افغان فورسز طالبان حملے روکنے میں ناکام
پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی اصل بنیاد افغانستان میں ہے
افغانستان میں طالبان کے تازہ حملوں میں 27 افغان فوجی ہلاک ہوگئے۔ ترجمان افغان وزارتِ داخلہ نجیب دانش نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا حملہ مغربی صوبے فراح کے ضلع بالابلوک میں کیا گیا جہاں طالبان نے ایک فوجی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا۔ طالبان اور افغان فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ صبح تک جاری رہا اور اس خونریز مقابلے میں 22 افغان فوجی ہلاک ہوگئے۔
طالبان فرار ہوتے ہوئے سرکاری اسلحہ اور گاڑیاں ساتھ لے گئے۔ دارالحکومت کابل کے علاقے شش درک میں بھی ایک خود کش حملے میں 3اہلکار ہلاک اور 5زخمی ہوگئے۔ قریب ہی نیٹو ہیڈ کوارٹرز، امریکی سفارتخانہ، ملکی خفیہ ادارے کا دفتر اور دیگر ممالک و بین الاقوامی اداروں کے دفاتر ہیں۔
تیسرا حملہ صوبہ ہلمند کے ضلع نادِعلی میں ایک فوجی اڈے کے قریب کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کے مطابق حملہ آور کو گولی مار دی گئی تاہم حملہ آور نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی فوجی اڈے کے مرکزی گیٹ پر اڑا دی جس کے نتیجے میں 2 افغان فوجی ہلاک اور سات زخمی ہوگئے۔ طالبان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ وہ فوجی تنصیبات اور کابل میں اہم جگہوں کو نشانہ بنا کر بڑے پیمانے پر نقصانات پہنچا رہے ہیں' یہ حملے اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک بڑی قوت کے طور پر موجود اور وقتاً فوقتاً حملوں سے اپنی اس قوت کا بھرپور اظہار کر کے حکومت کے لیے خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس امریکی اور نیٹو افواج کے علاوہ ان کی تربیت یافتہ 3لاکھ افغان فورسز بھی موجود ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ ملک کے ایک بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے جو ان کی تقویت کا منبع ہے جہاں سے وہ قوت پا کر امریکی اور افغان فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
امریکا نے افغان جنگ کے دوران انتہائی مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا یہاں تک کہ ڈیزی کٹر اور مدر آف آل بمز کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ پورے افغانستان پر اپنا قبضہ نہیں جما سکا اور اس وقت کابل اور اس کے گردونواح کے ایک مخصوص علاقے تک اس کی حکومت محدود ہے جو طالبان کے حملوں سے بھی محفوظ نہیں۔
اس پیچیدہ صورتحال کے تناظر میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ افغان فورسز میں دہشت گردوں کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں ہے' عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کہا کہ پاک فوج بہت باصلاحیت ہے اس نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیے' بدقسمتی سے پاک افغان سرحد پر افغانستان کی طرف حالات مختلف ہیں' پاک افغان سرحد پر مستقل امن کے لیے افغانستان کو بھی کامیاب کوششیں کرنا ہوں گی۔
پاکستان نے جس عزم اور ولولے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر کے کامیابیاں سمیٹیں وہ پوری دنیا کے لیے بے نظیر اور قابل تقلید مثال ہے اور پوری دنیا پاک فوج کی صلاحیتوں اور جذبے کی معترف ہو چکی ہے۔
افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی اور طالبان کے کابل اور دیگر صوبوں کے اندر موثر حملے امریکی اور افغان حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں' حیرت انگیز امر ہے کہ اپنی اس ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق وہ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتی ہیں۔
پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی اصل بنیاد افغانستان میں ہے جب تک وہاں موجود اس نقص کو دور نہیں کیا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو گی اور طالبان کے حملے یونہی جاری رہیں گے۔ افغان حکومت اپنے ملک کی صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور قیام امن کے لیے خلوص نیت سے کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ کچھ ہی عرصے میں افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔
پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے عالمی سطح پر بھرپور کوششیں کر رہا اور اس کی ان کوششوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ وہ افغان اور امریکی حکومت پر یہ واضح کر چکا ہے کہ جنگ کے بجائے طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے مگر وہ پاکستان کی اس پیشکش کو سمجھنے کے بجائے طاقت کے زعم میں جنگی راستہ اپنائے ہوئے ہیں جس کا انھیں طالبان کے حملوں کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ افغان حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں یا وہ طالبان سے نمٹنے کے لیے اپنے اندر صلاحیت پیدا کرے یا پھر مذاکرات کا راستہ اپنائے۔
طالبان فرار ہوتے ہوئے سرکاری اسلحہ اور گاڑیاں ساتھ لے گئے۔ دارالحکومت کابل کے علاقے شش درک میں بھی ایک خود کش حملے میں 3اہلکار ہلاک اور 5زخمی ہوگئے۔ قریب ہی نیٹو ہیڈ کوارٹرز، امریکی سفارتخانہ، ملکی خفیہ ادارے کا دفتر اور دیگر ممالک و بین الاقوامی اداروں کے دفاتر ہیں۔
تیسرا حملہ صوبہ ہلمند کے ضلع نادِعلی میں ایک فوجی اڈے کے قریب کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کے مطابق حملہ آور کو گولی مار دی گئی تاہم حملہ آور نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی فوجی اڈے کے مرکزی گیٹ پر اڑا دی جس کے نتیجے میں 2 افغان فوجی ہلاک اور سات زخمی ہوگئے۔ طالبان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ وہ فوجی تنصیبات اور کابل میں اہم جگہوں کو نشانہ بنا کر بڑے پیمانے پر نقصانات پہنچا رہے ہیں' یہ حملے اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک بڑی قوت کے طور پر موجود اور وقتاً فوقتاً حملوں سے اپنی اس قوت کا بھرپور اظہار کر کے حکومت کے لیے خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس امریکی اور نیٹو افواج کے علاوہ ان کی تربیت یافتہ 3لاکھ افغان فورسز بھی موجود ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ ملک کے ایک بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے جو ان کی تقویت کا منبع ہے جہاں سے وہ قوت پا کر امریکی اور افغان فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
امریکا نے افغان جنگ کے دوران انتہائی مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا یہاں تک کہ ڈیزی کٹر اور مدر آف آل بمز کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ پورے افغانستان پر اپنا قبضہ نہیں جما سکا اور اس وقت کابل اور اس کے گردونواح کے ایک مخصوص علاقے تک اس کی حکومت محدود ہے جو طالبان کے حملوں سے بھی محفوظ نہیں۔
اس پیچیدہ صورتحال کے تناظر میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ افغان فورسز میں دہشت گردوں کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں ہے' عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کہا کہ پاک فوج بہت باصلاحیت ہے اس نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیے' بدقسمتی سے پاک افغان سرحد پر افغانستان کی طرف حالات مختلف ہیں' پاک افغان سرحد پر مستقل امن کے لیے افغانستان کو بھی کامیاب کوششیں کرنا ہوں گی۔
پاکستان نے جس عزم اور ولولے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر کے کامیابیاں سمیٹیں وہ پوری دنیا کے لیے بے نظیر اور قابل تقلید مثال ہے اور پوری دنیا پاک فوج کی صلاحیتوں اور جذبے کی معترف ہو چکی ہے۔
افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی اور طالبان کے کابل اور دیگر صوبوں کے اندر موثر حملے امریکی اور افغان حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں' حیرت انگیز امر ہے کہ اپنی اس ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق وہ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتی ہیں۔
پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی اصل بنیاد افغانستان میں ہے جب تک وہاں موجود اس نقص کو دور نہیں کیا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو گی اور طالبان کے حملے یونہی جاری رہیں گے۔ افغان حکومت اپنے ملک کی صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور قیام امن کے لیے خلوص نیت سے کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ کچھ ہی عرصے میں افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔
پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے عالمی سطح پر بھرپور کوششیں کر رہا اور اس کی ان کوششوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ وہ افغان اور امریکی حکومت پر یہ واضح کر چکا ہے کہ جنگ کے بجائے طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے مگر وہ پاکستان کی اس پیشکش کو سمجھنے کے بجائے طاقت کے زعم میں جنگی راستہ اپنائے ہوئے ہیں جس کا انھیں طالبان کے حملوں کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ افغان حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں یا وہ طالبان سے نمٹنے کے لیے اپنے اندر صلاحیت پیدا کرے یا پھر مذاکرات کا راستہ اپنائے۔