افغان حکومت کا 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل نئی ملیشیا فورس قائم کرنے کا اعلان
نئی ملیشیا کے لیے 7500 اہلکار افغان نیشنل آرمی سے لیے جائیں گے، ساڑھے28 ہزار دوسرے افراد ہوں گے۔
KARACHI:
افغان حکومت نے 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک نئی ملیشیا تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے تقریباً 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک نئی ملیشیا تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جو ان علاقوں میں تعینات کی جائے گی جنھیں فوجی کارروائیوں کے دوران طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا گیا ہے، یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا جب افغانستان کی موجودہ مقامی پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات طویل عرصے سے جاری ہیں، مقامی پولیس تربیت یافتہ مقامی ملیشیا پر مشتمل ہے جس کی تربیت امریکی فوج نے کی ہے اور انھیں تنخواہ بھی امریکی فوج ہی کی جانب سے دی جاتی ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان دولت وزیری نے اپنے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ نئی ملیشیا کیلیے 7500 اہلکار افغان نیشنل آرمی سے لیے جائیں گے اور ساڑھے28 ہزار دوسرے افراد ہوں گے، انھوں نے بتایا کہ تمام بھرتیاں ان علاقوں سے کی جائیں گی جو افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور انھیں تربیت دینے کے بعد طالبان سے واپس لینے والے علاقوں میں تعینات کیا جائے گا تاکہ طالبان کو واپسی سے باز رکھا جا سکے۔
دولت وزیری نے یہ بات زور دے کر کہی کہ نئی ملیشیا کی بھرتی وزارت دفاع کریگی اور وہ اسی وزارت کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے گی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس واچ کے افغان امور کی ایک سینئر ریسرچر پیٹریشا گاسمن نے اس اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے ڈھانچے سے باہر کام کرنے والی فورسز کا احتساب ایک ایسا مسئلہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغان ملیشیا کے خلاف مقامی آبادیوں میں جنسی زیادتیوں کے الزامات ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان افغانستان کے44 فیصد حصے پر یا تو قابض ہیں یا وہاں موجود ہیں اور وہ مسلسل فورسز اور اہداف پر مہلک حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثنا صوبہ غزنی میں طالبان نے پولیس چوکی پر حملہ کیا جس میں 8 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے، افغان طالبان تحریک کے 10 ارکان پر مشتمل ایک گروپ نے جس کو تہران کی سپورٹ حاصل تھی اپنے ہتھیار افغان حکام کے حوالے کر دیے۔
گروپ کے ارکان نے ایران کی جانب سے دیے گئے ان احکام پر عمل درآمد سے انکار کر دیا جس کے تحت انھیں افغان اراضی پر سب سے بڑے صنعتی منصوبے کو نقصان پہنچانا تھا۔
افغان حکومت نے 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک نئی ملیشیا تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے تقریباً 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک نئی ملیشیا تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جو ان علاقوں میں تعینات کی جائے گی جنھیں فوجی کارروائیوں کے دوران طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا گیا ہے، یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا جب افغانستان کی موجودہ مقامی پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات طویل عرصے سے جاری ہیں، مقامی پولیس تربیت یافتہ مقامی ملیشیا پر مشتمل ہے جس کی تربیت امریکی فوج نے کی ہے اور انھیں تنخواہ بھی امریکی فوج ہی کی جانب سے دی جاتی ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان دولت وزیری نے اپنے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ نئی ملیشیا کیلیے 7500 اہلکار افغان نیشنل آرمی سے لیے جائیں گے اور ساڑھے28 ہزار دوسرے افراد ہوں گے، انھوں نے بتایا کہ تمام بھرتیاں ان علاقوں سے کی جائیں گی جو افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور انھیں تربیت دینے کے بعد طالبان سے واپس لینے والے علاقوں میں تعینات کیا جائے گا تاکہ طالبان کو واپسی سے باز رکھا جا سکے۔
دولت وزیری نے یہ بات زور دے کر کہی کہ نئی ملیشیا کی بھرتی وزارت دفاع کریگی اور وہ اسی وزارت کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے گی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس واچ کے افغان امور کی ایک سینئر ریسرچر پیٹریشا گاسمن نے اس اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے ڈھانچے سے باہر کام کرنے والی فورسز کا احتساب ایک ایسا مسئلہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغان ملیشیا کے خلاف مقامی آبادیوں میں جنسی زیادتیوں کے الزامات ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان افغانستان کے44 فیصد حصے پر یا تو قابض ہیں یا وہاں موجود ہیں اور وہ مسلسل فورسز اور اہداف پر مہلک حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثنا صوبہ غزنی میں طالبان نے پولیس چوکی پر حملہ کیا جس میں 8 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے، افغان طالبان تحریک کے 10 ارکان پر مشتمل ایک گروپ نے جس کو تہران کی سپورٹ حاصل تھی اپنے ہتھیار افغان حکام کے حوالے کر دیے۔
گروپ کے ارکان نے ایران کی جانب سے دیے گئے ان احکام پر عمل درآمد سے انکار کر دیا جس کے تحت انھیں افغان اراضی پر سب سے بڑے صنعتی منصوبے کو نقصان پہنچانا تھا۔