ماں اور بچہ
ماں کی گود میں آج بھی وہی آرام و سکون ملے گا جو ان کو بچپن میں ملتا تھا۔
ماں کی نرم و گرم گود بچے کے لیے دنیا بھر کی بہترین راحت ہوتی ہے اور جو سکون اسے ماں کی گود میں ملتا ہے وہ دنیا میں بنائے گئے کسی بھی قسم کے عمدہ بستر پر نہیں مل سکتا اس کی راحت کا سب سے بڑا سامان ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔
بچوں کے ساتھ ساتھ اگر آپ بڑوں کا ذکر کریں تو جن خوش نصیب لوگوں کی مائیں زندہ ہیں وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہونے کے باوجود اس راحت و تسکین سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، یہ بات شرطیہ ہے کہ ان کو ماں کی گود میں آج بھی وہی آرام و سکون ملے گا جو ان کو بچپن میں ملتا تھا اور وہ دنیا جہاں کی تکلیفوں کو ماں کی گود میں بھلا دیتا ہے۔
میں ان بد قسمت لوگوں میں شامل ہوں جن کی ماں ایک عرصہ ہوا اپنے حقیقی مالک کے پاس جا چکی ہیں لیکن آج بھی اس کی دعائیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں اور میں دوسرے لوگوں کی طرح اگر یہ کہوں کہ یہ میری زندگی کی کامیابی کا راز میری ماں کی دعائیں ہیں تو یہ سو فیصد سچ پر مبنی ہو گا کہ میں نے اپنی ماں کے منہ سے ہر وقت اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے کلمہ خیر ہی سنا۔
آج جب وہ نہیں ہیں تو ان کی دعاؤں کے خالص دیہاتی الفاظ میری سماعت سے ٹکراتے ہیں اور میں لاہور میں اس اطمینان سے رہتا ہوں کہ میری ماں کی دعائیں میرا پیچھا کرتی ہیں۔ میرے ساتھ ہیں۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کو ماں جیسی دنیا کی عظیم ترین نعمت میسر ہے اور وہ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ماں کی دعائیں ان کی دنیاوی زندگی میں سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ایک ایسا اثاثہ جو کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی لالچ کے، کسی دنیاوی مطلب کے، ایک بے غرض اور بے لوث رشتہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں، اس لیے میں ایسے لوگوں کو بد نصیب لوگوں میں شمار کرتا ہوں جو کہ ماں کے ہوتے ہوئے بھی اس سے محروم ہیں۔
میں اگر اپنی بات کروں تو جب کوئی گاؤں جا رہا ہوتا ہے تو میری اس سے ایک ہی درخواست ہوتی ہے کہ میری طرف سے بھی میری ماں کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھ لینا جس کا جواب مجھے فوراً مل جاتا ہے اور ماں کسی نہ کسی روپ میں نمودار ہو کراس کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔
اسی طرح ماں کے درجات کے بارے میں ہمارے دین میں بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ ماں کی آغوش نومولود بچے کا دنیا سے پہلا تعارف ہوتی ہے اور اس نرم و گرم آغوش میں آتے ہی نومولود کو ماں کا لمس اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک محفوظ خول سے نکل کر دوسرے محفوظ خول میں پہنچ گیا ہے اور وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماں کی شفقت کا یہ سایہ اولاد سے کبھی جدا نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گھنا ہوتا جاتا ہے اور ماں بچوں کو اسی گھنی چھاؤں میں ہی دیکھنا چاہتی ہے اور ان پر زمانے کی سرد و گرم کا سایہ اس سے برداشت نہیں ہوتا۔
مجھے آج ماں کے بے ساختہ یاد آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے ادارے یونیسف نے پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات پہلے نمبر پر ہے یعنی افریقہ اور افغانستان جیسے ملک جن کی پستی کی مثالیں دیتے ہم آج بھی نہیں تھکتے ان سے بھی اس معاملے میں نیچے چلے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان میں ہر بائیس بچوں میں ایک پیدائش کے پہلے مہینے میں ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ جاپان میں یہ شرح گیارہ سو سے زائد ہے۔ نومولود بچوں کی ہلاکت کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے پہلے نمبر پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ دنیا میں گزشتہ پچیس برسوں میں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کی تعداد میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی ہے تاہم ایک ماہ سے کم عمر بچوں کو بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیںکیے گئے اور دنیا میں پاکستان ، افغانستان اور سینٹرل افریقن ریپبلک وہ تین ممالک ہیں جہاں نوزائیدہ بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات سب سے کم ہیں۔
پاکستان میں 2016 میں اعدادوشمار کے مطابق ہر بائیس بچوں میں سے ایک بچہ پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہو گیا جب کہ کل تعداد دو لاکھ اڑتالیس ہزار رہی ۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ وہ اس شرح اموات میں کمی لانے کے لیے خود بھی کچھ اقدامات کریں جن میں مائیں نوزائیدہ بچوں کو گرم کپڑے میں لپیٹ کر رکھیں اپنے جسم سے انھیں گرمائش دیں اور انھیں اپنا دودھ پلائیں۔
عالمی ادارے کو تحقیق کے بعد اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ تیسری دنیا کی حکومتوں نے دنیا میں آنے والے ننھے مہمانوں کی صحت کے کچھ خاص اقدامات تو کرنے کرانے نہیں اس لیے انھوں نے ممتا کو ہی آواز دی ہے کہ وہ اپنے جگر گوشوں کی جس قدر ہو سکے حفاظتی اقدامات خود ہی سے کریں تا کہ وہ دنیا میں آتے ہی اپنی زندگی کا محفوظ سفر شروع کر سکیں اور یہ محفوظ سفر ماں کی گود ہی سے شروع ہوتا ہے اس لیے عالمی ماہرین بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ماں کی گود اور اس کا دودھ ہی بچوں کو نوزائیدگی میں کسی جاں لیوا خطرے سے دور رکھ سکتا ہے۔
دوسری طرف حکومتوں کی ترجیحات تو کچھ اور ہی ہیں، آئے دن کی یہ خبریں اب ایک معمول بنتی جا رہی ہیں کہ ماں نے سڑک پر، کسی سواری میں یا کسی اسپتال کے باہر ہی بچے کو جنم دے دیا جس کی بڑی وجہ صحت کی سہولتوں کی کمی ہے اور خاص طور پر سرکاری شعبے میں اسپتال اس کمی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، نجی اسپتالوں میں گنجائش تو ہے لیکن ان کے ہوشربا اخراجات عوام کی پہنچ سے دور ہیں اور صرف چند فیصد افراد ہی ان نجی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔
عوام کی ایک بڑی تعداد کا انحصار سرکاری اسپتالوں کی سہولتوں پر ہی ہے، ہماری حکومت اگر زچہ بچہ کے سلسلے میں ہی کچھ اقدامات کر دے تو عالمی برادری کی جانب سے اس شرمناک صورتحال سے بچا جا سکتا ہے اور لاکھوں ماؤں کی گودیں اجڑنے سے بچائی جا سکتی ہیں ۔ ماں کی دعا اور بددعا عرش ہلا دیتی ہے ۔ انتخاب ہمارا اپنا ہے کہ ہم کیا لینا چاہتے ہیں دعا یا بددعا؟
بچوں کے ساتھ ساتھ اگر آپ بڑوں کا ذکر کریں تو جن خوش نصیب لوگوں کی مائیں زندہ ہیں وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہونے کے باوجود اس راحت و تسکین سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، یہ بات شرطیہ ہے کہ ان کو ماں کی گود میں آج بھی وہی آرام و سکون ملے گا جو ان کو بچپن میں ملتا تھا اور وہ دنیا جہاں کی تکلیفوں کو ماں کی گود میں بھلا دیتا ہے۔
میں ان بد قسمت لوگوں میں شامل ہوں جن کی ماں ایک عرصہ ہوا اپنے حقیقی مالک کے پاس جا چکی ہیں لیکن آج بھی اس کی دعائیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں اور میں دوسرے لوگوں کی طرح اگر یہ کہوں کہ یہ میری زندگی کی کامیابی کا راز میری ماں کی دعائیں ہیں تو یہ سو فیصد سچ پر مبنی ہو گا کہ میں نے اپنی ماں کے منہ سے ہر وقت اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے کلمہ خیر ہی سنا۔
آج جب وہ نہیں ہیں تو ان کی دعاؤں کے خالص دیہاتی الفاظ میری سماعت سے ٹکراتے ہیں اور میں لاہور میں اس اطمینان سے رہتا ہوں کہ میری ماں کی دعائیں میرا پیچھا کرتی ہیں۔ میرے ساتھ ہیں۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کو ماں جیسی دنیا کی عظیم ترین نعمت میسر ہے اور وہ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ماں کی دعائیں ان کی دنیاوی زندگی میں سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ایک ایسا اثاثہ جو کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی لالچ کے، کسی دنیاوی مطلب کے، ایک بے غرض اور بے لوث رشتہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں، اس لیے میں ایسے لوگوں کو بد نصیب لوگوں میں شمار کرتا ہوں جو کہ ماں کے ہوتے ہوئے بھی اس سے محروم ہیں۔
میں اگر اپنی بات کروں تو جب کوئی گاؤں جا رہا ہوتا ہے تو میری اس سے ایک ہی درخواست ہوتی ہے کہ میری طرف سے بھی میری ماں کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھ لینا جس کا جواب مجھے فوراً مل جاتا ہے اور ماں کسی نہ کسی روپ میں نمودار ہو کراس کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔
اسی طرح ماں کے درجات کے بارے میں ہمارے دین میں بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ ماں کی آغوش نومولود بچے کا دنیا سے پہلا تعارف ہوتی ہے اور اس نرم و گرم آغوش میں آتے ہی نومولود کو ماں کا لمس اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک محفوظ خول سے نکل کر دوسرے محفوظ خول میں پہنچ گیا ہے اور وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماں کی شفقت کا یہ سایہ اولاد سے کبھی جدا نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گھنا ہوتا جاتا ہے اور ماں بچوں کو اسی گھنی چھاؤں میں ہی دیکھنا چاہتی ہے اور ان پر زمانے کی سرد و گرم کا سایہ اس سے برداشت نہیں ہوتا۔
مجھے آج ماں کے بے ساختہ یاد آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے ادارے یونیسف نے پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات پہلے نمبر پر ہے یعنی افریقہ اور افغانستان جیسے ملک جن کی پستی کی مثالیں دیتے ہم آج بھی نہیں تھکتے ان سے بھی اس معاملے میں نیچے چلے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان میں ہر بائیس بچوں میں ایک پیدائش کے پہلے مہینے میں ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ جاپان میں یہ شرح گیارہ سو سے زائد ہے۔ نومولود بچوں کی ہلاکت کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے پہلے نمبر پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ دنیا میں گزشتہ پچیس برسوں میں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کی تعداد میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی ہے تاہم ایک ماہ سے کم عمر بچوں کو بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیںکیے گئے اور دنیا میں پاکستان ، افغانستان اور سینٹرل افریقن ریپبلک وہ تین ممالک ہیں جہاں نوزائیدہ بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات سب سے کم ہیں۔
پاکستان میں 2016 میں اعدادوشمار کے مطابق ہر بائیس بچوں میں سے ایک بچہ پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہو گیا جب کہ کل تعداد دو لاکھ اڑتالیس ہزار رہی ۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ وہ اس شرح اموات میں کمی لانے کے لیے خود بھی کچھ اقدامات کریں جن میں مائیں نوزائیدہ بچوں کو گرم کپڑے میں لپیٹ کر رکھیں اپنے جسم سے انھیں گرمائش دیں اور انھیں اپنا دودھ پلائیں۔
عالمی ادارے کو تحقیق کے بعد اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ تیسری دنیا کی حکومتوں نے دنیا میں آنے والے ننھے مہمانوں کی صحت کے کچھ خاص اقدامات تو کرنے کرانے نہیں اس لیے انھوں نے ممتا کو ہی آواز دی ہے کہ وہ اپنے جگر گوشوں کی جس قدر ہو سکے حفاظتی اقدامات خود ہی سے کریں تا کہ وہ دنیا میں آتے ہی اپنی زندگی کا محفوظ سفر شروع کر سکیں اور یہ محفوظ سفر ماں کی گود ہی سے شروع ہوتا ہے اس لیے عالمی ماہرین بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ماں کی گود اور اس کا دودھ ہی بچوں کو نوزائیدگی میں کسی جاں لیوا خطرے سے دور رکھ سکتا ہے۔
دوسری طرف حکومتوں کی ترجیحات تو کچھ اور ہی ہیں، آئے دن کی یہ خبریں اب ایک معمول بنتی جا رہی ہیں کہ ماں نے سڑک پر، کسی سواری میں یا کسی اسپتال کے باہر ہی بچے کو جنم دے دیا جس کی بڑی وجہ صحت کی سہولتوں کی کمی ہے اور خاص طور پر سرکاری شعبے میں اسپتال اس کمی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، نجی اسپتالوں میں گنجائش تو ہے لیکن ان کے ہوشربا اخراجات عوام کی پہنچ سے دور ہیں اور صرف چند فیصد افراد ہی ان نجی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔
عوام کی ایک بڑی تعداد کا انحصار سرکاری اسپتالوں کی سہولتوں پر ہی ہے، ہماری حکومت اگر زچہ بچہ کے سلسلے میں ہی کچھ اقدامات کر دے تو عالمی برادری کی جانب سے اس شرمناک صورتحال سے بچا جا سکتا ہے اور لاکھوں ماؤں کی گودیں اجڑنے سے بچائی جا سکتی ہیں ۔ ماں کی دعا اور بددعا عرش ہلا دیتی ہے ۔ انتخاب ہمارا اپنا ہے کہ ہم کیا لینا چاہتے ہیں دعا یا بددعا؟