وہ لوگ بھی کیا لوگ تھے
بھارتی فلمی صنعت کی کچھ شخصیات کا دل چسپ تذکرہ
لکشمی کانت شانترام کُدالکر اور پیارے لال را م پراساد شرما المعروف لکشمی کانت پیارے لال :
خاکسار کو کراچی میں پاکستان کے عظیم موسیقار، نثار بزمی کی جوتیاں سیدھی کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اُن کے پاس اکثر بمبئی سے مشہور موسیقار جوڑی لکشمی کانت اور پیارے لال اور نام ور فلمی شاعر آنند بخشی کے فون آیا کرتے تھے۔ وہ 1989کا زمانہ ہو گا جب میرے ذہن میں نثار بزمی صاحب کے لیے ایک شایانِ شان پروگرام کرنے کا خیال آیا۔ میں نے اُن سے پوچھا،''اس مجوزہ پروگرام میں لکشمی کانت پیارے لال اور آنند بخشی کو بلوایا جائے تو کیا وہ پاکستان آئیں گے؟'' اُنہوں نے جواباً کہا،''لکشمی کانت کو فون کر کے خود پوچھ لو۔'' اِس پر خاکسار نے بزمی صاحب کے ہاں سے لکشمی کانت کو بمبئی فون کیا۔
اُن سے جو گفتگو ہوئی اُس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ وہ اور پیارے لال 1960تک بمبئی میں بزمی صاحب کے میوزیشن ہوا کرتے تھے۔ خود اُس وقت بزمی صاحب ہلکے بجٹ کی دھارمِک فلمیں کیا کرتے تھے۔ پھر بزمی صاحب کے زیرِتربیت یہ دونوں میوزیشن ترقی کرتے کرتے ''بی''، '' اے'' اور بالآخر ''آؤٹ اسٹینڈنگ'' درجہ تک چلے گئے۔ پھر بزمی صاحب پاکستان آ گئے اور یہاں اُن کی پہلی فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' 3ِ فروری 1965کو نمائش کے لیے پیش ہوئی اور راتوں رات بزمی صاحب ''سی کلاس'' موسیقار سے ''آؤٹ اسٹیندنگ موسیقار'' ہوگئے۔
اُدھر لکشمی کانت شانترام کُدالکر اور پیارے لال را م پرساد شرما المعروف لکشمی کانت پیارے لال کی بہ حیثیت موسیقار فلم ''دوستی''6 نومبر 1964کو نمائش کے لیے پیش ہوئی ۔12 ویں فلم فیئر ایوارڈ 1965میں اس فلم کو 6ایوارڈ حاصل ہوئے: ''بہترین فلم''، ''بہترین فلمی موسیقار: لکشمی کانت پیارے لال''، ''بہترین کہانی''، ''بہترین مکالمے''، ''بہترین پلے بیک سنگر: محمد رفیع، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے''، ''بہترین فلمی شاعر: اسرار حسین خان المعروف مجروح سلطان پوری'' اور ''بہترین ہدایت کار'' کے ایوارڈ۔ لکشمی کانت نے خاکسار کو بتایا کہ آج ہم دونوں جو کچھ بھی ہیں بزمی صاحب کی وجہ سے ہیں، لہٰذا ہم اُن کے لیے حاضر ہیں۔ اُن کے لیے خود اپنے پیسے سے آئیں گے، ہوٹل کے پیسے بھی خود دیں گے، بس ایک ماہ پہلے بتا دینا...افسوس کہ لکشمی کانت 25 مئی 1998 کو گزر گئے۔
آنند بخشی: (21 جولائی1930 سے30مارچ 2002 ):
آنند بخشی نے بھی کچھ اس سے الگ کہانی نہیں سنائی۔ انہوں نے بتایا،''سید نثار (نثار بزمی) 1958 میں مجھے خود فلم ساز و ہدایت کار کے پاس لے گئے جو فلم ''بھلا آدمی'' بنا رہے تھے، اُن سے میرا تعارف کروایا اور کہا کہ ان سے گیت لکھوائے جائیں۔
اِس طرح سید نثار میری انگلی پکڑ کر مجھے بمبئی فلمی دنیا میں لے کر آئے۔ آج میں جو ہوں اُن کی وجہ سے ہوں۔ مجھے یہ بتاؤ کہ کب آنا ہے۔'' بدقسمتی سے وہ پروگرام تو نہ ہوسکا، لیکن اتنے بڑے لوگوں سے کم ازکم ٹیلی فون پر بات چیت ہوگئی۔ آنند بخشی کے جدِامجد راولپنڈی کے نزدیک واقع گاؤں ''کُرّی'' کے رہنے والے تھے۔ مجروح سلطان پوری کے بعد یہ واحد بھارتی فلمی شاعر ہیں جنہوں نے 44 سال کا عرصہ فلموں کے لیے نغمات لکھتے ہوئے گزارا۔ ان کے گیتوں کی مقبولیت کا راز سادہ الفاظ میں مطلب بیان کرنا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اُنہوں نے عملی زندگی کا آغاز برطانوی دور کی بحریہ میں شامل ہوکر کیا، مگر ایک تو کراچی میں ا ن کے جہاز میں بغاوت ہوگئی، دوسرے ہندوستان کی تقسیم۔ اس کے بعد انہوں نے 1958 تک دہلی میں موٹر مکینیک وغیرہ کا کام کیا۔
پھر فلم ''بھلا آدمی'' کا ذکر ہوچکا۔ سورج پرکاش کی فلمیں ''منہدی لگے میرے ہاتھ'' (1962)، ''جب جب پھول کِھلے'' (1965) سے آنند بخشی کو شہرت ملی۔ دونوں فلموں کے موسیقار کلیان جی ویر جی شاہ اور آنند جی ویر جی شاہ المعروف کلیان جی آنند جی تھے۔ البتہ فلم ''مِلن'' (1967) نے اِن کو صفِ اول کا نغمہ نگار بنا دیا، جس کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تھے۔ آنند بخشی کی یادگار فلمیں ہیں،''امر پریم'' (1971)، ''بوبی'' (1973)، ''شعلے'' (1975)، ''امر اکبر انتھونی'' (1977)،''اک دوجے کے لیے'' (1981)، ''دل تو پاگل ہے'' (1997 )، اور'' تال'' (1999 )۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آنند بخشی شاعر نہیں بلکہ فلم پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، مگر بن کچھ اور گئے۔ البتہ انہوں نے لتامنگیشکر کے ساتھ لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی میں اپنی آواز میں فلم ''موم کی گڑیا''(1972) ایک گیت ریکارڈ کرایا:
باغوں میں بہار آئی ہونٹوں پہ پکار آئی آجا میری رانی
رُت بے قرار آئی ڈولی میں سوار آئی آجا میرے راجا
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ طرز کے لحاظ سے مذکورہ گیت کے پورے کے پورے انترے اور سنچائی پاکستانی پنجابی فلم ''ات خدا دا ویر'' (جو 9 اکتوبر 1970 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی) تنویر نقوی صاحب کے گیت کا ہوبہو چربہ ہے۔ اس گیت کی طرز جناب بخشی وزیر صاحب نے بنائی اور نورجہاں نے گایا: جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں میں تھاں مرجانیاں۔ ''موم کی گڑیا'' اس کے 2 سال بعد نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
ساحرؔ لدھیانوی کے بعد یہ دوسرے فلمی شاعر ہیں جو اپنے گیتوں کی صدابندی کے موقع پر اسٹوڈیو میں موجود رہا کرتے تھے۔
٭شنکر داس کیسری لال، قلمی نام شیلیندرا (30 اگست 1923 سے 14 دسمبر 1966):
شیلیندرا بھارتی فلمی صنعت کا ایک روشن ستارہ ہے۔ شیلیندرا کا نام1950 اور1960کی دہائی میں کام یابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ راج کپور، شنکر جے کشن اور شیلیندرا کی جوڑی نے کئی ایک کام یاب فلموں کے گانے بنائے۔ وہ راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انڈین ریلوے کی ورک شاپ میں ''اپرنٹِس'' کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ یہیں پر انقلابی نظمیں لکھنا شروع کیں۔ ان کی ایک نظم ''جلتا ہے پنجاب''... تو اتنی مشہور ہوئی کہ 1948 میں راج کپور تک جا پہنچی، جنہوں نے اسے خریدنے کی پیشکش بھی کی، لیکن ایک انقلابی کی حیثیت سے شیلیندرا نے یہ سودا نہیں کیا۔ لیکن ...بھلا ہو شیلیندرا کی بیوی کا کہ وہ خود چل کر راج کپور کے پاس جا پہنچے۔
اب 1949کا زمانہ آچکا تھا اور فلم ''برسات '' کے گانے نئے موسیقار شنکر جے کشن بنا رہے تھے ۔ 500روپے معاوضے پر 2 گیت شیلیندرا نے لکھے: ؎
پتلی کمر ہے ترچھی نظر ہے
کِھلے پھول سی تیری جوانی
کوئی بتائے کہاں کسر ہے
اور
برسات میں ہم سے ملے تم سجن
تم سے ملے ہم، برسات میں
یہ وہ زمانہ تھا جب فلمی موسیقار نئے ابھرتے ہوئے گیت نگاروں کو فلم سازوں اور پروڈیوسروں سے ملاقات کروایا کرتے تھے، یوں نئے شاعروں کو آگے آنے کے مواقع ملا کرتے۔ جلد ہی شیلیندرا نے محسوس کر لیا کہ شنکر جے کشن وہ توجہ نہیں دے رہے جو دینا چاہیے تھی۔ خودداری آڑے آئی لہٰذا انہوں نے یہ لکھ کر شنکر جے کشن کو بھجوا دیا:
چھوٹی سی یہ دنیا پہچانے راستے ہیں
تم کہیں تو ملو گے، کبھی تو ملو گے
تو پوچھیں گے حال
عقل مند کو اشارہ کافی ...شنکر جے کشن نے شیلیندرا سے فوراً معافی طلب کی اور اس مکھڑے کو فلم ''رنگولی'' ( 1962) میں گلوکار کشور اور لتا منگیشکر کی الگ الگ آوازوں میں صدابند کیا۔ یہ گیت بے انتہا مقبول ہوا۔
چند ہی سالوں میں شیلیندرا کے پاس اچھا خاصا سرمایہ اکٹھا ہوگیا۔ انقلابی تو تھے ہی، انہوں نے کچھ لوگوں کے کہنے پر اور کچھ اپنے سرمائے کے زعم پر ایک انقلابی فلم ''تیسری قسم'' بنائی۔ اِس فلم میں حسرتؔ جے پوری سے بھی گیت لکھوائے۔ یہ فلم ہر ایک اعتبار سے شان دار تھی۔ اس نے بہترین فیچر فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ حاصل کیا لیکن...کمرشیل طور پر وہ بُری طرح فلاپ ہوگئی، جس نے شیلیندرا کی معاشی اور روحانی طور پر کمر توڑ دی۔ اس کے بعد وہ زیادہ عرصہ نہ جی سکے اور اسی سال 1966 میں محض 43سال کی عمر میں دنیا سے گزر گئے۔
شیلیندرا کو تین مرتبہ بہترین گیت نگار کے فلم فیئر ایوارڈ حاصل ہوئے: ؎
فلم '' یہودی'' (1958)
دل کو تجھ سے بے دلی ہے مجھ کو ہے دل کا غرور
تو یہ مانے کے نہ مانے لوگ مانیں گے ضرور
یہ میرا دیوانہ پن ہے یا محبت کا سرور
تو نہ پہچانے تو یہ ہے تیری نظروں کا قصور
(موسیقار شنکر جے کشن آواز مکیش ماتھر)
فلم ''اناڑی' '(1959)
سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری
سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی
(موسیقار شنکر جے کشن آواز مکیش ماتھر)
فلم '' برہم چاری'' ( 1968)
میں گاؤں تم سو جاؤ
سُکھ سپنوں میں کھو جاؤ
اس گیت کی موسیقی شنکر جے کشن اور آواز محمد رفیع کی تھی۔
٭اقبال حسین المعروف حسرت جے پوری (15 اپریل1922 سے 17 ستمبر 1999):
1940 میں 11روپے ماہانہ بمبئی سے انہوں نے بس کنڈکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی شروع کی۔ مشاعروں میں بھی اکثر شرکت کیا کرتے، یہیں ایک مشاعرے میں اپنے وقت کے بہت بڑے اداکار اور راج کپور کے والد پرتھوی راج کی نظروں میں آگئے۔ بات آگے بڑھی اور انہوں نے راج کپور کے پاس بھیج دیا جو شنکر جے کشن کے ساتھ فلم ''برسات'' پر کام کر رہے تھے۔ حسرتؔ کا پہلا گیت: ؎
جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے
آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے
(آواز لتا منگیشکر)
اور پہلا دوگانہ:
چھوڑ گئے بالم مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے
توڑ گئے بالم میرا پیا ر بھرا دل توڑ گئے
(آوازیں لتا اور مکیش ماتھر)
شیلیندرا کے ساتھ ساتھ راج کپور کے لیے حسرتؔ نے بھی 1971تک گیت لکھے۔ شیلیندرا اور جے کشن کے گزرنے، تلے اوپر راج کپور کی دو فلموں ''میرا نام جوکر'' اور ''کل آج اور کل'' کے فلاپ ہونے پر راج کپور دوسرے موسیقار اور گیت نگاروں کی جانب متوجہ ہوگئے۔ حسرتؔ جے پوری نے فلم ''ہلچل'' (1951) کا منظرنامہ بھی لکھا۔ ان کی فلمی گیت نگار کی حیثیت سے آخری فلم ''ہتیا'' (2004) ہے۔
ان کے چند مشہور گیت درجِ ذیل ہے:
فلم ''سسرال '' (1961)
تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشمِ بد دور
مکھڑے کو چھپا لو آنچل میں کہیں میری نظر نہ لگے چشمِ بد دور
(موسیقی: شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
فلم ''صحرا'' ( 1936)
پنکھ ہوتی تو اُڑ آتی رے رسیا او ظالما
تجھے دل کا داغ دکھلاتی رے
(موسیقی رام لال۔ آواز لتا)
فلم '' جنگلی'' (1961)
احسان تیرا ہو گا مجھ پر دل چاہتا ہے وہ کہنے دو
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے مجھے پلکوں کی چھاؤں میں رہنے دو
(موسیقی شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
فلم ''سنگم '' (1964)
یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کے تم ناراض نہ ہونا
کہ تم میری زندگی ہو کہ تم میری بندگی ہو
(موسیقی شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
شیلیندرا کی فلم '' تیسری قسم'' کا گیت:
دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی
کاہے کو دنیا بنائی تو نے کاہے کو دنیا بنائی
(موسیقار شنکر جے کشن آواز مکیش ماتھر)
حسرتؔ کو 2 فلم فیئر ایوارڈ ملے :
بہترین گیت نگار فلم '' سورج'' (1966 ):
بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے
ہواؤ راگنی گاؤ میر ا محبوب آیا ہے
(موسیقی شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
بہترین نغمہ نگار فلم ''انداز'' (1971):
زندگی اک سفر ہے سہانہ
یہاں کل کیا ہو کس نے جانا
(موسیقار شنکر جے کشن آواز کشور کمار)
یہ بھارتی فلمی صنعت کے سنہری دور کی چند ہستیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے اتحاد کی ایک مضبوط فضاء میں ایک دوسرے کے تعاون سے بہترین فن کے نمونے پیش کیے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
خاکسار کو کراچی میں پاکستان کے عظیم موسیقار، نثار بزمی کی جوتیاں سیدھی کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اُن کے پاس اکثر بمبئی سے مشہور موسیقار جوڑی لکشمی کانت اور پیارے لال اور نام ور فلمی شاعر آنند بخشی کے فون آیا کرتے تھے۔ وہ 1989کا زمانہ ہو گا جب میرے ذہن میں نثار بزمی صاحب کے لیے ایک شایانِ شان پروگرام کرنے کا خیال آیا۔ میں نے اُن سے پوچھا،''اس مجوزہ پروگرام میں لکشمی کانت پیارے لال اور آنند بخشی کو بلوایا جائے تو کیا وہ پاکستان آئیں گے؟'' اُنہوں نے جواباً کہا،''لکشمی کانت کو فون کر کے خود پوچھ لو۔'' اِس پر خاکسار نے بزمی صاحب کے ہاں سے لکشمی کانت کو بمبئی فون کیا۔
اُن سے جو گفتگو ہوئی اُس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ وہ اور پیارے لال 1960تک بمبئی میں بزمی صاحب کے میوزیشن ہوا کرتے تھے۔ خود اُس وقت بزمی صاحب ہلکے بجٹ کی دھارمِک فلمیں کیا کرتے تھے۔ پھر بزمی صاحب کے زیرِتربیت یہ دونوں میوزیشن ترقی کرتے کرتے ''بی''، '' اے'' اور بالآخر ''آؤٹ اسٹینڈنگ'' درجہ تک چلے گئے۔ پھر بزمی صاحب پاکستان آ گئے اور یہاں اُن کی پہلی فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' 3ِ فروری 1965کو نمائش کے لیے پیش ہوئی اور راتوں رات بزمی صاحب ''سی کلاس'' موسیقار سے ''آؤٹ اسٹیندنگ موسیقار'' ہوگئے۔
اُدھر لکشمی کانت شانترام کُدالکر اور پیارے لال را م پرساد شرما المعروف لکشمی کانت پیارے لال کی بہ حیثیت موسیقار فلم ''دوستی''6 نومبر 1964کو نمائش کے لیے پیش ہوئی ۔12 ویں فلم فیئر ایوارڈ 1965میں اس فلم کو 6ایوارڈ حاصل ہوئے: ''بہترین فلم''، ''بہترین فلمی موسیقار: لکشمی کانت پیارے لال''، ''بہترین کہانی''، ''بہترین مکالمے''، ''بہترین پلے بیک سنگر: محمد رفیع، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے''، ''بہترین فلمی شاعر: اسرار حسین خان المعروف مجروح سلطان پوری'' اور ''بہترین ہدایت کار'' کے ایوارڈ۔ لکشمی کانت نے خاکسار کو بتایا کہ آج ہم دونوں جو کچھ بھی ہیں بزمی صاحب کی وجہ سے ہیں، لہٰذا ہم اُن کے لیے حاضر ہیں۔ اُن کے لیے خود اپنے پیسے سے آئیں گے، ہوٹل کے پیسے بھی خود دیں گے، بس ایک ماہ پہلے بتا دینا...افسوس کہ لکشمی کانت 25 مئی 1998 کو گزر گئے۔
آنند بخشی: (21 جولائی1930 سے30مارچ 2002 ):
آنند بخشی نے بھی کچھ اس سے الگ کہانی نہیں سنائی۔ انہوں نے بتایا،''سید نثار (نثار بزمی) 1958 میں مجھے خود فلم ساز و ہدایت کار کے پاس لے گئے جو فلم ''بھلا آدمی'' بنا رہے تھے، اُن سے میرا تعارف کروایا اور کہا کہ ان سے گیت لکھوائے جائیں۔
اِس طرح سید نثار میری انگلی پکڑ کر مجھے بمبئی فلمی دنیا میں لے کر آئے۔ آج میں جو ہوں اُن کی وجہ سے ہوں۔ مجھے یہ بتاؤ کہ کب آنا ہے۔'' بدقسمتی سے وہ پروگرام تو نہ ہوسکا، لیکن اتنے بڑے لوگوں سے کم ازکم ٹیلی فون پر بات چیت ہوگئی۔ آنند بخشی کے جدِامجد راولپنڈی کے نزدیک واقع گاؤں ''کُرّی'' کے رہنے والے تھے۔ مجروح سلطان پوری کے بعد یہ واحد بھارتی فلمی شاعر ہیں جنہوں نے 44 سال کا عرصہ فلموں کے لیے نغمات لکھتے ہوئے گزارا۔ ان کے گیتوں کی مقبولیت کا راز سادہ الفاظ میں مطلب بیان کرنا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اُنہوں نے عملی زندگی کا آغاز برطانوی دور کی بحریہ میں شامل ہوکر کیا، مگر ایک تو کراچی میں ا ن کے جہاز میں بغاوت ہوگئی، دوسرے ہندوستان کی تقسیم۔ اس کے بعد انہوں نے 1958 تک دہلی میں موٹر مکینیک وغیرہ کا کام کیا۔
پھر فلم ''بھلا آدمی'' کا ذکر ہوچکا۔ سورج پرکاش کی فلمیں ''منہدی لگے میرے ہاتھ'' (1962)، ''جب جب پھول کِھلے'' (1965) سے آنند بخشی کو شہرت ملی۔ دونوں فلموں کے موسیقار کلیان جی ویر جی شاہ اور آنند جی ویر جی شاہ المعروف کلیان جی آنند جی تھے۔ البتہ فلم ''مِلن'' (1967) نے اِن کو صفِ اول کا نغمہ نگار بنا دیا، جس کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تھے۔ آنند بخشی کی یادگار فلمیں ہیں،''امر پریم'' (1971)، ''بوبی'' (1973)، ''شعلے'' (1975)، ''امر اکبر انتھونی'' (1977)،''اک دوجے کے لیے'' (1981)، ''دل تو پاگل ہے'' (1997 )، اور'' تال'' (1999 )۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آنند بخشی شاعر نہیں بلکہ فلم پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، مگر بن کچھ اور گئے۔ البتہ انہوں نے لتامنگیشکر کے ساتھ لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی میں اپنی آواز میں فلم ''موم کی گڑیا''(1972) ایک گیت ریکارڈ کرایا:
باغوں میں بہار آئی ہونٹوں پہ پکار آئی آجا میری رانی
رُت بے قرار آئی ڈولی میں سوار آئی آجا میرے راجا
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ طرز کے لحاظ سے مذکورہ گیت کے پورے کے پورے انترے اور سنچائی پاکستانی پنجابی فلم ''ات خدا دا ویر'' (جو 9 اکتوبر 1970 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی) تنویر نقوی صاحب کے گیت کا ہوبہو چربہ ہے۔ اس گیت کی طرز جناب بخشی وزیر صاحب نے بنائی اور نورجہاں نے گایا: جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں میں تھاں مرجانیاں۔ ''موم کی گڑیا'' اس کے 2 سال بعد نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
ساحرؔ لدھیانوی کے بعد یہ دوسرے فلمی شاعر ہیں جو اپنے گیتوں کی صدابندی کے موقع پر اسٹوڈیو میں موجود رہا کرتے تھے۔
٭شنکر داس کیسری لال، قلمی نام شیلیندرا (30 اگست 1923 سے 14 دسمبر 1966):
شیلیندرا بھارتی فلمی صنعت کا ایک روشن ستارہ ہے۔ شیلیندرا کا نام1950 اور1960کی دہائی میں کام یابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ راج کپور، شنکر جے کشن اور شیلیندرا کی جوڑی نے کئی ایک کام یاب فلموں کے گانے بنائے۔ وہ راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انڈین ریلوے کی ورک شاپ میں ''اپرنٹِس'' کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ یہیں پر انقلابی نظمیں لکھنا شروع کیں۔ ان کی ایک نظم ''جلتا ہے پنجاب''... تو اتنی مشہور ہوئی کہ 1948 میں راج کپور تک جا پہنچی، جنہوں نے اسے خریدنے کی پیشکش بھی کی، لیکن ایک انقلابی کی حیثیت سے شیلیندرا نے یہ سودا نہیں کیا۔ لیکن ...بھلا ہو شیلیندرا کی بیوی کا کہ وہ خود چل کر راج کپور کے پاس جا پہنچے۔
اب 1949کا زمانہ آچکا تھا اور فلم ''برسات '' کے گانے نئے موسیقار شنکر جے کشن بنا رہے تھے ۔ 500روپے معاوضے پر 2 گیت شیلیندرا نے لکھے: ؎
پتلی کمر ہے ترچھی نظر ہے
کِھلے پھول سی تیری جوانی
کوئی بتائے کہاں کسر ہے
اور
برسات میں ہم سے ملے تم سجن
تم سے ملے ہم، برسات میں
یہ وہ زمانہ تھا جب فلمی موسیقار نئے ابھرتے ہوئے گیت نگاروں کو فلم سازوں اور پروڈیوسروں سے ملاقات کروایا کرتے تھے، یوں نئے شاعروں کو آگے آنے کے مواقع ملا کرتے۔ جلد ہی شیلیندرا نے محسوس کر لیا کہ شنکر جے کشن وہ توجہ نہیں دے رہے جو دینا چاہیے تھی۔ خودداری آڑے آئی لہٰذا انہوں نے یہ لکھ کر شنکر جے کشن کو بھجوا دیا:
چھوٹی سی یہ دنیا پہچانے راستے ہیں
تم کہیں تو ملو گے، کبھی تو ملو گے
تو پوچھیں گے حال
عقل مند کو اشارہ کافی ...شنکر جے کشن نے شیلیندرا سے فوراً معافی طلب کی اور اس مکھڑے کو فلم ''رنگولی'' ( 1962) میں گلوکار کشور اور لتا منگیشکر کی الگ الگ آوازوں میں صدابند کیا۔ یہ گیت بے انتہا مقبول ہوا۔
چند ہی سالوں میں شیلیندرا کے پاس اچھا خاصا سرمایہ اکٹھا ہوگیا۔ انقلابی تو تھے ہی، انہوں نے کچھ لوگوں کے کہنے پر اور کچھ اپنے سرمائے کے زعم پر ایک انقلابی فلم ''تیسری قسم'' بنائی۔ اِس فلم میں حسرتؔ جے پوری سے بھی گیت لکھوائے۔ یہ فلم ہر ایک اعتبار سے شان دار تھی۔ اس نے بہترین فیچر فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ حاصل کیا لیکن...کمرشیل طور پر وہ بُری طرح فلاپ ہوگئی، جس نے شیلیندرا کی معاشی اور روحانی طور پر کمر توڑ دی۔ اس کے بعد وہ زیادہ عرصہ نہ جی سکے اور اسی سال 1966 میں محض 43سال کی عمر میں دنیا سے گزر گئے۔
شیلیندرا کو تین مرتبہ بہترین گیت نگار کے فلم فیئر ایوارڈ حاصل ہوئے: ؎
فلم '' یہودی'' (1958)
دل کو تجھ سے بے دلی ہے مجھ کو ہے دل کا غرور
تو یہ مانے کے نہ مانے لوگ مانیں گے ضرور
یہ میرا دیوانہ پن ہے یا محبت کا سرور
تو نہ پہچانے تو یہ ہے تیری نظروں کا قصور
(موسیقار شنکر جے کشن آواز مکیش ماتھر)
فلم ''اناڑی' '(1959)
سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری
سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی
(موسیقار شنکر جے کشن آواز مکیش ماتھر)
فلم '' برہم چاری'' ( 1968)
میں گاؤں تم سو جاؤ
سُکھ سپنوں میں کھو جاؤ
اس گیت کی موسیقی شنکر جے کشن اور آواز محمد رفیع کی تھی۔
٭اقبال حسین المعروف حسرت جے پوری (15 اپریل1922 سے 17 ستمبر 1999):
1940 میں 11روپے ماہانہ بمبئی سے انہوں نے بس کنڈکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی شروع کی۔ مشاعروں میں بھی اکثر شرکت کیا کرتے، یہیں ایک مشاعرے میں اپنے وقت کے بہت بڑے اداکار اور راج کپور کے والد پرتھوی راج کی نظروں میں آگئے۔ بات آگے بڑھی اور انہوں نے راج کپور کے پاس بھیج دیا جو شنکر جے کشن کے ساتھ فلم ''برسات'' پر کام کر رہے تھے۔ حسرتؔ کا پہلا گیت: ؎
جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے
آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے
(آواز لتا منگیشکر)
اور پہلا دوگانہ:
چھوڑ گئے بالم مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے
توڑ گئے بالم میرا پیا ر بھرا دل توڑ گئے
(آوازیں لتا اور مکیش ماتھر)
شیلیندرا کے ساتھ ساتھ راج کپور کے لیے حسرتؔ نے بھی 1971تک گیت لکھے۔ شیلیندرا اور جے کشن کے گزرنے، تلے اوپر راج کپور کی دو فلموں ''میرا نام جوکر'' اور ''کل آج اور کل'' کے فلاپ ہونے پر راج کپور دوسرے موسیقار اور گیت نگاروں کی جانب متوجہ ہوگئے۔ حسرتؔ جے پوری نے فلم ''ہلچل'' (1951) کا منظرنامہ بھی لکھا۔ ان کی فلمی گیت نگار کی حیثیت سے آخری فلم ''ہتیا'' (2004) ہے۔
ان کے چند مشہور گیت درجِ ذیل ہے:
فلم ''سسرال '' (1961)
تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشمِ بد دور
مکھڑے کو چھپا لو آنچل میں کہیں میری نظر نہ لگے چشمِ بد دور
(موسیقی: شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
فلم ''صحرا'' ( 1936)
پنکھ ہوتی تو اُڑ آتی رے رسیا او ظالما
تجھے دل کا داغ دکھلاتی رے
(موسیقی رام لال۔ آواز لتا)
فلم '' جنگلی'' (1961)
احسان تیرا ہو گا مجھ پر دل چاہتا ہے وہ کہنے دو
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے مجھے پلکوں کی چھاؤں میں رہنے دو
(موسیقی شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
فلم ''سنگم '' (1964)
یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کے تم ناراض نہ ہونا
کہ تم میری زندگی ہو کہ تم میری بندگی ہو
(موسیقی شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
شیلیندرا کی فلم '' تیسری قسم'' کا گیت:
دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی
کاہے کو دنیا بنائی تو نے کاہے کو دنیا بنائی
(موسیقار شنکر جے کشن آواز مکیش ماتھر)
حسرتؔ کو 2 فلم فیئر ایوارڈ ملے :
بہترین گیت نگار فلم '' سورج'' (1966 ):
بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے
ہواؤ راگنی گاؤ میر ا محبوب آیا ہے
(موسیقی شنکر جے کشن آواز محمد رفیع)
بہترین نغمہ نگار فلم ''انداز'' (1971):
زندگی اک سفر ہے سہانہ
یہاں کل کیا ہو کس نے جانا
(موسیقار شنکر جے کشن آواز کشور کمار)
یہ بھارتی فلمی صنعت کے سنہری دور کی چند ہستیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے اتحاد کی ایک مضبوط فضاء میں ایک دوسرے کے تعاون سے بہترین فن کے نمونے پیش کیے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔