متبادل کا متلاشی سندھ اور جی ڈی اے

جن میں بانی ِپی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی آئینی و حکومتی اقدامات شامل ہیں



سندھ، قیام ِ پاکستان سے قبل سیاسی و انتظامی طور پر انتہائی مستحکم علاقہ تھا۔اس کے قانون ساز ادارے سندھ اسمبلی اور انتظامیہ کی برتری و خودمختاری کا یہ عالم تھا کے حکمرانِ وقت (انگریز) کے خلاف ِ دستور، پاکستان کے قیام اور اس وقت کے باغی رہنما مولانا عبیداللہ سندھی کی جلاوطنی کے خاتمے کی قراردادیںنہ صرف منظور کی گئیں بلکہ اُن پر عمل بھی کروایاگیا اورمعاشی استحکام کی یہ صورتحال تھی کہ 1940ء کے عشرہ میں برِصغیر کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو روزگار کے لیے سندھ(کراچی) آنے کی دعوت دی گئی اور اس وقت سندھ کی سیاسی بصیرت یہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح ، مولانا عبیداللہ سندھی، جی ایم سید اور سورہیہ بادشاہ صبغت اللہ شاھ پیر پگاڑہ سمیت اہم سیاسی رہنما برِصغیر و ایشیائی سیاست میں اپنا اثر رسوخ رکھتے تھے۔

بدقسمتی سے وہ سندھ آج انتظامی بے بسی،معاشی بدحالی اور سیاسی یتیمی کا شکار ہے اور اس صورتحال میں جہاں دیگر محرکات کارِفرما ہیں ان میں پیپلز پارٹی کی تقریباً 50 سالہ سیاسی،انتظامی اور معاشی پالیسیوں کا بھی بڑا عمل دخل رہاہے۔

جن میں بانی ِپی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی آئینی و حکومتی اقدامات شامل ہیں جیسے صوبائی حقوق کو تحفظ دینے والی پالیسیوں اور قانون سازی کے بغیر سندھ میں وفاقی طرز کے پروجیکٹس (اسٹیل مل اور پورٹ قاسم) کا قیام، جن کا مکمل انتظام و اختیار وفاق کو دیا گیا،جس سے وفاق کے نام پر دیگر صوبوں کے لوگ بڑی تعداد میں یہاں آکر آباد ہوئے اور انھیں یہاں پر مقامی آبادی سے زیادہ سہولیات، حقوق و اختیارات دیے گئے،جس سے دیگر صوبوں کے لوگوں کو یہاں کی مقامی آبادی پر فوقیت کے مواقع میسر ہوئے۔ کراچی تا حیدرآباد سپر ہائے وے کو وفاق کے حوالے کرنا، سندھ کو دولسانی و دو زبانوں والا صوبہ قرار دلوانا، سندھی زبان کی سرکاری حیثیت کو ختم کرنا، 1973ء کے ـ ''متفقہ'' آئین میں وسائل پر وفاقی اختیاراور ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم، اور قانون سازی کے اختیارات برابری (سینیٹ)کے بجائے آبادی کے تناسب سے قائم قانون ساز ادارے (قومی اسمبلی) کو دینا وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جو بالواسطہ اور بلا واسطہ سندھ کی صورتحال کو اس حالت پر پہنچانے کے اہم محرکات بنے، پھران محرکات میں آنے والے دیگر تمام آمرانہ و جمہوری ادوار میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

لیکن 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد توجیسے پی پی پی کو سندھ کی تباہی کا ٹھیکہ ہی مل گیا ہو، جس میں کرپشن کی انتہا کی وجہ سے صوبہ کے شہر آثارِ قدیمہ اور گندگی کے ڈھیروں کے مناظر پیش کرنے لگے۔لوگوں کو پینے کے لیے سنکھیا (زہر) ملے پانی کی فراہمی،ملکی مجموعی پیداوار کا 72 فیصد گیس پیدا کرنے کے باوجودصوبہ میں گیس کی لوڈشیڈنگ، دریائے سندھ پر سندھ کا تاریخی، شرعی و قانونی حق ہونے کے باوجود فاق کی آڑ میں پنجاب کی جانب سے کی گئی لوٹ مار کے باعث سمندر میں پانی نہ جانے کی وجہ سے ایشیا کے سب سے بڑے ڈیلٹا (انڈس ڈیلٹا) کی تباہی، سندھ کی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھنے والے شعبہ ٔ زراعت کے لیے پانی کی عدم دستیابی کے باوجود ڈیموں میں پانی روکنے کا واحد سبب بجلی کی پیداوار بتایا جارہاہے، پانی کے خلاف کوئی واضح پالیسی یا حکمتِ عملی اختیار نہ کرنا بھی پی پی پی کی حکومتِ سندھ کا صوبہ کے عوام سے دشمنی کا نمونہ ہے۔ اس کی سندھ کے حقوق، وسائل،اختیارات اور ترقی کے معاملے پر خاموشی کی وجہ سے شہیدوں کے نام پر ووٹ دینے والے صوبہ سندھ کے عوام اس پارٹی سے نالاں ہیں اور وہ پی پی پی کے متبادل کے متلاشی ہیں۔

جب کہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی صورتحال تو یوں ہے کہ 25،30 سال حکومت میں رہنے کے باوجود سندھ بھر کے عوام سے اپنا ناتا نہ جوڑ سکی ہے بلکہ اپنے ووٹرز کو بھی کوئی خاص فائدہ نہ پہنچا سکی ہے اور اب تو ان کے اپنے باورچی خانے میں ہی رولا پڑا ہوا ہے، تو وہ صوبے کے عوام کے مسائل کو کیونکر اور کیسے توجہ دے سکیں گے، حالانکہ حکومت میں ہونے کے باعث اس کا فائدہ بھی پی پی پی کو ملنے کا اندیشہ ہے جو کہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنی قبت نااندیشی کی وجہ سے یہ موقع بھی گنوا رہی ہے۔

جماعت ِ اسلامی تودو قوموں کے وجود کی ہی انکاری ہے تو ان کے حقوق کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے، ابھی تک اسلام کی ایسی تشریح کرنے پر تُلی ہوئی ہے جس میں مذہب کے نام پر ایک مقامی قوم کی حق تلفی کرکے دوسرے غیر مقامی و غیرقانونی لوگوں کو حصہ دینے کی بات جائز ہو، جیسے: برمی، بہاری اور بنگالیوں سمیت افغانوں اور دیگر غیر قانونی لوگوں کو تو سندھ میں آباد کرکے اُن کویہاں کی شہریت دیکر یہاں کے وسائل و روزگار کے مواقع میں حصہ دلانے کے لیے دھرنا تو دے رہی ہے لیکن دین ِ اسلام کی حقیقی روح کے مطابق سندھ دھرتی کے حقیقی وارثوں کے حقوق سے آنکھیں چراتی رہی ہے۔

ایسے میں لے دے کر سندھ کی سطح پر یا تو باقی مذہبی جماعتیں رہ جاتی ہیں جو کہ سندھ کے صوفیانہ و روادارانہ مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں یا پھر قوم پرست جماعتیں ہیں جن کے لیے سندھ کے لوگوں میں نصف فیصد اعتمادپایا جاتا ہے۔ لیکن اُن میں سے کچھ تو پاکستان سے مکمل علیحدگی کا نعرہ لگاکر یہاں کے انتخابی اور انتظامی ماحول سے کنارہ کش ہوکر رہ گئے ہیں، باقی کچھ ہیں جو پارلیمانی طرز ِ سیاست کے ذریعے تبدیلی چاہتی ہیں لیکن وہ کافی عرصہ سے سیاست میں ہونے کے باوجود صوبہ بھر میں ابھی تک انتخابات کے لیے اپنے امیدوارپیدا نہیں کرسکی ہیں، ہاںالبتہ اس مرتبہ کے ماحول سے لگ رہا ہے کہ سندھ یونائٹیڈ پارٹی(ایس یو پی)کچھ کام کر جائے کیونکہ اس پارٹی کے پاس صاف و شفاف کردار کی حامل قیادت بھی ہے اور یہ مندرجہ بالا معاملات سے Committed بھی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ تو بہرحال کہنا ہی پڑے گا کہ صوبہ بھر کے عوام اس سے ابھی تک مکمل طور پر آشنا نہیں ہو پائے۔

اس ساری صورتحال میں سندھ کے عوام کے لیے اس وقت جو روشنی کی کرن نظر آرہی ہے وہ مختلف جماعتوں اور سینئر سیاسی شخصیات کا اتحاد ہے جوگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے نام سے حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑہ کی سربراہی میں قائم ہوا ہے۔ اس اتحاد میںپارلیمانی سیاست کے تجربہ کار سیاستداں، تکنیکی مہارت کے حامل ریٹائرڈ بیورو کریٹس (میڈم مہتاب اکبر راشدی جیسے) اور سیاسی و حکمرانی اُمور کا تجربہ رکھنے والے ماہرین کی ٹیم موجود ہے جیسے ماضی کے تین وزرائے اعلیٰ (ارباب رحیم، سید مظفر علی شاہ اور غوث علی شاہ جوکہ سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس اور چیف اسکاؤٹ پیٹرن بھی رہے ہیں)،سابقہ وزراء (سابقہ وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی اور سابقہ وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا)اوردیگران میں نوجوان قوم پرست رہنما ایاز لطیف پلیجو بھی شامل ہیں جوایک اچھے قانون دان بھی ہیں اور وہ حالات و ماحول کے مطابق اپنا اور اپنی جماعت و صوبہ کا موقف بڑے ہی جاندار دلائل کے ساتھ رکھنے کے حوالے سے اپنا لوہا ملکی سطح پر منوا چکے ہیں۔

جی ڈی اے نے حال ہی میں 3 بڑے جلسے کیے ہیں جن میں پچھلے ہفتے مورو میں ہونیوالے جلسے کو سندھ کے بڑے سیاسی جلسوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان جلسوں میں لاکھوں لوگوں کی شرکت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے نہ صرف خائف ہیں بلکہ متبادل کے طور پر انتخابی عمل کے ذریعے سے مقابلہ کرنے کے خواہش مند اِس اتحاد (جی ڈی اے) کو پسند بھی کرنے لگے ہیں اِن جلسوں میں جی ڈی اے کے رہنماؤں نے پی پی پی کی 10سالہ کارکردگی پر تکنیکی و فنی مہارت سے نکتہ چینی کرتے ہوئے پی پی پی کو کھل کر آڑے ہاتھوں لیا۔

حالانکہ نام نہاد قومی میڈیا نے جی ڈی اے کے جلسوں کو مناسب کوریج نہیں دی لیکن اس کی جزوی اور سندھی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی بھرپور رپورٹنگ اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ہونے والے ذکر اور تبصروں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جی ڈی اے، سندھ کے پارلیمانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں ایک بڑا پتھر بن کر گرا ہے جس نے تالاب میں طلاطم پیدا کردیا ہے، یہاں تک کہ اس تالاب کا مگر مچھ کہلانے والی جماعت پی پی پی کو بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن جی ڈی اے کو اپنے اتحاد کو وسیع کرنا ہوگا خصوصاً اردو آبادی کے معروف و متحرک کردار کے حامل لوگوں (جو کہ ابھی تک اس اتحاد میں نظر نہیں آرہے) کو بھی اپنے اس اتحاد میںشامل کرنا ہوگا ورنہ یہ اتحاد صوبہ کی صرف ایک آبادی (سندھی بولنے والوں) کا اتحاد سمجھا جائے گا اور کچھ نشستیں جیت کر وہ سندھ میں تیسرے نمبر کا گروہ کہلائے گا اور ماضی کے دیگر اتحادوں و جماعتوںکی طرح صوبائی حکومتی میوزک چیئر گیم کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔

جی ڈی اے یوں تو ابتدائی طور پر اپنی بڑی حریف جماعت پی پی پی کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن بناچکا ہے لیکن انتخابی عمل کے باقاعدہ آغاز کے بعد کے مراحل کے دوران ہی پتہ چلے گا کہ وہ سندھ کے عوام کے لیے بہتر متبادل بننے کی قابلیت کا حامل ہے یا نہیں۔ اس کے پاس سندھ کے مندرجہ بالا مسائل کے حل کے لیے کیا پروگرام ہے بالخصوص وفاق سے پانی کا مناسب حصہ لینے ، وسائل پر صوبائی اختیار (جوکہ قائد اعظم کا وعدہ تھا) اور سیاسی، ثقافتی،معاشرتی، معاشی اور انتظامی اختیارات اور اُن کے بہتر استعمال کے لیے اپنے انتخابی منشور (Manifesto) میں کس حکمت عملی کا اعلان کیا جاتا ہے کیونکہ سندھ کے لوگ خصوصا ً نوجوان اب چاہتے ہیں کہ صرف چہرے نہیں نظام اور حالات بھی تبدیل ہونے چاہئیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں