قصوروڈیوکیس میں 12 ملزمان کوبری کردیا گیا
انسداددہشت گردی عدالت نے ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کیا
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل میں 12 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق لاہورمیں انسداددہشت گردی عدالت کے جج چوہدری الیاس نے قصورمیں لڑکوں سے زیادتی کی وڈیوزبنانے سے متعلق ایک مقدمے میں 12 ملزمان کو بری کردیا۔ بری کئے گئے ملزمان میں علیم آصف، وسیم سندھی، عرفان فریدی، فیضان مجید، علی مجید، عثمان خالد، تنزیل الرحمن، عتیق الرحمن، سلیم اختر شیرازی اور وسیم عابد شامل ہیں۔
انسداددہشت گردی عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے 16 گواہان پیش کیے گئے تھے تاہم عدالت نے تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد 12 ملزمان کوعدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کردیا۔
2015 میں قصورکے نواحی گاؤں حسین خان والا میں 14 سال سے کم 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی وڈیو بنانے کا انکشاف ہوا تھا۔ اس گھناؤنے کام میں ملوث افراد ان وڈیو کی بنیاد پر لڑکوں کے والدین کو بلیک میل کرکے پیسے وصول کرتے تھے۔ واقعات کے منظرعام پرآنے کے بعد وزیر قانون پنجاب رانا ثنا للہ نے کہا تھا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں کچھ بچوں کے ورثا نے مقدمات درج کرائے تھے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ان واقعات کے 19 مختلف مقدمات کی سماعت ہوئی جن میں سے کچھ کے فیصلے ہوگئے ہیں جب کہ بعض اب بھی زیرالتواہیں۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق لاہورمیں انسداددہشت گردی عدالت کے جج چوہدری الیاس نے قصورمیں لڑکوں سے زیادتی کی وڈیوزبنانے سے متعلق ایک مقدمے میں 12 ملزمان کو بری کردیا۔ بری کئے گئے ملزمان میں علیم آصف، وسیم سندھی، عرفان فریدی، فیضان مجید، علی مجید، عثمان خالد، تنزیل الرحمن، عتیق الرحمن، سلیم اختر شیرازی اور وسیم عابد شامل ہیں۔
انسداددہشت گردی عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے 16 گواہان پیش کیے گئے تھے تاہم عدالت نے تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد 12 ملزمان کوعدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کردیا۔
قصور وڈیوکیس کیا ہے؟
2015 میں قصورکے نواحی گاؤں حسین خان والا میں 14 سال سے کم 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی وڈیو بنانے کا انکشاف ہوا تھا۔ اس گھناؤنے کام میں ملوث افراد ان وڈیو کی بنیاد پر لڑکوں کے والدین کو بلیک میل کرکے پیسے وصول کرتے تھے۔ واقعات کے منظرعام پرآنے کے بعد وزیر قانون پنجاب رانا ثنا للہ نے کہا تھا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں کچھ بچوں کے ورثا نے مقدمات درج کرائے تھے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ان واقعات کے 19 مختلف مقدمات کی سماعت ہوئی جن میں سے کچھ کے فیصلے ہوگئے ہیں جب کہ بعض اب بھی زیرالتواہیں۔