تاریخ سے سبق سیکھیں
انھیں شاید کوئی بتانے سمجھانے والا نہیں ہے کہ وہ ملک کے اداروں کے ساتھ جوتصادم کر رہے ہیں،
اخبار، ریڈیو اور ٹیلیویژن حالات حاضرہ سے آگاہی کے بہترین ذرائع ہیں، ٹی وی البتہ تفریحی پروگرام بھی نشر کرتا ہے۔ کبھی ریڈیو بھی طویل دورانیے کے ڈرامے سناتا تھا' لوگ اسی طرح منتظر رہتے تھے جیسے آج کل ناظرین قسط وار پروگرام دیکھنے کے لیے دوسرے کام چھوڑ کر TV کے سامنے آ بیٹھتے۔ اب ریڈیو موٹر کار چلانے کے دوران استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں بھی پردہ اسکرین کی سہولت پیدا کر دی گئی ہے۔ اخبار تو سارا دن اپنے ایک دن پرانے میٹریل کے ساتھ گھر دفتر دکان میں موجود ہی ہوتا ہے۔TVبھی پروگرام Repeat کرتا رہتا او اس دوران Breaking News دیتا رہتا ہے۔ ایک اور آلہ جو شروع میں تو صرف غائبانہ گفتگو تک محدود تھا، اب رابطے کی تمام حدیں پھلانگ کر ریڈیو اخبار اور ٹیلیویژن کو پیچھے چھوڑ کر جیبوں اور بستروں تک میں گھس گیا ہے اور بجا طور پر ''گھس بیٹھیا'' کہلایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ایک مرلے کا مکان افورڈ نہیں کر سکتے، اب دو عدد Sims کے ذریعے گفتگو کرتے میوزک سنتے اور ویڈیو دیکھتے ہیں۔
ملک کے اخبار گزشتہ کئی ماہ سے صفحہ اول پر سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کی عوامی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کر رہے ہیں جب کہ ٹیلیویژن اسکرینوں پر ہر دو کے خطاب ایک دن قبل شام کیے وقت لوگ سن چکے ہوتے ہیں۔ تقاریر اور تحریروں کا نفس مضمون کم و بیش الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ ایک ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی شوقین کو کہا جائے کہ ایک دلچسپ فلم آیندہ مہینے کے تیس روز تک روزانہ دیکھے تو وہ بھی چھ سات دن کے بعد لاحول پڑھتا ہوا سینما ہال سے باہر نکل جائے گا۔ نواز شریف صاحب وزیر' وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہ چکے ہیں' وہ خود کسی روز صبح سے رات تک اپنی ہی زیادہ نہیں تو گزشتہ ایک مہینے میں کی جانے والی پچیس تیس تقاریر کی وڈیو ریکارڈنگ سننے کے لیے بیٹھ جائیں تو یقین ہے کہ دوپہر سے پہلے ہی وہ ریلیکسنٹ گولیوں کی ڈبیہ خالی کر کے کمرے سے اور پھر گھر سے باہرنکل بھاگیں گے۔
انھیں شاید کوئی بتانے سمجھانے والا نہیں ہے کہ وہ ملک کے اداروں کے ساتھ جوتصادم کر رہے ہیں، وہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی دنیا اور عوام کے سامنے کیا تصویر پیش کر رہے ہیں' اگر وہ عدلیہ کو دباؤ میں لا کر ممکنہ فیصلوں پر اثرانداز ہونا یا پھر مظلوم بن کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سوچیں نظام عدل کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔ اسی قسم کی صورت حال پر کہا جاتا ہے کہ Enoush is Enough ۔ اصل میں جو ان کی خواہش ہے وہ عدلیہ پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کا ہر دانشور حیران اور پریشان ہے کہ اتنا صبر اتنی برداشت اتنا تحمل اتنی چھوٹ اتنی برد باری۔ اب ان ہی کو مشورہ ہے کہ ملک کے اداروں' ملک کے عوام کا اور سب سے زیادہ خود اپنا خیال کریں۔
نصف کالم لکھ لینے کے بعد میں جبران حمید سے ملنے استنبول پہنچ گیا ہوں۔ اگر کبھی سنتے تھے کہ فلاں عزیز یا دوست سات سمندر پار رہتا ہے تو سوچتے تھے نہ معلوم اب اس سے ملاقات کتنے سال بعد ہو گی اور اب دنیا اتنی سمٹ گئی ہے کہ صبح لاہور ناشتہ کیا اور اب رات کا کھکانا ترکی میں کھا چکے ہیں اور جس موضوع پر لکھنا شروع کیا تھا یہاں آ کر نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ بعض دوست کہتے ہیں کہ عدلیہ کے کچھ لوگ نااہل وزیراعظم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور نواز شریف کو چھوٹ دے کر اسے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کا موقع فراہم کیا جا رہا یہے۔ اسی قسم کی باتیں انسانی حقوق اور عدل و انصاف کی علم بردار عاصمہ جہانگیر کو متنازعہ بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ دونوں قسم کی آراء مبنی بر حقیقت نہیں ہیں۔
پھر یہاں آنے پر ایک صاحب نے بتایا کہ یہاں کی دو شخصیات یعنی عدنان مندریس جو دس سال تک وزیراعظم رہے اور سلال بایارCelal Bayarجو دس سال تک ترکی کے صدر اور دو سال وزیراعظم تھے' دونوں طویل حکمرانی کے بعد سزایاب ہوئے تھے۔ استنبول ہی میں مجھے سات آٹھ درجن دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان و ہونے والی سزاؤں کی تفصیل ملی۔ اکثر کو کرپشن پر سزائیں ہوئیں۔ ہمارے سابق وزیراعظم ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ اگر ان پر دس روپے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو جو چور کی سزا ہوتی ہے قبول کریں گے۔ خدا کرے کہ ان کا دعویٰ سچ نکلے۔ اگر ان کو اتنا ہی یقین ہے تو وہ صبر کریں حوصلہ کریں اور ٹرائیل مکمل ہونے کا انتظار کریں۔ مجھے یہاں ایک کارٹون یاد آتا ہے جس میں ایک شخص کو دو تین لوگ سر اور منہ پر گھونسوں کی بھر مار کر کے پیٹ رہے تھے جب کہ اس کے دوست نے مدد کے لیے اس کے دونوں بازو گھما کر پیچھے کی طرف پکڑ رکھے تھے نیچے شعر لکھا تھا کہ
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی
نادان دوستوں سے فاصلہ رکھنا ہی دانشمندی ہے اور تاریخ ہمیں سبق سکھاتی ہے۔
ملک کے اخبار گزشتہ کئی ماہ سے صفحہ اول پر سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کی عوامی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کر رہے ہیں جب کہ ٹیلیویژن اسکرینوں پر ہر دو کے خطاب ایک دن قبل شام کیے وقت لوگ سن چکے ہوتے ہیں۔ تقاریر اور تحریروں کا نفس مضمون کم و بیش الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ ایک ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی شوقین کو کہا جائے کہ ایک دلچسپ فلم آیندہ مہینے کے تیس روز تک روزانہ دیکھے تو وہ بھی چھ سات دن کے بعد لاحول پڑھتا ہوا سینما ہال سے باہر نکل جائے گا۔ نواز شریف صاحب وزیر' وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہ چکے ہیں' وہ خود کسی روز صبح سے رات تک اپنی ہی زیادہ نہیں تو گزشتہ ایک مہینے میں کی جانے والی پچیس تیس تقاریر کی وڈیو ریکارڈنگ سننے کے لیے بیٹھ جائیں تو یقین ہے کہ دوپہر سے پہلے ہی وہ ریلیکسنٹ گولیوں کی ڈبیہ خالی کر کے کمرے سے اور پھر گھر سے باہرنکل بھاگیں گے۔
انھیں شاید کوئی بتانے سمجھانے والا نہیں ہے کہ وہ ملک کے اداروں کے ساتھ جوتصادم کر رہے ہیں، وہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی دنیا اور عوام کے سامنے کیا تصویر پیش کر رہے ہیں' اگر وہ عدلیہ کو دباؤ میں لا کر ممکنہ فیصلوں پر اثرانداز ہونا یا پھر مظلوم بن کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سوچیں نظام عدل کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔ اسی قسم کی صورت حال پر کہا جاتا ہے کہ Enoush is Enough ۔ اصل میں جو ان کی خواہش ہے وہ عدلیہ پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کا ہر دانشور حیران اور پریشان ہے کہ اتنا صبر اتنی برداشت اتنا تحمل اتنی چھوٹ اتنی برد باری۔ اب ان ہی کو مشورہ ہے کہ ملک کے اداروں' ملک کے عوام کا اور سب سے زیادہ خود اپنا خیال کریں۔
نصف کالم لکھ لینے کے بعد میں جبران حمید سے ملنے استنبول پہنچ گیا ہوں۔ اگر کبھی سنتے تھے کہ فلاں عزیز یا دوست سات سمندر پار رہتا ہے تو سوچتے تھے نہ معلوم اب اس سے ملاقات کتنے سال بعد ہو گی اور اب دنیا اتنی سمٹ گئی ہے کہ صبح لاہور ناشتہ کیا اور اب رات کا کھکانا ترکی میں کھا چکے ہیں اور جس موضوع پر لکھنا شروع کیا تھا یہاں آ کر نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ بعض دوست کہتے ہیں کہ عدلیہ کے کچھ لوگ نااہل وزیراعظم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور نواز شریف کو چھوٹ دے کر اسے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کا موقع فراہم کیا جا رہا یہے۔ اسی قسم کی باتیں انسانی حقوق اور عدل و انصاف کی علم بردار عاصمہ جہانگیر کو متنازعہ بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ دونوں قسم کی آراء مبنی بر حقیقت نہیں ہیں۔
پھر یہاں آنے پر ایک صاحب نے بتایا کہ یہاں کی دو شخصیات یعنی عدنان مندریس جو دس سال تک وزیراعظم رہے اور سلال بایارCelal Bayarجو دس سال تک ترکی کے صدر اور دو سال وزیراعظم تھے' دونوں طویل حکمرانی کے بعد سزایاب ہوئے تھے۔ استنبول ہی میں مجھے سات آٹھ درجن دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان و ہونے والی سزاؤں کی تفصیل ملی۔ اکثر کو کرپشن پر سزائیں ہوئیں۔ ہمارے سابق وزیراعظم ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ اگر ان پر دس روپے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو جو چور کی سزا ہوتی ہے قبول کریں گے۔ خدا کرے کہ ان کا دعویٰ سچ نکلے۔ اگر ان کو اتنا ہی یقین ہے تو وہ صبر کریں حوصلہ کریں اور ٹرائیل مکمل ہونے کا انتظار کریں۔ مجھے یہاں ایک کارٹون یاد آتا ہے جس میں ایک شخص کو دو تین لوگ سر اور منہ پر گھونسوں کی بھر مار کر کے پیٹ رہے تھے جب کہ اس کے دوست نے مدد کے لیے اس کے دونوں بازو گھما کر پیچھے کی طرف پکڑ رکھے تھے نیچے شعر لکھا تھا کہ
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی
نادان دوستوں سے فاصلہ رکھنا ہی دانشمندی ہے اور تاریخ ہمیں سبق سکھاتی ہے۔