آخر یہ آگ کب ٹھنڈی ہوگی دو قبائل کی دشمنی 9 افراد کو نگل گئی

یارو خیل اور کلو گروپ کے درمیان راستے سے گزرنے پر تنازع پیدا ہوا تھا


ندیم خان February 25, 2018
یارو خیل اور کلو گروپ کے درمیان راستے سے گزرنے پر تنازع پیدا ہوا تھا: فوٹو : فائل

برصغیر پاک وہند میں انگریز حکومت کے تقریباً دو سو سال کے دوران اس خطے کے مکینوں کی نفسیات شدید طور پر متاثر ہوئیں، غلامی، غربت،کم مائیگی اور ذلالت کی اذیت سہتے سہتے لوگوں کے رویوں سے جہاں شائستگی، پیار، محبت اور خلوص کا خاتمہ ہوا، وہاں ان کی نفسیات میں حرص اور ہوس نے بھی اپنا خوب اثر دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ستر برس گزر جانے کے باوجود ہمارا معاشرہ متعدل نہیں ہو سکا، یہاں ذرا ذرا سی بات پر قتل وغارت اور خون کی ندیاں بہا دینا معمول بن چکا ہے۔ راہ چلتے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال لی جاتی ہے۔ اختلاف رائے کو تو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو ذاتی دشمن سمجھ لیا جاتا ہے۔

قبل از اسلام کے حالات کے مطابق آج بھی ذرا ذرا سی بات پر قبائل کے درمیان سالوں تک دشمنی کی آگ جلائی جاتی ہے، جس میں سینکڑوں خواتین بیوہ، بچے یتیم اور گھبرو جوان موت کی وادی میں جا سوتے ہیں، لیکن خون کی اس ہولی کا کھیل مسلسل جاری ہے۔ ایسی دشمنی کی ایک داستان مظفر پور (میانوالی) کے دو قبائل یارو خیل اور کلو کی ہے جس میں اس وقت تک نو افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی نہیں جو نفرت اور غصے کی اس آگ کو ٹھنڈا کر سکے۔ مظفر پور کے دو خاندانوں یارو خیل اور کلو کندی برادری میں دشمنی کا آغاز ڈیڑھ سال قبل سولہ مئی 2015ء کو راستے سے گزرنے کے معمولی تنازع پر ہوا تھا جس میں دونوں اطراف سے فائرنگ کے تبادلہ میں یارو خیل برادری کے چار افراد اشرف خان ، اصغر خان، زمان خان، شیر عباس جبکہ کلو برادری کا سرپرست محمد لطیف مارے گئے تھے، جس پر دونوں برادریوں کی طرف سے دشمنی کی وہ آگ بھڑکی جو آج تک بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

یارو خیل برادری کی طرف سے مخالفین سے بدلہ لینے کے لئے متعدد حملے کئے گئے۔ دونوں کے درمیان قتل کے مقدمات کے کیس چلنا شروع ہو گئے ۔ کچھ عرصہ قبل کلوگروپ کے افراد عدالت میں تاریخ پیشی بھگتنے کے لئے جارہے تھے کہ ٹرک اڈا میانوالی میں یاروخیل قبیلہ کے افراد جو گھات لگائے بیٹھے تھے نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں کلوگروپ کے محمد نعمان ولد غلام محمد ساکن واں بھچراں اور محمد مہران ولد خان محمد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ راہگیر فدا محمد ولد تاج محمد ، عطا رسول ولد عثمان ، محمد اسلم' غلام محمد' فتح محمد' موسیٰ کلیم' طارق عزیز اور عبدالحفیظ زخمی ہو گئے۔

جن کو طبی امداد کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی پہنچایا گیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فدا محمد ولد تاج محمد اور عطا رسول ولد عثمان زندگی کی بازی ہار گئے۔ واردات کے بعد ملزمان اسلحہ لہراتے ہوئے موقع سے آسانی کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ واردات کے بعد علاقہ میں خوف وہراس پھیل گیا جبکہ اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعشوں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔ اس سلسلہ میں آر پی او سرگودھا ڈاکٹر اختر عباس نے اس اندوہناک واردات کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے کر ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ بعد ازاں ڈی پی او صادق علی ڈوگر نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا۔

دو قبائل کی دشمنی میں دو بے گناہ شہریوں کے قتل کا ذمہ دار کون ہوگا؟ مقتول فدا محمد ولد تاج محمد اور عطا رسول ولد عثمان کو آخر کس جرم کی سزا دی گئی؟ دونوں طرف سے لوگوں کے بچے یتیم ہو گئے، عورتیں بیوہ ہو گئیں، ماؤں کی گود اجڑ گئی اور بہنیں بھائیوں کی شفقت اور محبت سے محروم ہو گئیں۔آخر ان کا مجرم کون ہے اور کون ایسے مجرموں کو سزا دے گا جو اپنی دشمنی کی آگ میں بے گناہوں کو جلا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔