دریچہ شیوۂ غالب
غالب ایک خودبیں، خودنگر اور انا پرست شاعر ہے، یہ تأثر بھی غالب کے زمانے ہی میں قائم ہوگیا تھا۔
سارے اختلافات کے باوصف ہمارے اہلِ ادب و نقد اس بات پر بہرحال متفق ہیں کہ گذشتہ تین صدیوں نے اردو کے جو تین بڑے شاعر پیش کیے وہ میر، غالب اور اقبال ہیں۔ یہ تینوں شاعر اپنے ادوار ہی کے لحاظ سے نہیں، زبان و بیاں، موضوعات و مضامین اور طرز و اسلوب غرضے کہ ہر بنیاد پر اپنی اپنی انفرادیت اجاگر کرتے ہوئے ایک دوسرے سے اِس درجہ مختلف نظر آتے ہیں کہ ان کی تفہیم اور تعینِ قدر کے لیے ایک پیمانہ بنالینا کافی معلوم نہیں ہوتا، بلکہ انھیں پیمانے بدل کر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں اٹھارھویں صدی میر سے موسوم ہوئی، انیس ویں غالب سے اور بیس ویں اقبال سے۔ اب ایک تو یہی وقت کا الگ الگ دائرہ ہے جو کہ ان شعرا کے تہذیبی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی تجربے کی جداگانہ نوعیت و معنویت کی بنیاد بنتا ہے۔
دوسرے، ان کا انفرادی تخلیقی شعور بھی اپنی اپنی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ان کی طرزِاحساس میں زندگی کی طرف ایک الگ رویے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہی شعور دراصل خدا، کائنات اور انسان سے ان کے رشتے کی صورت گری کرتا ہے۔ میر کے تخلیقی تجربے کی کائنات گیر وسعت اور اقبال کی فکری اور مابعد الطبیعیاتی جہات کے باوجود غالب کا جہانِ سخن جن رنگوں سے آراستہ ہے، وہ ایک الگ طرح کی دعوتِ نظارہ پر اصرار کرتے ہیں۔ خیر، اس وقت ان تینوں شاعروں کا تقابلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ ہمیں تو سرِ دست ایک ڈیڑھ بات غالب کے بارے میں کرنی ہے۔ اس کا موقع اصل میں اس مہینے کی مناسبت نکلتا ہے۔ 15؍ فروری غالب کا یومِ وفات ہے۔ 1869ء میں غالب نے اس جہانِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو اُس کی وفات کو 149 برس ہوگئے۔
وفات کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال بعد اگر آج بھی غالب کا مطالعہ کیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ ہماری شعری روایت کا وہ بہت مختلف اور سب سے جدید آدمی ہے۔ اُس کی اہمیت کا انحصار کسی ایک یا دو پہلو پر نہیں ہے، بلکہ ہماری شاعری پر اس کے اثرات خاصے ہمہ جہت ہیں۔ اصولاً تسلیم کیا جانا چاہیے کہ غالب وہ آدمی ہے جو ہماری تہذیب کے دوراہے پر سب سے نمایاں نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہم اگر اپنی تہذیب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو وہ دو الگ ادوار میں سامنے آتی ہے، ایک غالب سے پہلے کا دور ہے اور دوسرا اُس کے بعد کا۔ ادوار کی اس تقسیم میں غالب کا کردار یہ ہے کہ ہم اُس کے ذریعے ان زمانی وقفوں اور اس کے فکری اور سماجی مزاج میں واضح فرق کرنا سیکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں غالب کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ کہ اُس کے فکر و نظر کے جس رنگ نے اس کے شعر و سخن میں راہ پائی، وہ محض اُس کی ذات تک محدود نہیں رہا، بلکہ غالب کے بعد کے ادوار پر اثرانداز ہوکر بھی اُس نے ہمارے شعری اظہار کو نیا لہجہ عطا کیا ہے جو بعد کی نسلوں میں سفر کرتے ہوئے اس عہد تک چلا آیا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غالب کی انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اب تک ہمارا سب سے زیادہ quotable شاعر ہے، لیکن ظاہر ہے، اس خوبی کو کسی تخلیق کار کی فکری سطح پر انفرادی برتری کی بنیاد تو خیر نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مثال اور حوالے کے لیے اُس نے ہمارے اجتماعی حافظے میں جو یہ غیرمعمولی جگہ بنائی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ زندگی سے اُس کی relevance ہمارے دوسرے شاعروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور جو اب تک نہ صرف قائم ہے، بلکہ وہ ہم سے اپنی معنویت کا اظہار زبانِ حال سے کرتے ہوئے آج اپنی نئی تعبیر و تفہیم کا تقاضا بھی کرتی ہے۔
پھر ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں غالب کی انفرادیت کا ایک حوالہ ہمارے یہاں اُس کے رد و قبول کی صورتِ حال سے بھی سامنے آتا ہے۔ چناںچہ اس حوالے سے ہمیں ایک طرف اُس کے نکتہ چیں ناقدین میں یگانہ چنگیزی اور سلیم احمد جیسے لوگ ملتے ہیں جو نکتہ بہ نکتہ اُس کا رد لکھتے ہیں تو دوسری طرف حالی اور عبدالرحمن بجنوری جیسے قدر شناس اور مداحین بھی دکھائی دیتے ہیں جو اس کے کلام کو مقدس کتابوں کی طرح بوسہ دیتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں۔
سرِدست ہمیں ان سب پہلوؤں پر گفتگو کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اب سے پہلے ہماری تنقید نے یہ کام خاصی حد تک کرلیا ہے۔ اور اس موضوع پر دونوں طرف کے لوگوں اور ان کے نظریات و افکار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ اگرچہ اس باب میں جو کچھ کہا سنا گیا ہے ان میں کتنی ہی باتیں ایسی ہیں کہ جن سے اختلاف کی بہت گنجائش ہے، لیکن اس سارے دفتر کو اب ایک بار پھر کھنگالنے بیٹھنا کچھ تحصیلِ حاصل قسم کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بجائے ہمارے لیے فی الحال یہ دیکھنا زیادہ مفید ہوگا کہ کیا کوئی بنیادی اصول یا محرک ایسا ہے جو ہمارے یہاں غالب کے قول و رد کے ان سارے پہلوؤں کے عقب میں کارفرما ہے۔
غالب کے تخلیقی تناظر میں دو چیزیں سب سے پہلے ہماری توجہ حاصل کرتی ہیں۔ ایک ہے اُس کا وسیع و عریض لسانیاتی پینوراما جو قطبین کے بیچ ظہور کرتا ہے اور جس میں:
شمارِ سبحۂ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا
-----
نالۂ دل میں شب اندازِ اثرِ نایاب تھا
تھا پسندِ وصلِ غیر، گو بیتاب تھا
ایسے گہرے فارسی اسلوب سے لے کر سہلِ ممتنع کی اعلیٰ مثالوں جیسے:
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
-----
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلا کرے کوئی
-----
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
تک موضوعات اور اظہار کے تنوع اور رنگوں کا ایک پُررونق سماں ذہن و دل اور گوش و چشم کو اپنی ہی سمت مائل رکھتا ہے۔
اس کے ساتھ کلامِ غالب کی دوسری چیز جس پر فوراً ہی ہماری نگاہ ٹھہرتی ہے، وہ ہے ایک محیط و بسیط خود نگری سے ابھرتا ہوا احساسِ تفاخر۔ یہ احساس بے حد گہرا تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی بھی محسوس یہ ہوجاتا ہے کہ یہ خاصی ٹھوس بنیادوں پر بھی قائم ہے۔ اس کی ہمہ گیری کا اندازہ صرف اس ایک پہلو سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کے دائرے میں کہ آپ کو اس جہانِ رنگ و بو میں انسان کے بنیادی رشتوں کی پوری تکون نظر آئے گی، یعنی خدا، کائنات اور انسان تینوں سے غالب نے جو بھی معاملہ رکھا ہے، اپنے احساسِ تفاخر کے ساتھ رکھا ہے۔ ذرا دیکھیے، کن صورتوں میں اس کا اظہار ہوا ہے:
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
-----
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
-----
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیِ اشیا مرے آگے
اب اگر اردو کے نقد و نظر کے باب کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نقادوں نے ان دونوں باتوں کا سرا غالب کی انانیت سے لے جا کر جوڑ دیا۔ یہ ٹھیک ہے، غالب کا لسانی اسٹرکچر ایک سطح پر طنطنے کا اظہار بھی کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن ایک شاعر جو زبان کو بجائے خود ایک تہذیبی وجود کا متبادل گردانتا ہو اور تخلیقی عمل کو تہذیبی مقاومت جانتا ہو، اُس کے پورے لسانیاتی فریم ورک کو محض طنطنہ سمجھنا کیا ناانصافی کی بات نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ زبان و اسلوب کے اس آہنگ کے بارے میں ہمارے یہاں غلط فہمی کا آغاز تو اصل میں غالب کے حینِ حیات ہی میں ہوگیا تھا، لیکن یہ غلط فہمی عام اور مستحکم بعد میں یگانہ کی غالب دشمنی سے ہوئی اور اس طرح ہوئی کہ اب تک قائم ہے۔ البتہ غالب کی انانیت کا معاملہ اس زبان کے مسئلے سے ذرا مختلف ہے، اس لیے اسے ذرا کچھ تفصیل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
غالب ایک خودبیں، خودنگر اور انا پرست شاعر ہے، یہ تأثر بھی غالب کے زمانے ہی میں قائم ہوگیا تھا۔ یہ رائے نہ صرف یہ کہ جلد عام ہوئی، بلکہ اس درجہ مؤثر بھی رہی کہ خود حالی اور آزاد جیسے لوگ اسے رد کرنا ضروری محسوس نہیں کرتے، بلکہ رد کرنا تو دور کی بات ہے، وہ تو خود ایک طرح سے اس کے قائل نظر آتے ہیں۔ غالب کی انانیت کے اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے اگر یہاں ہم دو باتوں پر غور کریں تو کچھ اور نقشہ سامنے آتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ جب غالب وادیِ شعر و سخن میں اُترے تو اُس وقت یہاں میر کا لہجہ رائج تھا اور اُس وقت:
ہم فقیروں سے کج ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
-----
رات اُس بزم میں یوں ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
-----
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا
جیسے اشعار کے رنگ و آہنگ کو شاعرانہ کیفیت اور طرزاظہار کی معراج سمجھا جاتا تھا، جو ظاہر ہے، غلط بھی نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ لب و لہجہ ہماری شعری تہذیب کے مزاج سے پوری طرح میل کھاتا تھا، کیوںکہ یہ اس کے ایک خاص رنگ کو ابھارتا تھا۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غالب کا دورِحیات ہماری تہذیب کا وہ زمانہ تھا جب ملک و معاشرت میں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج ڈھلتا ہوا صاف نظر آنے لگا تھا، بلکہ ایک حد تک ڈھل چکا تھا۔
عوام نہ سہی، لیکن خواص یا بصیرت رکھنے والے لوگ یہ بات واضح طور پر محسوس کررہے تھے کہ برِصغیر کو نئی تہذیبی شناخت دینے اور صدیوں زمامِ اقتدار ہاتھ میں رکھنے والے مسلمان اب خود ایک ایسی سیاسی ڈھلان پر ہیں کہ جہاں اُن کے لیے رُکنا اور سنبھلنا مشکل ہے۔ اس مسئلے کو غالب نے اوائلِ عمر میں اور اپنے خاص خاندانی پس منظر میں جس طرح دیکھا اور سمجھا، اُس نے الگ طرح سے اُن کی ذہنی ساخت میں کردار ادا کیا۔ چناںچہ سلیم احمد کا یہ کہنا غلط تو نہیں ہے کہ غالب اپنی اجتماعی ذات سے کٹ کر خود مکتفی ہستی بن گیا، اور ہماری تہذیبی اور فکری و تخلیقی زندگی میں رومانی فردپرستی کا آغاز غالب سے ہوا۔ یہی فرد پرستی کا رویہ ہے جو شخصی انا کے آگے خدا، کائنات، تہذیب اور اپنے اجتماعی وجود سب کو ہیچ جانتا ہے۔ یہ سارے اعتراضات بجا، لیکن یہاں رک کر ہمیں ذرا تحمل سے کم سے کم ایک بار تو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا غالب کو مطعون ٹھہرا کر ہمارا کام ختم ہوجاتا ہے؟ کیا ہمیں یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ آخر غالب نے یہ شیوۂ حیات اختیار کیوں کیا؟
محمد حسن عسکری اس ضمن میں ایک بڑا اہم نکتہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، غالب کے کلام میں یہ خصائص اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ روحِ عصر نے انھیں اپنی ترجمانی کے لیے چھانٹا تھا۔ عسکری صاحب اتنا کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں، لیکن سچ پوچھیے تو یہاں بات ختم کب ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر روحِ عصر نے غالب ہی کو کیوں چھانٹا اور اگر چھانٹ ہی لیا تھا تو یہ رویہ کیوں ابھارا کہ غالب اپنی تہذیب کے مخصوص لہجے سے برعکس آواز پر کیوں مصر ہوا؟ ویسے تو یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر روحِ عصر یہ کام اُس وقت کرتی ہے جب کسی سماج میں تہذیبی انتشار اور معاشرتی خلفشار پھیلتا ہے تو بھلا پھر وہ میر و سودا کے دور میں ایسا کون سا کم تھا۔ اگر اس کے لیے ہمہ گیر تہذیبی شعور اور برتر تخلیقی اُپج درکار ہوتی ہے تو بھی میر اس کام کے لیے بہت موزوں تھے۔
اسی طرح غالب کے آس پاس کے شاعروں میں کم سے کم مصحفی اور مومن کے سلسلے میں بھی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ وہ اس طرح جیسے غالب بنے، کیوں روحِ عصر کا انتخاب نہ بن سکے؟ چلیے، میر، مصحفی اور مومن کوئی بھی روحِ عصر کی نگاہِ انتخاب میں نہ ٹھہرا تو اس کا مطلب یہ ہوا نہ کہ اس کام کے لیے صرف تخلیقی جوہر مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور شے بھی درکار ہوتی ہے- اور وہ ہے شخصی افتادِ طبع۔ اب ذرا دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ افتادِ طبع بھی وصفِ پیغمبری جیسی کوئی شے ہوتی ہے۔ پیغمبر چاہے ماں کی گود میں اپنی حیثیت کا اظہار کرے یا اپنے معاشرے میں ایک عمر گزارنے کے بعد، یہ طے ہے کہ اُس کا بیان دراصل اُس کردار کا مظہر ہوتا ہے جس کے لیے وہ ایک دور اور ایک معاشرے میں بھیجا گیا ہے۔ ہاں، پیغمبر اور شاعر کے کردار میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر اس کا سانچا الوہی ضابطے کے ساتھ لے کر آتا ہے اور ثانی الذکر کے یہاں یہ عصری رجحانات، سماجی رویوں، خاندانی مزاج اور ذاتی فطری داعیے سے ترکیب پاتا ہے۔
اب اگر غالب کو وباے عام میں مرنا پسند نہیں ہے، یا وہ کہتا ہے کہ کس کے شد صاحبِ نظر، دینِ بزرگاں خوش نہ کرد، یا وہ عرش سے پرے اپنے مکاں کی حسرت رکھتا ہے، یا اُسے دشتِ امکاں فقط ایک نقشِ پا معلوم ہوتا ہے اور وہ تمنا کا دوسرا قدم دیکھنے کا خواہاں ہے تو اسے محض فرد کی انانیت یا فرد پرستی قرار دینے سے بھلا کیوں کر سبک دوش ہوا جاسکتا ہے؟ بے شک اس ذہنی ساخت اور اظہاری سانچے میں شخصی انا اور انفرادیت پسندی کے رویے نے بھی ایک کردار ادا کیا ہوگا، چلیے وہ ایک اہم کردار ہی سہی، لیکن ماننا چاہیے کہ اس کے ساتھ عصریت نے بھی مل کر ایک کیٹالسٹ کا کام کیا ہے۔
(جاری ہے)
دوسرے، ان کا انفرادی تخلیقی شعور بھی اپنی اپنی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ان کی طرزِاحساس میں زندگی کی طرف ایک الگ رویے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہی شعور دراصل خدا، کائنات اور انسان سے ان کے رشتے کی صورت گری کرتا ہے۔ میر کے تخلیقی تجربے کی کائنات گیر وسعت اور اقبال کی فکری اور مابعد الطبیعیاتی جہات کے باوجود غالب کا جہانِ سخن جن رنگوں سے آراستہ ہے، وہ ایک الگ طرح کی دعوتِ نظارہ پر اصرار کرتے ہیں۔ خیر، اس وقت ان تینوں شاعروں کا تقابلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ ہمیں تو سرِ دست ایک ڈیڑھ بات غالب کے بارے میں کرنی ہے۔ اس کا موقع اصل میں اس مہینے کی مناسبت نکلتا ہے۔ 15؍ فروری غالب کا یومِ وفات ہے۔ 1869ء میں غالب نے اس جہانِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو اُس کی وفات کو 149 برس ہوگئے۔
وفات کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال بعد اگر آج بھی غالب کا مطالعہ کیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ ہماری شعری روایت کا وہ بہت مختلف اور سب سے جدید آدمی ہے۔ اُس کی اہمیت کا انحصار کسی ایک یا دو پہلو پر نہیں ہے، بلکہ ہماری شاعری پر اس کے اثرات خاصے ہمہ جہت ہیں۔ اصولاً تسلیم کیا جانا چاہیے کہ غالب وہ آدمی ہے جو ہماری تہذیب کے دوراہے پر سب سے نمایاں نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہم اگر اپنی تہذیب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو وہ دو الگ ادوار میں سامنے آتی ہے، ایک غالب سے پہلے کا دور ہے اور دوسرا اُس کے بعد کا۔ ادوار کی اس تقسیم میں غالب کا کردار یہ ہے کہ ہم اُس کے ذریعے ان زمانی وقفوں اور اس کے فکری اور سماجی مزاج میں واضح فرق کرنا سیکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں غالب کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ کہ اُس کے فکر و نظر کے جس رنگ نے اس کے شعر و سخن میں راہ پائی، وہ محض اُس کی ذات تک محدود نہیں رہا، بلکہ غالب کے بعد کے ادوار پر اثرانداز ہوکر بھی اُس نے ہمارے شعری اظہار کو نیا لہجہ عطا کیا ہے جو بعد کی نسلوں میں سفر کرتے ہوئے اس عہد تک چلا آیا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غالب کی انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اب تک ہمارا سب سے زیادہ quotable شاعر ہے، لیکن ظاہر ہے، اس خوبی کو کسی تخلیق کار کی فکری سطح پر انفرادی برتری کی بنیاد تو خیر نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مثال اور حوالے کے لیے اُس نے ہمارے اجتماعی حافظے میں جو یہ غیرمعمولی جگہ بنائی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ زندگی سے اُس کی relevance ہمارے دوسرے شاعروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور جو اب تک نہ صرف قائم ہے، بلکہ وہ ہم سے اپنی معنویت کا اظہار زبانِ حال سے کرتے ہوئے آج اپنی نئی تعبیر و تفہیم کا تقاضا بھی کرتی ہے۔
پھر ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں غالب کی انفرادیت کا ایک حوالہ ہمارے یہاں اُس کے رد و قبول کی صورتِ حال سے بھی سامنے آتا ہے۔ چناںچہ اس حوالے سے ہمیں ایک طرف اُس کے نکتہ چیں ناقدین میں یگانہ چنگیزی اور سلیم احمد جیسے لوگ ملتے ہیں جو نکتہ بہ نکتہ اُس کا رد لکھتے ہیں تو دوسری طرف حالی اور عبدالرحمن بجنوری جیسے قدر شناس اور مداحین بھی دکھائی دیتے ہیں جو اس کے کلام کو مقدس کتابوں کی طرح بوسہ دیتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں۔
سرِدست ہمیں ان سب پہلوؤں پر گفتگو کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اب سے پہلے ہماری تنقید نے یہ کام خاصی حد تک کرلیا ہے۔ اور اس موضوع پر دونوں طرف کے لوگوں اور ان کے نظریات و افکار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ اگرچہ اس باب میں جو کچھ کہا سنا گیا ہے ان میں کتنی ہی باتیں ایسی ہیں کہ جن سے اختلاف کی بہت گنجائش ہے، لیکن اس سارے دفتر کو اب ایک بار پھر کھنگالنے بیٹھنا کچھ تحصیلِ حاصل قسم کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بجائے ہمارے لیے فی الحال یہ دیکھنا زیادہ مفید ہوگا کہ کیا کوئی بنیادی اصول یا محرک ایسا ہے جو ہمارے یہاں غالب کے قول و رد کے ان سارے پہلوؤں کے عقب میں کارفرما ہے۔
غالب کے تخلیقی تناظر میں دو چیزیں سب سے پہلے ہماری توجہ حاصل کرتی ہیں۔ ایک ہے اُس کا وسیع و عریض لسانیاتی پینوراما جو قطبین کے بیچ ظہور کرتا ہے اور جس میں:
شمارِ سبحۂ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا
-----
نالۂ دل میں شب اندازِ اثرِ نایاب تھا
تھا پسندِ وصلِ غیر، گو بیتاب تھا
ایسے گہرے فارسی اسلوب سے لے کر سہلِ ممتنع کی اعلیٰ مثالوں جیسے:
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
-----
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلا کرے کوئی
-----
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
تک موضوعات اور اظہار کے تنوع اور رنگوں کا ایک پُررونق سماں ذہن و دل اور گوش و چشم کو اپنی ہی سمت مائل رکھتا ہے۔
اس کے ساتھ کلامِ غالب کی دوسری چیز جس پر فوراً ہی ہماری نگاہ ٹھہرتی ہے، وہ ہے ایک محیط و بسیط خود نگری سے ابھرتا ہوا احساسِ تفاخر۔ یہ احساس بے حد گہرا تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی بھی محسوس یہ ہوجاتا ہے کہ یہ خاصی ٹھوس بنیادوں پر بھی قائم ہے۔ اس کی ہمہ گیری کا اندازہ صرف اس ایک پہلو سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کے دائرے میں کہ آپ کو اس جہانِ رنگ و بو میں انسان کے بنیادی رشتوں کی پوری تکون نظر آئے گی، یعنی خدا، کائنات اور انسان تینوں سے غالب نے جو بھی معاملہ رکھا ہے، اپنے احساسِ تفاخر کے ساتھ رکھا ہے۔ ذرا دیکھیے، کن صورتوں میں اس کا اظہار ہوا ہے:
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
-----
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
-----
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیِ اشیا مرے آگے
اب اگر اردو کے نقد و نظر کے باب کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نقادوں نے ان دونوں باتوں کا سرا غالب کی انانیت سے لے جا کر جوڑ دیا۔ یہ ٹھیک ہے، غالب کا لسانی اسٹرکچر ایک سطح پر طنطنے کا اظہار بھی کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن ایک شاعر جو زبان کو بجائے خود ایک تہذیبی وجود کا متبادل گردانتا ہو اور تخلیقی عمل کو تہذیبی مقاومت جانتا ہو، اُس کے پورے لسانیاتی فریم ورک کو محض طنطنہ سمجھنا کیا ناانصافی کی بات نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ زبان و اسلوب کے اس آہنگ کے بارے میں ہمارے یہاں غلط فہمی کا آغاز تو اصل میں غالب کے حینِ حیات ہی میں ہوگیا تھا، لیکن یہ غلط فہمی عام اور مستحکم بعد میں یگانہ کی غالب دشمنی سے ہوئی اور اس طرح ہوئی کہ اب تک قائم ہے۔ البتہ غالب کی انانیت کا معاملہ اس زبان کے مسئلے سے ذرا مختلف ہے، اس لیے اسے ذرا کچھ تفصیل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
غالب ایک خودبیں، خودنگر اور انا پرست شاعر ہے، یہ تأثر بھی غالب کے زمانے ہی میں قائم ہوگیا تھا۔ یہ رائے نہ صرف یہ کہ جلد عام ہوئی، بلکہ اس درجہ مؤثر بھی رہی کہ خود حالی اور آزاد جیسے لوگ اسے رد کرنا ضروری محسوس نہیں کرتے، بلکہ رد کرنا تو دور کی بات ہے، وہ تو خود ایک طرح سے اس کے قائل نظر آتے ہیں۔ غالب کی انانیت کے اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے اگر یہاں ہم دو باتوں پر غور کریں تو کچھ اور نقشہ سامنے آتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ جب غالب وادیِ شعر و سخن میں اُترے تو اُس وقت یہاں میر کا لہجہ رائج تھا اور اُس وقت:
ہم فقیروں سے کج ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
-----
رات اُس بزم میں یوں ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
-----
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا
جیسے اشعار کے رنگ و آہنگ کو شاعرانہ کیفیت اور طرزاظہار کی معراج سمجھا جاتا تھا، جو ظاہر ہے، غلط بھی نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ لب و لہجہ ہماری شعری تہذیب کے مزاج سے پوری طرح میل کھاتا تھا، کیوںکہ یہ اس کے ایک خاص رنگ کو ابھارتا تھا۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غالب کا دورِحیات ہماری تہذیب کا وہ زمانہ تھا جب ملک و معاشرت میں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج ڈھلتا ہوا صاف نظر آنے لگا تھا، بلکہ ایک حد تک ڈھل چکا تھا۔
عوام نہ سہی، لیکن خواص یا بصیرت رکھنے والے لوگ یہ بات واضح طور پر محسوس کررہے تھے کہ برِصغیر کو نئی تہذیبی شناخت دینے اور صدیوں زمامِ اقتدار ہاتھ میں رکھنے والے مسلمان اب خود ایک ایسی سیاسی ڈھلان پر ہیں کہ جہاں اُن کے لیے رُکنا اور سنبھلنا مشکل ہے۔ اس مسئلے کو غالب نے اوائلِ عمر میں اور اپنے خاص خاندانی پس منظر میں جس طرح دیکھا اور سمجھا، اُس نے الگ طرح سے اُن کی ذہنی ساخت میں کردار ادا کیا۔ چناںچہ سلیم احمد کا یہ کہنا غلط تو نہیں ہے کہ غالب اپنی اجتماعی ذات سے کٹ کر خود مکتفی ہستی بن گیا، اور ہماری تہذیبی اور فکری و تخلیقی زندگی میں رومانی فردپرستی کا آغاز غالب سے ہوا۔ یہی فرد پرستی کا رویہ ہے جو شخصی انا کے آگے خدا، کائنات، تہذیب اور اپنے اجتماعی وجود سب کو ہیچ جانتا ہے۔ یہ سارے اعتراضات بجا، لیکن یہاں رک کر ہمیں ذرا تحمل سے کم سے کم ایک بار تو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا غالب کو مطعون ٹھہرا کر ہمارا کام ختم ہوجاتا ہے؟ کیا ہمیں یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ آخر غالب نے یہ شیوۂ حیات اختیار کیوں کیا؟
محمد حسن عسکری اس ضمن میں ایک بڑا اہم نکتہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، غالب کے کلام میں یہ خصائص اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ روحِ عصر نے انھیں اپنی ترجمانی کے لیے چھانٹا تھا۔ عسکری صاحب اتنا کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں، لیکن سچ پوچھیے تو یہاں بات ختم کب ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر روحِ عصر نے غالب ہی کو کیوں چھانٹا اور اگر چھانٹ ہی لیا تھا تو یہ رویہ کیوں ابھارا کہ غالب اپنی تہذیب کے مخصوص لہجے سے برعکس آواز پر کیوں مصر ہوا؟ ویسے تو یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر روحِ عصر یہ کام اُس وقت کرتی ہے جب کسی سماج میں تہذیبی انتشار اور معاشرتی خلفشار پھیلتا ہے تو بھلا پھر وہ میر و سودا کے دور میں ایسا کون سا کم تھا۔ اگر اس کے لیے ہمہ گیر تہذیبی شعور اور برتر تخلیقی اُپج درکار ہوتی ہے تو بھی میر اس کام کے لیے بہت موزوں تھے۔
اسی طرح غالب کے آس پاس کے شاعروں میں کم سے کم مصحفی اور مومن کے سلسلے میں بھی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ وہ اس طرح جیسے غالب بنے، کیوں روحِ عصر کا انتخاب نہ بن سکے؟ چلیے، میر، مصحفی اور مومن کوئی بھی روحِ عصر کی نگاہِ انتخاب میں نہ ٹھہرا تو اس کا مطلب یہ ہوا نہ کہ اس کام کے لیے صرف تخلیقی جوہر مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور شے بھی درکار ہوتی ہے- اور وہ ہے شخصی افتادِ طبع۔ اب ذرا دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ افتادِ طبع بھی وصفِ پیغمبری جیسی کوئی شے ہوتی ہے۔ پیغمبر چاہے ماں کی گود میں اپنی حیثیت کا اظہار کرے یا اپنے معاشرے میں ایک عمر گزارنے کے بعد، یہ طے ہے کہ اُس کا بیان دراصل اُس کردار کا مظہر ہوتا ہے جس کے لیے وہ ایک دور اور ایک معاشرے میں بھیجا گیا ہے۔ ہاں، پیغمبر اور شاعر کے کردار میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر اس کا سانچا الوہی ضابطے کے ساتھ لے کر آتا ہے اور ثانی الذکر کے یہاں یہ عصری رجحانات، سماجی رویوں، خاندانی مزاج اور ذاتی فطری داعیے سے ترکیب پاتا ہے۔
اب اگر غالب کو وباے عام میں مرنا پسند نہیں ہے، یا وہ کہتا ہے کہ کس کے شد صاحبِ نظر، دینِ بزرگاں خوش نہ کرد، یا وہ عرش سے پرے اپنے مکاں کی حسرت رکھتا ہے، یا اُسے دشتِ امکاں فقط ایک نقشِ پا معلوم ہوتا ہے اور وہ تمنا کا دوسرا قدم دیکھنے کا خواہاں ہے تو اسے محض فرد کی انانیت یا فرد پرستی قرار دینے سے بھلا کیوں کر سبک دوش ہوا جاسکتا ہے؟ بے شک اس ذہنی ساخت اور اظہاری سانچے میں شخصی انا اور انفرادیت پسندی کے رویے نے بھی ایک کردار ادا کیا ہوگا، چلیے وہ ایک اہم کردار ہی سہی، لیکن ماننا چاہیے کہ اس کے ساتھ عصریت نے بھی مل کر ایک کیٹالسٹ کا کام کیا ہے۔
(جاری ہے)