چیف جسٹس صاحب سلامت رہیں
عدلیہ کے فیصلے تب تک موثر نہیں ہو سکتے جب تک اسے عوامی تائید و حمائیت حاصل نہ ہو۔
SUKKUR:
چیف جسٹس افتخار چوہدری تو تب قوم کے دل کی دھڑکن بنے تھے جب انھیں پرویز مشرف نے جبراً برطرف کر دیا تھا۔مگر جسٹس ثاقب نثار عزت مآب کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت تو خود ان کے جرات مندانہ فیصلوں اور خالی از مصلحت بیانات و اقوال کی مرہونِ منت ہے اور ہر آنے والا دن ملک و قوم کے لیے پہلے سے زیادہ امید افزا لگ رہا ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب میرے شہر کراچی میں دو برس پہلے جنرل راحیل شریف کی مدتِ عہدہ میں توسیع کے لیے پوسٹرز چپکائے گئے تو کچھ شکی مزاجوں نے بکنا شروع کردیا کہ یہ پوسٹرز ایجنسیوں نے لگائے ہیں۔مگر آج کراچی میں سندھ سیکریٹیریٹ کے آس پاس میں نے کسی لائرز فرنٹ کی طرف سے '' برائیوں کے خلاف جنگ جسٹس ثاقب نثار کے سنگ ''والے پوسٹرز برقی کھمبوں سے لٹکتے دیکھے تو دل کو اطمینان سا ہوا کہ وکلا برادری جو اپنے تئیں کسی کو کچھ نہیں سمجھتی اور ان میں سے کچھ کالے کوٹوں نے زیریں عدالتوں میں توڑ پھوڑ کر کے اور کچھ ججوں کو پھنڈ کے اپنی برادری کے لیے خجالت کا جو سامان کیا۔
وہ بھی اپنے افعال پر نادم ہونے کے بعد بطور کفارہ چیف جسٹس کے شانہ بشانہ اس معاشرے سے برائیوں کے خاتمے اور انصاف کے بول بالے کے لیے کھڑے ہیں اور کچھ وکیل اپنی جیب سے پوسٹرز چھپوا کر اظہارِ عقیدت کر رہے ہیں۔یہ بے مثال اظہارِ عقیدت چیف جسٹس کے جرات مندانہ فیصلوں کے سبب ہے ورنہ تو اس ملک میں کئی قاضی القضاہ آئے اور چلے گئے۔
چیف جسٹس نے یونہی دلوں کو نہیں چھوا۔ان میں ایک عوامی کشش ہے۔وہ پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کے لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ مصلحت کوشی سے کوسوں دور ہیں اور جو بات دل میں وہی زبان پر ہے۔وہ اس کہاوت کی مکمل تصویر ہیں کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہیے۔
پرسوں ہی آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے کیفے ٹیریا میں اچانک قدم رکھا اور وکلا کے ساتھ چائے پے چرچا کی۔آپ نے فرمایا کہ ہم سماجی برائیوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش جاری رکھیں گے کہ شہریوں کو صاف پانی ، صحت مند ماحول ، خالص دودھ اور صاف ستھرے گوشت کی فراہمی سمیت بنیادی سہولتیں دستیاب ہوں۔کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت ملے۔
آپ نے فرمایا کہ ممکن ہے اعلی عدلیہ کبھی اپنی سمت سے ادھر ادھر بھی ہو گئی ہو مگر دیر آئید درست آئید۔اب اعلی عدلیہ نے معاشرے سے ناانصافی کے خاتمے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ وکلا میرے سپاہی ہیں۔
اب یہ ان پر منحصر ہے کہ بنیاد پر عمارت کی تعمیر مکمل کریں۔آپ بربنائے عہدہ چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بھی سربراہ ہیں لہذا جب وکلا نے آپ کی توجہ کونسل میں ججوں کے خلاف طویل عرصے سے پڑے ریفرینسوں کی جانب مبذول کروائی تو آپ نے کمال فراغ دلی سے فیصلوں میں تاخیر کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جتنے بھی ریفرینسز سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہیں ان سب کا فیصلہ جون تک کر دیا جائے گا تاکہ کوئی یہ انگلی نہ اٹھا سکے کہ عدلیہ خود احتسابی سے تساہل برت رہی ہے۔
اس موقع پر بعض وکلا نے جذباتی ہو کر آپ کی موجودگی میں برتے جانے والے ادب آداب کا خیال نہ کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی کے خلاف بھی نعرے لگائے مگر آپ نے اسے الیکشن مہم کی گرما گرمی جان کر درگزر فرمایا۔
مجھے معلوم ہے کہ کچھ بال کی کھال نکالنے والے ضرور کہیں گے کہ سماجی انصاف اور عوامی سہولتوں کو یقینی بنانا عدلیہ کی براہِ راست ذمے داری نہیں بلکہ عدلیہ کو یہ کام حکماً حکومت سے کروانا چاہیے۔اگر عدلیہ نے اپنے ذمے آٹے دال کا بھاؤ سیدھا کرنے کا بھی کام لے لیا تو پھر پہلے سے موجود انیس لاکھ مقدمات کے فیصلوں میں اور تاخیر ہو سکتی ہے۔
ایسے بال کی کھال نکالنے والوں کو میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ جب پارلیمنٹ یہ تمیز کھو دے کہ اسے کون سا قانون بنانا ہے کون سا نہیں بنانا ، جب وہ ایماندار اور بے ایمان قیادت میں فرق نہ کر سکے اور جب وہ محض کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہونے کے زعم میں بس خود کو ہی عوامی امنگوں کا ترجمان سمجھنے لگے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ عدلیہ کا بس یہی کام ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کی حدود میں رہ کر فیصلے کرے یا ان قوانین کی تشریح تک خود کو محدود رکھے تو پھر تو جمہوریت کے نام پر اندھیر نگری مچنی ہی ہے جو کہ مچ رہی ہے۔ایسے میں کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ دیگر مقتدر ادارے بشمول عدلیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتے رہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ آئین پارلیمنٹ نے جنم دیا اور اس میں ترمیم و اضافہ بھی پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔مگر پارلیمنٹ آئین کی جسمانی ماں ہے۔آئین کی نگہداشت ، تربیت اور اس پر نگاہ رکھنے اور اس کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی تشریح اعلی عدلیہ کا حق ہے۔وہ آئین کی نفسیات بہتر سمجھتی ہے۔ اسی لیے اس کے تمام فیصلوں کو پارلیمانی فیصلوں پر برتری حاصل ہے۔جو اس اصول کو نہیں مانتا اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ آپ کو بھی اچھے سے معلوم ہے۔
اعلی عدلیہ کو ایک طعنہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ماضی میں اس نے وہ فیصلے بھی کیے جن سے فوجی آمروں کو قانونی جواز ملا اور انھوں نے آئین سے جیسے چاہے کھلواڑ کیا۔عدلیہ اس بابت ایک سے زائد بار اعتراف کر چکی ہے۔اب آپ اور کیا چاہتے ہیں۔
وہ زمانے گئے جب فوج تختہ الٹ دیتی تھی اور ماورائے آئین اقدامات کو بھی زبردستی قانونی جیکٹ پہنوانے کی کوشش کرتی تھی۔آج کی دنیا میں فوجی کودیتا آؤٹ آف فیشن ہو چکا ہے۔لہذا مملکت کا قبلہ درست رکھنے اور اداروں کے درمیان چیک اینڈ بیلنس برقرار رکھنے کے لیے اعلی عدلیہ کی ذمے داریاں اور بڑھ گئی ہیں۔ویسے بھی جوڈیشل ایکٹو ازم اور ازخود نوٹس کے دور میں کسی ادارے کی جانب سے ماورائے آئین قدم اٹھانے کا جواز بے معنی ہو چکا ہے۔اب جو بھی تبدیلی آنی ہے وہ نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے آنی ہے۔یہ سب ایک آزاد خود مختار عدلیہ کے سبب ہی ممکن ہوا ہے۔
مگر عدلیہ کے فیصلے تب تک موثر نہیں ہو سکتے جب تک اسے عوامی تائید و حمائیت حاصل نہ ہو۔یہ امر نہائیت حوصلہ افزا ہے کہ اس وقت اعلی عدلیہ کو مملکت کے دیگر مقتدر اداروں اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والی ایک آدھ کے علاوہ سب سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حمائیت حاصل ہے۔حالانکہ انصاف کو کسی کی تائید و مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر فیصلوں کی روح سمیت مکمل نفاذ میں یقیناً آسانی ہو جاتی ہے۔
ظاہر ہے ہر ایک کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔لہذا چیف جسٹس کی ذات کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ان حملوں کی نوعیت سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون اس ملک میں اداروں کی حکمرانی چاہتا ہے کون نہیں چاہتا۔
رکیک حملوں کے معیار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس نے جب گذشتہ برس کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ پاکستان میں ایک جانب مسلمان تھے اور دوسری جانب وہ قوم جس کا میں نام بھی لینا نہیں چاہتا تو کچھ حاسدوں نے اس جملے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ چیف جسٹس جس قوم کا نام نہیں لینا چاہتے تھے وہ دراصل ہندو ہیں۔حالانکہ چیف جسٹس کا اشارہ غالباً ان انگریزوں کی طرف تھا جنہوں نے برِصغیر کو دو سو برس غلام بنا کے رکھا۔
اسی طرح جب ایک بار چیف جسٹس نے فنِ تقریر کے محاسن بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ تو کسی خاتون کے اسکرٹ کی طرح اتنی چھوٹی ہو کہ تشنہ لگے اور نہ ہی اتنی طویل کہ سننے والا بور ہو جائے۔تو بعض جہلا نے یہ شور مچا دیا کہ ہا ہائے یہ تو خواتین کی توہین ہے۔اگر اعتراض کرنے والے بھی وسیع المطالعہ ہوتے اور انھوں نے چرچل کو بھی پڑھا ہوتا تو شائد وہ خاموش ہو جاتے۔
چیف جسٹس صاحب نے بھی شائد یہی گمان کر کے یہ مثال دی ہوگی کہ میرے سامنے جو حاضرین بیٹھے ہیں انھیں کم ازکم اتنا تو معلوم ہوگا کہ یہ کس کا قول زریں ہے۔پر مجھے دکھ ہوا کہ سادہ دل چیف جسٹس کو سامعین بھی ملے تو کیسے نابلد و تنگ دل۔
مجھے ابھی سے یہ دکھ لاحق ہے کہ چیف جسٹس صاحب اگلے برس فروری میں ریٹائر ہو جائیں گے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس ملک پر برے لوگ لمبے لمبے عرصے تک مسلط رہتے ہیں اور جن لوگوں کو لمبے عرصے تک رہنا چاہیے وہ آنکھ پوری جھپکنے سے پہلے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں۔حضورِ والا آپ بابا رحمت نہیں خدا کی رحمت ہیں اور خدا کبھی اپنی رحمت سے منہ نہیں موڑتا۔بس اتنی سی تمنا ہے کہ آپ کے بعد آنے والا بھی آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کے مشن کو مزید آگے بڑھائے۔آمین ، ثم آمین۔۔۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)