خدارا ملک کا خیال کریں
پاناما کا فیصلہ آگیا اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر میاں صاحب کو چلتا کردیا گیا۔
نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد حکومت تو ضرور کمزور ہوئی مگر وہ خود روز بروز مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بات اب وہ لوگ بھی مان رہے ہیں جو پہلے یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ میاں صاحب اپنے عہدے سے ہٹنے کے بعد بے آواز اور بے توقیر ہوکر گھر بیٹھ جائیںگے۔ میاں صاحب کو ہٹانے کے لیے عمران خان اور شیخ رشید نے ملک بھر میں وہ طوفانی مہم چلائی کہ پورا ملک ہی ان کی بات پر دھیان دینے لگا۔
حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے پہلے میاں صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کا شوشا چھوڑا گیا مگر اس مہم جوئی میں ناکامی ہوئی۔ پھر ہر ضمنی الیکشن میں میاں صاحب کی جیت ہوتی رہی اگر وہ دھاندلی سے جیتے ہوتے تو کہیں نہ کہیں ضرور ہار ہوتی مگر مسلسل شکستوں سے بھی ہمت شکنی نہیں ہوئی پھر طویل دھرنا دیا گیا اور انگلی اٹھاکر جمہوریت کو آزمائش میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تاہم جمہوریت اپنی جگہ قائم رہی اور یہ سراسر پاکستانی عوام کی جیت تھی۔
اس کے بعد پاناما کا فیصلہ آگیا اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر میاں صاحب کو چلتا کردیا گیا۔ مقدمہ تو پاناما کا تھا مگر فیصلہ اقامہ پر ہوا اور وہ بھی نہایت کمزور تھا۔ یہ بات پہلے قانونی ماہرین اور میاں صاحب کے چاہنے والے کہتے تھے، اب خود عمران خان نے تسلیم کرلیا ہے کہ عدلیہ کے کمزور فیصلے کی وجہ سے نواز شریف کو فائدہ ہوا اور اسی لیے وہ فیصلے کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ابھی تک میاں صاحب پر کرپشن، چوری یا ڈکیتی کا کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے مگر ان کے مخالفین انھیں دھڑلے سے چور، ڈاکو اور کرپٹ سیاست دان قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ جج صاحبان ایسے ریمارکس دینے سے انکار کررہے ہیں اور ان کے خلاف فیصلے میں بھی انھیں گاڈ فادر اور سسلین جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ چور، ڈاکو اور کرپٹ ابھی ثابت نہیں ہوئے تو مخالفین ان پر ایسے الزامات کیوں لگارہے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت پر ہمیشہ ہی برا وقت منڈلاتا رہا ہے۔ جمہوریت آتی جاتی رہی مگر آمروں کی حکومتیں طویل مدت پوری کرتی رہیں اور ان پر کبھی کسی عدالت نے الزام نہیں لگایا جب کہ اب خبریں آرہی ہیں کہ پرویز مشرف کے دبئی اور دیگر ملکوں میں کئی کئی بینک اکاؤنٹس ہیں۔ وہ باہر عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ ان پر ملک کے آئین کو توڑنے کا بھی الزام ہے۔ ایسے حالات میں ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے اور غربت اور جہالت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے یعنی سب سے یکساں انصاف نہیں کیا جاتا عوام کی بے چینی کو دور نہیں کیا جاسکتا ساتھ ہی ملک میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔
ہمارے ملک میں یہ رجحان ایک وتیرہ بن چکا ہے کہ آمروں کے دور میں عدلیہ ان کی مرضی پر چلتی ہے مگر جمہوری حکومتوں کو وہ اپنی مرضی سے چلانا چاہتی ہے۔ اس سے ملک کا نقصان ہورہاہے اور عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہاہے۔ اس بات کو ملکی ہی نہیں غیر ملکی دانشور بھی تسلیم کررہے ہیں کہ حکومت گرنے سے ملک کمزور ہوا ہے۔ شاید اسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ملک کی غیروں کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ ٹرمپ نے دل کھول کر ملک کو بے عزت کیا ہے اور ہمارے دشمن کے حوصلے اب انتہا کو پہنچ چکے ہیں وہ کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتا ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک بھارتی خواہش پر ہم پر مالی پابندیاں لگانے پر مصر ہیں۔ ایک مضبوط جمہوری ملک کو کسی بھی صورت اس طرح بے توقیر نہیں کیا جاسکتا مگر ہماری جمہوریت تو اتنی کمزور ہے کہ ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اسے پٹڑی سے اتاردیتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں کچھ ایسے سیاست دان بھی ہیں جو ہر وقت جمہوریت کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔
وہ شاید جمہوریت سے زیادہ آمرانہ نظام میں خوش رہتے ہیں اس لیے کہ انھیں اس نظام میں اعلیٰ عہدے اور مالی فوائد کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔ اس وقت ملک بہت ہی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں۔ عدلیہ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین پر عمل کرنے کی پابند ہے لیکن عدلیہ نے پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو رد کرنے کا جواز رکھتی ہے وہ یہ جانچ پڑتال کر سکتی ہے کہ کوئی قانون کس ماحول میں بنایاگیا اور اس کے بنانے کے پس پشت نیت کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے میاں صاحب کے پارٹی سربراہ بنائے جانے کے خلاف فیصلہ دیا ہے، گو کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دو دن پہلے ہی بیان دے چکے تھے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں اور پارلیمنٹ کے بنائے کسی قانون کو رد کرنا قبول نہیں کیا جائے گا، مگر اس وقت بھی عدلیہ کے موڈ سے لگتا تھا کہ وہ میاں صاحب کے پارٹی کا سربراہ بننے کے خلاف جاسکتی ہے اور متعلقہ پارلیمانی قانون کو چیلنج کرسکتی ہے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بات ملک کے لیے انتہائی خرابی کا باعث بنے گی ان کے مخالفین ضرور انھیں چور ڈاکو اور گاڈ فادر کہہ رہے ہیں مگر عوام ہر انتخاب میں انھیں جتارہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام تو انھیں ابھی بھی مانتے ہیں۔ چنانچہ عدلیہ کو میاں صاحب کو ان کے حریفوں کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے یہی بات تو وزیراعظم بھی کہہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے حال ہی میں کہا ہے کہ میاں صاحب کے کیس میں عدلیہ کی جانب سے جو باتیں کہی جاتی ہیں میڈیا ان عدالتی آبزر ویشن کو سیاق و سباق سے ہٹاکر چلادیتا ہے پھر اس پر جواب آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا میڈیا اس اہم کیس میں گہری دلچسپی لے رہا ہے، یہ اس کی مجبوری بھی ہے، کیونکہ ہر شخص اس کیس کی تازہ خبر سننا چاہتا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس کیس کے ذریعے ایک چلتی چلتی حکومت گرچکی ہے۔ مبصرین کا کہناہے کہ ایسے ریمارکس ہی کیوں دیے جائیں کہ جن کا جواب آئے، در اصل احتیاط نہ برتنے کی وجہ سے دوسری طرف سے فائدہ اٹھاکر جج صاحبان کے بغض کی بات کہی جارہی ہے۔
دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف جو کوئی بھی درخواست دے رہا ہے اسے شرف قبولیت بخشی جارہی ہے جب کہ میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کی ہر درخواست کو رد کردیا جاتا ہے۔ در اصل یہ باتیں انھیں عوام میں مظلوم بنارہی ہیں اور ان کی مقبولیت بڑھارہی ہیں۔ اس مقدمے کے سلسلے میں ملک کے نامور قانون دان علی کرد کہتے ہیں ''پاناما کے فیصلے کے بعد سے ن لیگ کی قیادت کا لہجہ دن بدن جارحانہ ہوتا جارہا ہے مگر اس رویے کا مواد انھیں در اصل سپریم کورٹ روم نمبر ون سے مل رہا ہے۔ سپریم کورٹ سیاسی معاملات کو ڈیل کرنے میں لگ گئی جو درست نہیں ہے۔ عدلیہ پرتنقید کا نقصان سیاسی جماعتوں کو نہیں سپریم کورٹ کو ہوگا۔ سب کے سامنے عدالتی ریمارکس آنے کے بعد وضاحت کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اس وقت یہ صورتحال ہے کہ وکیل اپنے دلائل دینا شروع نہیں کرتے کہ جج صاحبان کی جانب سے ریمارکس آنا شروع ہوجاتے ہیں جب سپریم کورٹ ریمارکس دے گی تو فریقین کی جانب سے جواب کا حق بنتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو عزت دی جائے گی تو عدلیہ کی عزت پر کیسے حرف آسکتا ہے''۔
بہر حال بات بہت آگے بڑھ چکی ہے ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ عدلیہ اور میاں صاحب احتیاط سے کام لیں اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ عدلیہ حریف پارٹی کی حمایت کے تاثر کو ختم کرے کیونکہ در اصل یہی عنصر دوسری جانب اشتعال انگیزی کا سبب بن رہا ہے ساتھ ہی عمران خان اور ان کے دوستوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا جواز عدلیہ کا طرف دار بننے سے گریز کریں کیونکہ اس سے عدلیہ کے لیے مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ ان حالات میں عوام حکومت، عدلیہ اور حزب اختلاف سے صرف ایک ہی درخواست کررہے ہیں کہ خدارا ملک کا خیال کریں۔
حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے پہلے میاں صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کا شوشا چھوڑا گیا مگر اس مہم جوئی میں ناکامی ہوئی۔ پھر ہر ضمنی الیکشن میں میاں صاحب کی جیت ہوتی رہی اگر وہ دھاندلی سے جیتے ہوتے تو کہیں نہ کہیں ضرور ہار ہوتی مگر مسلسل شکستوں سے بھی ہمت شکنی نہیں ہوئی پھر طویل دھرنا دیا گیا اور انگلی اٹھاکر جمہوریت کو آزمائش میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تاہم جمہوریت اپنی جگہ قائم رہی اور یہ سراسر پاکستانی عوام کی جیت تھی۔
اس کے بعد پاناما کا فیصلہ آگیا اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر میاں صاحب کو چلتا کردیا گیا۔ مقدمہ تو پاناما کا تھا مگر فیصلہ اقامہ پر ہوا اور وہ بھی نہایت کمزور تھا۔ یہ بات پہلے قانونی ماہرین اور میاں صاحب کے چاہنے والے کہتے تھے، اب خود عمران خان نے تسلیم کرلیا ہے کہ عدلیہ کے کمزور فیصلے کی وجہ سے نواز شریف کو فائدہ ہوا اور اسی لیے وہ فیصلے کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ابھی تک میاں صاحب پر کرپشن، چوری یا ڈکیتی کا کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے مگر ان کے مخالفین انھیں دھڑلے سے چور، ڈاکو اور کرپٹ سیاست دان قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ جج صاحبان ایسے ریمارکس دینے سے انکار کررہے ہیں اور ان کے خلاف فیصلے میں بھی انھیں گاڈ فادر اور سسلین جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ چور، ڈاکو اور کرپٹ ابھی ثابت نہیں ہوئے تو مخالفین ان پر ایسے الزامات کیوں لگارہے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت پر ہمیشہ ہی برا وقت منڈلاتا رہا ہے۔ جمہوریت آتی جاتی رہی مگر آمروں کی حکومتیں طویل مدت پوری کرتی رہیں اور ان پر کبھی کسی عدالت نے الزام نہیں لگایا جب کہ اب خبریں آرہی ہیں کہ پرویز مشرف کے دبئی اور دیگر ملکوں میں کئی کئی بینک اکاؤنٹس ہیں۔ وہ باہر عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ ان پر ملک کے آئین کو توڑنے کا بھی الزام ہے۔ ایسے حالات میں ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے اور غربت اور جہالت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے یعنی سب سے یکساں انصاف نہیں کیا جاتا عوام کی بے چینی کو دور نہیں کیا جاسکتا ساتھ ہی ملک میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔
ہمارے ملک میں یہ رجحان ایک وتیرہ بن چکا ہے کہ آمروں کے دور میں عدلیہ ان کی مرضی پر چلتی ہے مگر جمہوری حکومتوں کو وہ اپنی مرضی سے چلانا چاہتی ہے۔ اس سے ملک کا نقصان ہورہاہے اور عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہاہے۔ اس بات کو ملکی ہی نہیں غیر ملکی دانشور بھی تسلیم کررہے ہیں کہ حکومت گرنے سے ملک کمزور ہوا ہے۔ شاید اسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ملک کی غیروں کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ ٹرمپ نے دل کھول کر ملک کو بے عزت کیا ہے اور ہمارے دشمن کے حوصلے اب انتہا کو پہنچ چکے ہیں وہ کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتا ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک بھارتی خواہش پر ہم پر مالی پابندیاں لگانے پر مصر ہیں۔ ایک مضبوط جمہوری ملک کو کسی بھی صورت اس طرح بے توقیر نہیں کیا جاسکتا مگر ہماری جمہوریت تو اتنی کمزور ہے کہ ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اسے پٹڑی سے اتاردیتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں کچھ ایسے سیاست دان بھی ہیں جو ہر وقت جمہوریت کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔
وہ شاید جمہوریت سے زیادہ آمرانہ نظام میں خوش رہتے ہیں اس لیے کہ انھیں اس نظام میں اعلیٰ عہدے اور مالی فوائد کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔ اس وقت ملک بہت ہی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں۔ عدلیہ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین پر عمل کرنے کی پابند ہے لیکن عدلیہ نے پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو رد کرنے کا جواز رکھتی ہے وہ یہ جانچ پڑتال کر سکتی ہے کہ کوئی قانون کس ماحول میں بنایاگیا اور اس کے بنانے کے پس پشت نیت کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے میاں صاحب کے پارٹی سربراہ بنائے جانے کے خلاف فیصلہ دیا ہے، گو کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دو دن پہلے ہی بیان دے چکے تھے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں اور پارلیمنٹ کے بنائے کسی قانون کو رد کرنا قبول نہیں کیا جائے گا، مگر اس وقت بھی عدلیہ کے موڈ سے لگتا تھا کہ وہ میاں صاحب کے پارٹی کا سربراہ بننے کے خلاف جاسکتی ہے اور متعلقہ پارلیمانی قانون کو چیلنج کرسکتی ہے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بات ملک کے لیے انتہائی خرابی کا باعث بنے گی ان کے مخالفین ضرور انھیں چور ڈاکو اور گاڈ فادر کہہ رہے ہیں مگر عوام ہر انتخاب میں انھیں جتارہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام تو انھیں ابھی بھی مانتے ہیں۔ چنانچہ عدلیہ کو میاں صاحب کو ان کے حریفوں کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے یہی بات تو وزیراعظم بھی کہہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے حال ہی میں کہا ہے کہ میاں صاحب کے کیس میں عدلیہ کی جانب سے جو باتیں کہی جاتی ہیں میڈیا ان عدالتی آبزر ویشن کو سیاق و سباق سے ہٹاکر چلادیتا ہے پھر اس پر جواب آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا میڈیا اس اہم کیس میں گہری دلچسپی لے رہا ہے، یہ اس کی مجبوری بھی ہے، کیونکہ ہر شخص اس کیس کی تازہ خبر سننا چاہتا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس کیس کے ذریعے ایک چلتی چلتی حکومت گرچکی ہے۔ مبصرین کا کہناہے کہ ایسے ریمارکس ہی کیوں دیے جائیں کہ جن کا جواب آئے، در اصل احتیاط نہ برتنے کی وجہ سے دوسری طرف سے فائدہ اٹھاکر جج صاحبان کے بغض کی بات کہی جارہی ہے۔
دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف جو کوئی بھی درخواست دے رہا ہے اسے شرف قبولیت بخشی جارہی ہے جب کہ میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کی ہر درخواست کو رد کردیا جاتا ہے۔ در اصل یہ باتیں انھیں عوام میں مظلوم بنارہی ہیں اور ان کی مقبولیت بڑھارہی ہیں۔ اس مقدمے کے سلسلے میں ملک کے نامور قانون دان علی کرد کہتے ہیں ''پاناما کے فیصلے کے بعد سے ن لیگ کی قیادت کا لہجہ دن بدن جارحانہ ہوتا جارہا ہے مگر اس رویے کا مواد انھیں در اصل سپریم کورٹ روم نمبر ون سے مل رہا ہے۔ سپریم کورٹ سیاسی معاملات کو ڈیل کرنے میں لگ گئی جو درست نہیں ہے۔ عدلیہ پرتنقید کا نقصان سیاسی جماعتوں کو نہیں سپریم کورٹ کو ہوگا۔ سب کے سامنے عدالتی ریمارکس آنے کے بعد وضاحت کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اس وقت یہ صورتحال ہے کہ وکیل اپنے دلائل دینا شروع نہیں کرتے کہ جج صاحبان کی جانب سے ریمارکس آنا شروع ہوجاتے ہیں جب سپریم کورٹ ریمارکس دے گی تو فریقین کی جانب سے جواب کا حق بنتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو عزت دی جائے گی تو عدلیہ کی عزت پر کیسے حرف آسکتا ہے''۔
بہر حال بات بہت آگے بڑھ چکی ہے ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ عدلیہ اور میاں صاحب احتیاط سے کام لیں اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ عدلیہ حریف پارٹی کی حمایت کے تاثر کو ختم کرے کیونکہ در اصل یہی عنصر دوسری جانب اشتعال انگیزی کا سبب بن رہا ہے ساتھ ہی عمران خان اور ان کے دوستوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا جواز عدلیہ کا طرف دار بننے سے گریز کریں کیونکہ اس سے عدلیہ کے لیے مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ ان حالات میں عوام حکومت، عدلیہ اور حزب اختلاف سے صرف ایک ہی درخواست کررہے ہیں کہ خدارا ملک کا خیال کریں۔