منشیات اور نوجوان نسل

حکومت اگر سنجیدہ ہو تو نشے کا کاروبار بند کرایا جاسکتا ہے

fatimaqazi7@gmail.com

منشیات کا دھندہ کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے ۔ اس کا نزول ٹڈی دل کی طرح ضیا الحق کے دور میں بہت زیادہ بڑھا۔ افغانی ہیروئن اور اسلحہ ضیا الحق کی دین ہے۔ منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بہت توجہ دلائی گئی ہے لیکن ارباب اختیار کی طرف سے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی جگہ جگہ سرعام بھی لوگ چرس، افیون اور ہیروئن کا نشہ کرتے دیکھے گئے ہیں ۔ شیشہ بار کی اصطلاح اب عام ہے۔

سپر مارکیٹوں میں، پیزا پوائنٹ پر اور دیگر پبلک مقامات پر یہ دھندہ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ حال ہی میں ایک تشویش ناک اطلاع آئی ہے کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس اور کلفٹن سے منشیات کی ہوم ڈیلیوری دینے والے گروہ کی سرغنہ لڑکی اور دیگر کارندوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔ سونیا پڑھی لکھی ہے اور اس کے ساتھی بھی گریجویٹ ہیں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ سونیا مختلف کالجوں اور تعلیمی اداروں میں جاتی ہے جہاں تعلقات بناتی ہے اور منشیات فروخت کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کی پہنچ گھروں تک بھی ہے۔ یہ امیر گھرانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نشے کے پیکٹ سپلائی کرتی ہے۔ اس کا تمام تر دھندہ موبائل فون پر چلتا ہے۔

سونیا کے ساتھی مختلف جگہوں پر خاص کر کیفے اور تعلیمی اداروں میں جاکر پہلے نشے کے سگریٹ کا ایک کش لینے کو کہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ جب وہ نشے کے عادی ہوجاتے ہیں تو پھر مہنگے داموں انھیں منشیات فروخت کی جاتی ہے ۔ نشہ کرنے والوں سے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ۔ میں نے خود ایسی طالبات اور شوبز سے وابستہ لڑکے اور لڑکیوں کو نشے کے سگریٹ پیتے دیکھا ہے اور یہ دیکھ کر مجھے سخت حیرت اور تعجب ہو رہا تھا کہ انھیں کسی کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ ایک سگریٹ کو کئی کئی لوگ استعمال کررہے تھے۔ تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں بھی یہ وبا عام ہے۔ گٹکے پر پابندی لگی تو اس کی قیمت بڑھ گئی۔ چوری چھپے فروخت ہونے لگا خریدنے والے کو بھی پتہ ہے کہ کہاں سے ملے گا اور بیچنے والے بھی ہوشیاری سے اپنا کام کررہے ہیں۔

موبائل فون نے ہرکام بہت آسان بنادیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نہ تو والدین اس جانب توجہ دے رہے ہیں اور نہ اساتذہ ۔ میں نے کسی کالم میں ایک ایسے نوجوان کا ذکر کیا تھا جو ایک بہت اچھے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ والد فوت ہوگئے تھے ماں اور بہن مل کر دفاتر اور یونیورسٹی میں ٹفن سپلائی کرتی تھیں۔ سپلائی کی ذمے داری بھائی پر تھی۔ اسی دوران بھائی جو مشکل سے بیس یا بائیس سال کا ہوگا اسے کسی نے نشے کی لت لگا دی۔ یہ بڑا موذی مرض ہے، قوت مدافعت ختم کردیتا ہے اور انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ نشہ چھوڑنے کے لیے جس قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔

کیونکہ نشہ نہ ملنے سے بدن میں اینٹھن اور تشنج پیدا ہوتا ہے اس لڑکے کی ماں کو جب پتا چلاکہ بیٹا چرس اور ہیروئن کا عادی ہوگیا ہے تو انھوں نے اس کے باہر جانے پر پابندی لگا دی اور کسی دوسرے رائیڈر کو ملازم رکھ لیا ۔ اسی رائیڈرکی زبانی پتا چلاکہ نشہ نہ ملنے سے لڑکے کی حالت بہت خراب ہوجاتی تھی۔ مجبوراً ماں خود بیٹے کے بتائے ہوئے پتے پر جاکر منشیات لے کر آتی تھیں اور خود بیٹے کو دیتی تھیں ۔ اب پتہ نہیں وہ کس حال میں ہے۔ نشے نے بہت سے گھر اجاڑے ہیں۔ خواہ شراب کا نشہ ہو، ہیروئن کا یا چرس کا انسانی صحت تباہ ہوجاتی ہے اور انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔ بعض اوقات گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے کہ گھرکا سربراہ سب کچھ نشے میں اڑا دیتا ہے۔


حکومت اگر سنجیدہ ہو تو نشے کا کاروبار بند کرایا جاسکتا ہے لیکن حکومت؟ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے، والا معاملہ ہے اسے منڈی سے بکرے، دنبے اور گدھے گھوڑے خریدنے سے فرصت نہیں ساری توجہ آیندہ الیکشن پر ہے۔ گھروں میں والدین نے بچوں کو بالکل کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ہمسائے اور محلے دار اب وہ نہیں رہے جو کبھی پہلے تھے پہلے محلے والوں کے دکھ اور خوشیاں سانجھے تھے۔ اب معاملہ دگر ہے۔ ایک صاحب نے مجھے بتایاکہ انھوں نے اپنے ہمسائے کے لڑکے کو دکان پہ سگریٹ پیتے دیکھا تو انھیں شک ہوا کہ وہ عام سگریٹ نہیں تھا بلکہ نشے کا تھا۔ انھوں نے ہمسائے سے ذکرکیا تو وہ برا مان گئے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کچھ تعلقات بھی خراب ہوگئے پھر پتا چلا کہ نوجوان اب کالج بھی نہیں جاتا گھر میں پڑا رہتا ہے۔ پیسے والی پارٹی تھی، ڈاکٹروں کو دکھایا تو تصدیق ہوگئی کہ لڑکا ہیروئن کا نشہ کرتا تھا۔ اب علاج ہورہاہے دن رات ماں کی نگرانی میں ہے۔ اسپتال میں بھی رہ کر آیا ہے لیکن وہ صحت نہیں رہی جو پہلے تھی، تعلیم کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔

ڈیپریشن کے مریضوں کو عموماً سائیکا ٹرسٹ اور ماہرین نفسیات سکون آور دوائیں دیتے ہیں جن میں XANAX - ATIVAN ALPاور LEXOTINAL عام ہیں۔ ایسے نوجوان جنھیں ہیروئن یا چرس نہیں مل پاتی انھوں نے یہ طریقہ نکالا ہے کہ متذکرہ بالا ادویات کے پورے پورے پیکٹ خرید لیتے ہیں اور آٹھ آٹھ دس دس گولیاں ایک ساتھ کھاکر نشہ پورا کرتے ہیں۔ یہاں کوئی قاعدہ قانون نہیں کہ کیمسٹ حضرات ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر نشہ آور ادویات فروخت نہ کریں،کوئی بھی کہیں سے بھی نشہ آور ادویات خرید سکتا ہے۔ نشے میں مبتلا افراد کی ازدواجی زندگی بھی تلخیوں سے بھری ہوتی ہے۔ عام طور پر عورتیں نشئی مردوں سے طلاق لے لیتی ہیں کیونکہ نشہ چھوڑنا یا اس کا علاج کرانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ نشئی آدمی کی کوئی عزت نہیں کرتا۔

وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں محلے والے دامن بچالیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو نشئی سے دور رکھتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب کچھ عرصے سے لڑکیاں بھی نشہ کرنے لگی ہیں۔ یہ لت دولت مند گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ پیسہ ان کے لیے کوئی پرابلم نہیں ہوتا اور نشہ بیچنے والے ایسے ہی امیر گھرانوں کے لوگوں کو پھانستے ہیں کیونکہ وہ آسان اور منافع بخش کاروبار کو ایسے ہی امیر زادوں سے بڑھاتے ہیں۔ پچھلے دنوں حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ وطالبات کا خون ٹیسٹ کیا جائے گا۔ اگر ان میں سے جن لوگوں کے خون میں نشہ پایاگیا اس کا علاج ہوگا۔ نیز یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کے آس پاس منشیات فروشوں پہ نظر رکھی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی محض وعدہ ہی رہا۔ بالکل ویسا ہی جیسا کہ لوڈ شیڈنگ کے لیے کہا گیا تھا کہ دو سال میں ختم کردیں۔

نشہ نسلوں کو کھاجاتا ہے۔ ہیروئن بیچنے والے کسی ایک کو آسان ٹارگٹ بنالیتے ہیں۔ پہلے اسے فری سگریٹ دے کر عادی بنالیتے ہیں پھر اسے مفت کا لالچ دے کر ہیروئن کی فروخت کے لیے مزید گاہک تلاش کرنے کا کہا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ گاہکوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنتی رہتی ہے۔ آخر میں یہ موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ از خود نوٹس لیں اور بچوں پو نظر رکھیں ان کی مصروفیات دوستوں کا حلقہ اور دیگر مقامات پر جہاں وہ جاتے ہیں مثلاً کوچنگ سینٹر پر بھی نظر رکھیں اور اگر بیٹے یا بیٹی کے بارے میں پتا چل جائے کہ وہ نشہ کررہا ہے تو اس کو علاج کے لیے ڈاکٹر کے سپرد کرنے کے ساتھ ساتھ رویہ دوستانہ رکھیے، کاؤنسلنگ کیجیے۔

اسے زندگی کی اہمیت بتایئے، پیار کیجیے، طعنہ زنی نہ کیجیے کہ اس طرح وہ تنہا رہ جائے گا اور منشیات میں ہی پناہ ڈھونڈے گا۔ علاج طویل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ کاؤنسلنگ سے اس کا اعادہ بحال ہوگا اور وہ علاج میں تعاون کرے گا۔ ہمیں اپنے بچوں پہ خود نظر رکھنی چاہیے۔ آج کل ماں باپ نے اولاد کو بالکل اکیلا چھوڑدیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں اورکوچنگ پہنچ کر ان کی ذمے داریاں ختم ہوگئیں۔ ایسا نہیں ہے اولاد کو جوان ہونے کی والدین اور اساتذہ کی رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے لیکن اساتذہ بھی اب اپنا رول ٹھیک سے انجام نہیں دے رہے۔ ایسے میں والدین کی ذمے داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔
Load Next Story