’’مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں‘‘  زکوٹا جن کو بھی موت کھا گئی

 40 سال دوسروں کے بچوں کو ہنسانے والا مطلوب الرحمان عرف منا لاہوری اپنے بچوں کو محرومیوں میں روتا چھوڑ گیا

 40 سال دوسروں کے بچوں کو ہنسانے والا مطلوب الرحمان عرف منا لاہوری اپنے بچوں کو محرومیوں میں روتا چھوڑ گیا

ISLAMABAD:
مجموعی طور پر شوبز انڈسٹری کی بات کی جائے تو مقبولیت کے اعتبار سے پاکستان کا شمار شائد نچلی سطح پر ہو لیکن بات اگر ٹیلی ویژن ڈرامہ کی ہو تو دنیا بھر میں راج کرنے والی بھارت کی شوبز انڈسٹری بھی پاکستان سے کہیں پیچھے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستانی ڈرامے نہ صرف ایشیاء، بلکہ خلیجی و یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی خاصے مقبول ہیں۔ ایسے ہی ڈراموں میں 90ء کی دہائی میں بننے والا ایک ڈرامہ ''عینک والا جن'' تھا، جو نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی یکساں مقبول تھا، اس ڈرامے نے اپنی صنف کے اعتبار سے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ڈرامے کے کردار اور ڈائیلاگ اس قدر مقبول ہوئے کہ گھر گھر میں بچے بڑے تمام انہیں دہرا دہرا کر محظوظ ہوتے۔ ڈرامہ آن ایئر ہونے کے بعد اس کے کرداروں کو شہزادی لیڈی ڈیانا کے سامنے تو کبھی صدر پاکستان کے ساتھ 2005ء کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں جا کر مرجھائے چہرے کھلانے کی درخواستیں کی گئیں، جو انہوں نے بخوشی قبول کیں۔

اگرچہ مذکورہ ڈرامے کے تمام کردار ہی ناقابل فراموش تھے، لیکن ''زکوٹا جن'' نے ناپختہ سے پختہ ذہنوں تک جو نقوش چھوڑے وہ شائد نہیں بلکہ یقیناً مدتوں منہدم نہیں ہو سکتے۔ ''مجھے کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں'' کے الفاظ آج بھی ہر چھوٹے اور بڑے کو ازبر ہیں۔ اس کردار کو نبھانے والے اداکار کا حقیقی نام تو مطلوب الرحمان تھا، لیکن وہ معروف منا لاہوری کے نام سے ہوئے۔

منا لاہوری کا جسمانی قد اگرچہ زیادہ نہیں تھا لیکن بلحاظ اداکاری وہ ایک قدآور شخصیت تھی۔ فروری 1949ء میں لاہور میں پیدا ہونے والے اداکار نے 40 سال اپنی منفرد اداکاری سے بچوں سے لے کر بڑوں تک کے چہروں پر خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیریں۔ پی ٹی وی کے پروڈکشن ہاؤس میں چھوٹی سی ملازمت کرنے والے بڑے اداکار نے ''عینک والا جن'' سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کرتے ہوئے ''پیسہ بولتا ہے'' جن اور جادوگر سمیت متعدد ڈراموں میں کام کیا۔ الحمرا آرٹس کونسل میں جن اور جادوگر کے نام سے جاری وہ تھیٹر پلے ہے، جسے وہ اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک جاری رکھے ہوئے تھے۔

یہ پلے وہ گزشتہ ساڑھے آٹھ سال سے کر رہے تھے، لیکن پھر جب فالج جیسی بیماری نے ان پر حملہ کیا تو وہ زندگی کے میدان سے پسپا ہونے لگے، اور رواں ماہ 17 فروری کو 68 سال کی عمر میں زکوٹا جن، جس کا مقبول ترین ڈائیلاگ تھا کہ ''میں کس کو کھاؤں'' کو موت نے کھا لیا۔ اس ضمن میں شوبز کی دنیا میں 25 سال سے ان کے رفیقِ کار معروف فنکار حسیب پاشا بتاتے ہیں کہ ہم سالوں سے جن اور جادوگر تھیٹر کرتے آ رہے ہیں، لیکن اب منا لاہوری کو بولنے میں بہت دقت محسوس ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ہم انہیں زیادہ زحمت نہیں دیتے تھے، لیکن وہ جب بھی سٹیج پر آتے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی، جو ان کے کام کو بے حد سراہتی۔

ان کے جانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب ان کا بیٹا یہ کردار ادا کرے گا۔ حسیب پاشا کہتے ہیں کہ منا لاہوری ایک نہایت نفیس، ملنسار اور مثبت ذہن رکھنے والا انسان تھا، وہ نئے فنکاروں کو ہاتھ پکڑ کر چلانے کی کوشش کرتا تھا۔ منا کی سب سے خاص بات اس کا رازدان ہونا تھا، اس کے سینے میں سینکڑوں، ہزاروں فنکاروں کے ایسے راز دفن تھے، جن کے عیاں ہونے سے ان کی شہرت پر بہت منفی اثر پڑ سکتا تھا، لیکن وہ سارے راز منا لاہوری قبر میں اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شوبز کی دنیا ایک عظیم فنکار اور ملک عظیم شخص سے محروم ہو گیا۔ اس کی وفات کا دن بلاشبہ ان کے لئے بہت برا دن ہے۔ ہم کبھی اسے بھلا نہیں پائیں گے۔ معروف اداکار قیصر شہزاد (عینک والا جن) نے منا لاہوری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ زکوٹا اب لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا، اس نے ساری زندگی تھیٹر کے ذریعے لوگوں کو تفریح فراہم کی، وہ ایک حقیقی ہیرو تھا۔ عمر بھر زندگی سے لڑ کر اس نے ایک مثال قائم کی کہ کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔

مطلوب الرحمان عرف منا لاہوری کے 6 بچے ہیں، جن میں سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی، تیسری ابھی چھوٹی ہے، بڑا بیٹا میٹرو بس سروس میں چھوٹا موٹا کام کرتا ہے جبکہ باقی دو بھائی اپنے والد مرحوم کے ساتھ ہی الحمرا آرٹس کونسل کام پر جایا کرتے تھے۔ وہ زکوٹا جن، جو ڈرامے میں بچوں کے لئے ہر چیز حاضر کر دیتا تھا، حقیقی زندگی میں اپنے بچوں کے لئے ڈھنگ کی چھت بھی فراہم نہ کر سکا اور اس چیز کے دکھ نے اسے آخری سانس تک تکلیف میں مبتلا کئے رکھا۔ منا لاہوری کو زکوٹا جن کے کردار کی وجہ سے بے شمار تعریفی اسناد اور شیلڈز سے نوازا گیا، لیکن ان نمائشی چیزوں کو رکھنے کی اس کی پاس مناسب جگہ بھی نہیں تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنی کسمپرسی اور حکومتی و شوبز برادری کی سنگ دلی پر بڑا نالاں رہتا تھا، کیوں کہ گھر کو چلانے کا وہ واحد سہارا تھا، جو اب آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا تھا اور آگے اسے کچھ نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔ لمحہ فکریہ اور قابل غور امر یہ ہے کہ کب تک ہمارے معاشرے میں ذہنوں کو معطر کرنے والے پھول دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث کسمپرسی کی حالت میں مرجھاتے رہیں گے؟

دکھی ہیں! والد نے چار عشروں تک مرجھائے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں، لیکن ہمارا کوئی پرسان حال نہیں: بیٹا

''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے منا لاہوری کے سب سے بڑے بیٹے ولید بن مطلوب نے بتایا کہ ان کے والد یعنی مطلوب الرحمان ایم اے او کالج لاہور سے گریجوایٹ تھے۔

آج ہماری رہائش گاہ رچنا ٹاؤن (لاہور کا ایک غیر معروف علاقہ) میں ہے، جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات یعنی بجلی اور گیس تک موجود نہیں، وہ کئی بار مختلف پلیٹ فارمز پر حکومت سے کسی مناسب علاقے میں ایک گھر کی فراہمی کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن یہ حسرت وہ دل میں ہی لے کر چل بسے۔ ہمارے گھر میں گیس کیا بجلی تک نہیں۔ والد صاحب جب زندہ تھے تو بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے 50 سے زائد ڈراموں میں کام کیا، تاہم گزشتہ پانچ سال سے وہ فالج، بلڈپریشر اور شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث بہت کم کام کیا کرتے تھے۔ اب وہ صرف ہفتے میں ایک روز الحمرا آرٹس کونسل جاتے تھے، جہاں جن اور جادوگر کے نام سے وہ ایک سٹیج پلے کرتے تھے۔

دوران بیماری کبھی کوئی حکومتی نمائندہ ان سے ملنے گھر آیا نہ کوئی بڑا آرٹسٹ۔ معاشی ابتری کے حوالے سے کچھ لوگوں نے بہت زیادہ آواز اٹھائی تو حکومت کی طرف سے 25 ہزار روپے کا وظیفہ مقرر ہو گیا، لیکن اس کے بھی حالات یہ ہیں کہ ایک ماہ ملتا ہے تو پانچ ماہ ملتا ہی نہیں، ابھی بھی گزشتہ 9 ماہ سے ہمیں کوئی چیک نہیں ملا۔ ابو ہی ہمارے گھر کا واحد سہارا تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ بیماری کے باوجود الحمرا آرٹس کونسل تھیٹر کرنے جاتے تھے۔

ہمیں بڑا دکھ ہے کہ ہمارے والد نے چار عشروں تک پاکستانیوں کے مرجھائے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں، لوگوں کو بہترین تفریح فراہم کی، لیکن ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ میرا یہ حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ میرے والد کی خدمات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا جائے اور ان کے سوگواران کی معاونت کی جائے۔ ولید بن مطلوب نے مزید بتایا کہ ان کے ابو بہت نرم مزاج تھے، وہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی ایک دوست کی طرح رہتے تھے، لیکن زندگی کے آخری ایام میں ابو بہت زیادہ چڑ چڑے پن کا شکار ہو گئے تھے، اس کی وجہ شائد گھریلو حالات بھی تھے، (اس دوران ولید کی آواز میں کپکپاہٹ پیدا ہو گئی اور وہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا) وہ سمجھتے تھے کہ ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس جینے کا کوئی سہارا ہی نہیں ہے۔

آخری دنوں میں وہ بہت کم بولتے تھے، ان کی یہ خاموشی ہم سب پر بہت گراں گزرتی تھی، تو پھر ہم سب بہن بھائی جان بوجھ کر انہیں چھیڑتے تھے کہ شائد اسی طرح وہ ہمیں ڈانٹنے کے لئے ہی بولیں۔

ایک چائے پلانے والے کو ''زکوٹا جن'' کا کردار ملا تو اس نے یہ امر کر دیا: ڈائریکٹر حفیظ طاہر
منا لاہوری کی ''زکوٹا جن'' کے طور پر دنیا بھر میں پہچان بنانے والے ڈرامہ ''عینک والا جن'' کے ڈائریکٹر حفیظ طاہر نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مطلوب الرحمان ایک مٹا ہوا عاجز شخص تھا۔ وہ ایک بی کلاس اداکار اور پروڈیوسرز کا غیرسرکاری اسسٹنٹ تھا، جس کا کام اداکاروں کو فون کرنا اور انہیں چائے پلانا تھا۔ میں نے جب ''عینک والا جن'' پروڈیوس کرنے کا سوچا تو اس میں شامل کردار ''زکوٹا جن'' کے لئے میری پہلی نظر ہی منا لاہوری پر پڑی۔

تو ایک روز میں نے اسے بلایا کر کہا کہ مطلوب میں تمھارے اندر ایک بہترین اداکار دیکھ رہا ہوں، تم میرے ڈرامے کے لئے پرفیکٹ ہو، لہذا آج سے تم یہ فون کالز اور لوگوں کو چائے پلانے والا کام چھوڑو اور میرے ساتھ کام کرو۔ تو پھر میں نے اسے ''زکوٹا جن'' کا کردار دیا، جسے اس نے اس خوبصورتی سے نبھایا کہ وہ کردار امر ہو گیا، پھر لوگوں نے بھی مطلوب کو اس کردار کے علاوہ دیکھنا نہیں چاہا۔ ایک بار ہم ایک ریلوے لائن کے قریب ''عینک والا جن'' کی شوٹنگ کر رہے تھے، ''زکوٹا جن'' بھی اس میں شامل تھا، کہ اتنے میں ایک ٹرین وہاں سے گزری، تو جب ڈرائیور اور سواریوں نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے ٹرین رکوالی اور بڑے پرجوش انداز میں وہ ''زکوٹا جن'' کے پاس دوڑے چلے آئے۔ حفیظ طاہر نے مزید بتایا کہ منا لاہوری ایک ایماندار، انتہائی نفیس اور محبت کرنے والا شخص تھا، اس کو کسی چیز کا لالچ نہیں تھا، حالاں کہ اکثر اداکار خود غرض ہوتے ہیں، لیکن وہ بالکل بھی ایسا نہیں تھا۔

عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے وہ ٹیم میں شامل تمام لوگوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا تھا۔ مطلوب ایک ایماندار آدمی تھا اور ایمانداری کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک محنت کرتا رہا، وہ نہ صرف پورے پنجاب بلکہ کراچی تک شو کرنے جاتا تھا۔ ایک سوال پر معروف ڈائریکٹر نے کہا کہ حکمرانوں سے مطلوب الرحمان کے لئے کیا مطالبہ کریں، اس کا تو آرٹسٹوں سے کوئی لینا دینا ہی نہیں، وہ تو صرف اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں، میرے خیال میں آرٹسٹوں کو خود اپنے لئے ایک فنڈ بنانا چاہیے، جس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہو سکے۔
Load Next Story