علامہ عمر بن داؤد پوتہ

سندھی زبان میں تنقیدی مواد بہت کم ملتا ہے مگر عمر نے اس پر کافی کام کیا تھا۔


لیاقت راجپر February 26, 2018

عمر بن داؤد پوتہ جسے شمس العلما کا خطاب دیا گیا، وہ ضلع دادو کے ایک چھوٹے گاؤں ٹلٹی میں 1 جون 1897 میں (کہیں لکھا ہوا ہے کہ وہ 25 مارچ1896 میں) پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور مڈل تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مدرسہ ہائی اسکول لاڑکانہ میں 1914 میں داخلہ لے لیا۔

اس کے بعد وہ مدرسہ اسکول نوشہروفیروز گئے، وہاں بھی کچھ تعلیم حاصل کی اور بعد میں انھوں نے میٹرک کا امتحان سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے 1917 میں پاس کیا۔ اس امتحان میں وہ پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انھیں Exhibition پرائز سے نوازا گیا۔

کراچی میں سندھ مدرسہ میں وہ اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہاسٹل کی چارپائیاں بنتے تھے اور باقی فارغ وقت میں وہ بک بائنڈنگ کا کام کرتے۔ رات کو بڑے لوگوں کے بچے ان سے ٹیوشن پڑھتے اور کچھ معاوضہ دیتے تھے، جس میں سے وہ کچھ رقم اپنے والد کو بھی بھیجتے تھے۔ اس طرح سے انھوں نے ڈی جے کالج کراچی سے 1921 میں بی اے کا امتحان فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا اور پورے سندھ میں اول نمبر پر آئے۔ انھیں حکومت کی طرف سے اس وقت 60 روپے ڈکشن فیلوشپ دی جاتی تھی۔

1923 میں انھوں نے ایم اے کا امتحان فرسٹ پوزیشن سے بمبئی یونیورسٹی سے پاس کیا اور پوری یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی، جس کی وجہ سے انھیں چانسلر میڈل دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں لندن ہائر ایجوکیشن کے لیے بھیجا گیا، جس کے لیے اسکالرشپ دی گئی۔

اپنے گاؤں ٹلٹی سے انھوں نے اے وی اسکول سے بھی انگریزی تعلیم حاصل کی تھی اور انھوں نے پورے اسکول میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرلی۔ اس زمانے میں اسلامی تعلیم لازمی ہوتی تھی اور عمر نے قرآن پاک کی تعلیم چار مہینے میں مکمل کرلی۔ شروع میں جب ان کے پاس نوٹ بک خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے یا پھر کورس کی کتابیں نہیں لے پاتے تو وہ رف کاپیوں پر اپنے ہاتھوں سے Write کرتے۔

اب جیسے جیسے ان کی ذہانت عیاں ہونے لگی تو علمی مدارس کی انتظامیہ نے انھیں مفت کتابیں، کھانے اور رہنے کی سہولتیں مہیا کرنا شروع کردیں اور اسکالرشپ بھی دی جاتی تھی، کیونکہ وہ پوری پڑھائی والے وقت میں ہمیشہ ٹاپ کرتے تھے جو اعزاز بہت کم لوگوں کو ملا ہے۔

وہ جب مدرسہ ہائی اسکول لاڑکانہ میں داخل ہوئے تو وہاں پر زیادہ تر بڑے پیسے والے لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے، جہاں پر عمر ایک بہت ہی غریب شاگرد تھا۔ جب وہ کلاس روم میں گئے تو باقی اسٹوڈنٹس ان کے کپڑے اور جوتے دیکھ کر ہنسنے لگے اور ٹیچر نے انھیں آخری بینچ پر بٹھادیا۔ جب عمر نے کلاس میں Lesson کی Reading کی تو سارے شاگرد اور ٹیچر حیران ہوگئے اور ان کی انگریزی اور ذہانت سے متاثر ہوئے۔ سب نے مل کر ان کے لیے نئے اچھے کپڑے اور جوتے دلوائے اور ان کو ہر شاگرد اپنے ساتھ بٹھانا فخر محسوس کرنے لگا۔

ایک دن جب ضلع کے کلیکٹر اسکول میں وزٹ پر آئے اور عمر سے سوالات کیے، جو انھوں نے فوراً بتائے، جس پر کلیکٹر نے عمر کی ہر فیس معاف کردی اور انھیں ہر سہولت مفت دینے کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے اسکول کی عزت میں اضافہ ہوا۔ جب وہ مدرسہ اسکول نوشہرو فیروز میں پڑھتے تھے تو وہاں پر بھی تین روپے ماہانہ اسکالر ملتی تھی۔ وہ جہاں بھی پڑھتے تھے اسکول میں اور کلاس میں سب سے پہلے پہنچ جاتے اور اسمبلی میں بھی پورے وقت پر موجود ہوتے۔ وہ اپنے اساتذہ کی بڑی عزت کرتے تھے اور اپنی پڑھائی اور اسکول کے ساتھ مخلص رہے۔

جب وہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں پڑھتے تھے ان کے ساتھ غربت کی وجہ سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا اور خاص طور پر ہاسٹل میں غیر معیاری کھانا اور رہائش ہوتی تھی، جس کی وجہ سے وہ کافی مایوس بھی ہوجاتے تھے، انھیں لاڑکانہ اور نوشہروفیروز کے مدارس یاد آتے تھے جہاں پر اس قسم کا کوئی رویہ ان کے ساتھ نہیں برتا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ جب اس کی ذہانت انتظامیہ کے سامنے آئی تو وہ بھی ان کی عزت کرنے لگے۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ اس وقت چلنے والی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور خاص طور پر خلافت تحریک کے جلسوں میں وہ بڑی جذباتی تقریریں کرتے اور اشعار بھی پڑھتے تھے، جس سے لوگوں میں جوش و خروش میں اضافہ ہوتا تھا۔ وہ خواجہ حسن جان سرہندی کا بڑا احترام کرتے تھے، یہ پہلے سندھی تھے جنھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے چانسلر ایوارڈ حاصل کیا، جسے آج تک اور کوئی سندھی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ جب کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں داخلے کے لیے گئے تو انھیں State Fellowship ملی اور وہ پہلے سندھی تھے جس نے ڈائریکٹوریٹ ڈگری حاصل کی اور سندھ سے پہلے Ph.D کرنے والے تھے، جنھیں یہ ڈگری 1927 میں ملی۔

یہ شخص بڑا سادہ، نیک اور سخی تھا۔ انھوں نے اپنی ساری عمر علم کو فروغ دینے میں گزار دی اور کئی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے جس میں وہ ڈائریکٹوریٹ پبلک انسٹرکشن کے سربراہ تھے، جو پورے سندھ لیول پر کام کرتی تھی۔ انھوں نے بورڈ آف اسٹڈیز فار سندھی، عربی اور فارسی تشکیل دیے، جس کا خود ممبر بن کر کام کیا۔

وہ مدرسہ کرانیکل کے ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے، اس وقت کے مشہور سندھی ڈیلی الوحید میں بے تحاشا مضمون لکھے۔ جب وہ عربی اور فارسی زبان کے پروفیسر تھے تو انھوں نے ان زبانوں کی بڑی خدمت کی، جس کی وجہ سے انھیں 1928 میں بمبئی یونیورسٹی کی طرف سے فیلوشپ دی گئی جب کہ 1940 میں حکومت سندھ کی طرف سے انھیں شمس العلما کے خطاب سے نوازا گیا۔ انھوں نے کراچی میں سندھ ادبی سوسائٹی قائم کی تاکہ سندھی ادب کی خدمت ہوسکے۔

عمر سندھ کے نامور محقق، ادیب، تاریخ دان، ماہر زبان اور تعلیم دان تھے، جن کی شخصیت بین الاقوامی تھی، انھیں تعلیم اور ادب کی دنیا کی بڑی گہری معلومات تھی۔ 1923 میں انھوں نے ایک مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''عربی کی شاعری فارسی کے زیر اثر'' جس میں انھوں نے پھر پی ایچ ڈی کر ڈالی۔ وہ سندھ مدرسۃ الاسلام کے پرنسپل بھی بنے، پروفیسر عربی کے طور پر اسماعیل کالج اندھاری بمبئی بھی رہے۔ وہ 1930 میں پروفیسر بنے اور اس کالج میں 9 سال تک پڑھاتے رہے۔

انھیں ڈائریکٹر ایجوکیشن سندھ 1939 میں Appoint کیا گیا، اس کے علاوہ انھیں سندھ پبلک سروس کمیشن بنایا گیا جہاں پر وہ 1950 سے 1955 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے، جب کہ انھوں نے 1955 سے 1956 تک پاکستان پبلک سروس کمیشن بطور ممبر کام کیا۔ اس کے بعد 1956 میں سندھی ادبی بورڈ کی طرف سے کواٹرلی مہران رسالہ کے ایڈیٹر رہے، وہ فواد مصر یونیورسٹی کے ادبی بورڈ مراسل کے ممبر بنے، پاکستان، ایران کی کلچرل انجمن کے ممبر رہے، پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کے نائب صدر رہے۔

وہ 40 سال تک انگریزی، عربی، فارسی اور سندھی زبانوں میں سندھ کی تاریخ، شاعری، تنقیدی مضامین، شخصیات یا تحقیقی مقالے، مذہب اسلام، ادب، تعلیم اور سندھی زبان کی تحقیق اور فروغ شامل رہے، اس کے علاوہ سندھی زبان کے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری اور فلسفے پر بھی کام کیا تھا اور ڈاکٹر گربخشانی کو شاہ جو رسالو کو مکمل کرنے میں بھی مدد کرتے رہے، جسے وہ اس ضمن میں اپنا استاد مانتے تھے۔

سندھی زبان میں تنقیدی مواد بہت کم ملتا ہے مگر عمر نے اس پر کافی کام کیا تھا۔ ان کی تحریروں میں ہمیں کافی توازن ملتا ہے جو پڑھنے والوں کے لیے بڑا معنی خیز ہے۔ انھوں نے 28 کتابیں لکھیں جو عربی، انگریزی، سندھی اور فارسی زبانوں میں موجود ہیں۔ انھوں نے کافی کورس کی کتابیں بھی لکھی ہیں جو یونیورسٹی لیول پر پڑھائی جاتی تھیں۔ انھوں نے چچنامہ اور تاریخ معصومی کے فارسی متن کو ایڈٹ کیا تھا۔

علامہ عمر بن داؤد پوتہ اپنے فرائض نبھاتے نبھاتے 22 نومبر 1958 کو کراچی میں خدا کے پاس چلے گئے۔ جن کے جسم خاکی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے برابر دفن کیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں