہیں ہیں جو اداروں سے لڑ رہے ہیں۔
ان سے پہلے بھی یہ کوشش کئی بار ہوئی ہے اور ہر بار سیاستدان ناکام ہی ہوئے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال بھٹو کی دی جاتی ہے۔ لیکن بھٹو بھی ہار گئے۔ ان کے بچے بھی ہار گئے۔ دونوں بیٹے بھی ہار گئے۔ جہاں تک محترمہ بے نظیربھٹو کی بات ہے تو انھوں نے اپنی باپ کی لڑائی اور انجام سے سبق سیکھا اور کبھی بھی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی نہیں کی۔ ہمیشہ صلح کا راستہ نکالا۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ وہ کتنی کامیاب رہیں اور کتنی ناکام رہیں۔
اب نواز شریف بھی قومی اداروں اور اسٹبلشمنٹ سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔وہ بھی بھٹو کی طرح اپنی انفرادی مقبولیت کے سہارے ہی یہ لڑائی جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ مقبول ہیں لیکن ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کوئی ادارہ نہیں ہے ،وہ اسی لیے ہار رہے ہیں ۔ اگر انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کو ایک ادارہ بنایا ہوتا اور بھٹو کی شکست سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہار ان کا مقدر نہیں بنتی۔ ذاتی ملکیت کے طور پر چلائی جانیوالی سیاسی جماعتیں کبھی بھی اداروں سے نہیں جیت سکتیں۔ ایک وقتی جیت تو مل سکتی ہے لیکن آخری جیت اداروں کی ہی ہوتی ہیں۔
اداروں کی سوچ، فیصلے بھی اجتماعی ہوتے ہیں۔ اس لیے طاقت اور قوت بھی اجتماعی ہوتی ہے۔ فرد واحد جتنا بھی طاقتور ہو جائے ادارہ سے کمزور ہی رہتا ہے۔ نواز شریف اس لڑائی کے نتیجے میں تمام راستے بند کر رہے ہیں۔ ماضی میں جب بھی نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان لڑائی ہوئی نواز شریف نے محفوظ راستہ لے لیا جس نے اسٹبلشمنٹ کے دل میں ایک نرم گوشہ رکھا کہ یہ آگے سے لڑتا نہیں ہے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہو رہا۔ نواز شریف روز بروز لڑائی بڑھاتے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ پہلے سب بڑے فیصلے میاں شریف کی مرضی سے مشروط ہوتے تھے وہ ہی بڑے فیصلے کرتے تھے اور نوازشریف ان فیصلوں کو مانتے تھے۔ میاں شریف اسٹبلشمنٹ اور اداروں کی قوت کو سمجھتے تھے ۔ کہاں آگے بڑھنا اور کہاں پیچھے ہٹنا وہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے کامیاب بھی رہتے تھے۔ شائد آج ایسا سمجھانے والا کوئی نہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان میں اسٹبلمشنٹ کے نام سے جانے اور پہچانے جانے والے ادارے ملک کی سلامتی ریاست کی بقا اور قومی سلامتی جیسے حساس معاملات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ملک کی سیاسی قیادت نے کوئی ایسے سیاسی ادارے قائم نہیں کیے جو یہ کام کر سکیں۔ فرد واحد کے ذمے یہ کام سونپنے سے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
اگر پاکستان کی سیاسی قیادت واقعی ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو نہ صرف اپنی سیاسی جماعتوں کو فرد واحد اور خاندان کے ارد گرد گھمانے کے بجائے اداروں کی شکل دیتیں بلکہ دیگر سیاسی اداروں کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنے کے بجائے ادارہ جاتی کنٹرول میں دیتیں۔ ہم کہتے ہیں کہ
ملک کا سب مضبوط اور طاقتور آدمی آرمی چیف ہوتا ہے لیکن کوئی بھی آرمی چیف جاتے ہوئے اپنے بیٹے یا بھائی کو کمان تو نہیں دے سکتا۔ سسٹم میں جو لوگ لائن میں موجود ہیں وہی آگے آتے ہیں۔ اسی طرح چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ بھی ایک مضبوط عہدہ ہوتا ہے۔لیکن کوئی بھی چیف جسٹس نہ تو اپنے بیٹے اور نہ ہی بھائی کواپنی نشست دے سکتا ہے۔ عہدہ کی مدت بھی موجود ہے۔ تعیناتی کا شفاف طریقہ بھی موجود ہے۔ گھر جانے کا راستہ بھی موجود ہے۔ جب کہ مقابلے میں موجود سیاسی جماعتیں فرد واحد کی ملکیت رہتی ہیں۔
ان میں نئی قیادت کے سامنے آنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، وراثتی سیاست کا شکار ہیں۔ لیڈر کو اپنی ذات اور اپنی اولاد ہی سب سے مقدم ہے۔ اور یہ تاثر عام ہے کہ اپنی ذات اور اپنی اولاد کے مفاد کی خاطر ریاست کے مفاد کی بھی پس پشت دھکیلا جا سکتا ہے۔ یہی سیاسی قیادت کی ہارکی بنیادی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد سے آگے نہیں دیکھ سکتیں ۔
نواز شریف کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ روز بروز اپنی لڑائی کو ایک ذاتی لڑائی بناتے جا رہے ہیں۔ وہ ووٹ کے تقدس کے بجائے اپنی ذات کے تقدس کی لڑائی بناتے جا رہے ہیں۔ وہ قومی سلامتی کے نگہبان اداروں سے اپنے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے کر جا رہے ہیں۔انھیں سمجھنا ہو گا کہ وہ طیب اردگان اس لیے نہیں ہیں کہ انھوں نے اپنے ملک کی طیب اردگان جیسی خدمت نہیں کی۔ وہ کل تک مفاہمت کرتے رہے ہیں آج ایک دم انکار کیسے کر سکتے ہیں۔
نواز شریف کے پاس آج بھی موقع ہے میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ وہ اپنے معاملات خود سنبھالنے کے بجائے اپنی پارٹی کے حوالے کریں۔ پارٹی میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار کر دیں۔ خود کسی کو نامزد نہ کریں۔ اپنا کنٹرول ختم کریں۔ یہ پارٹی یہ کنٹرول ان کو نہیں بچا سکتا۔ خود کو الگ کرنے سے ان کے راستے بھی کھلیں گے۔ مریم بی بی کو بھی موقع ملے گا۔ ایسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بلکہ روز ایک دروازہ بند ہوتاجائے گا۔