ریاست حکومت اور معاشرے کا المیہ
اگر واقعی حکمران احتساب میں مخلص ہوتے تو آج ہمیں اداروں کی جانب سے یہ غیر معمولی اقدامات نہ دیکھنے کو ملتے۔
بنیادی مسئلہ عدم احتساب اور شفافیت پر مبنی نظام کا ہے۔ ریاستی نظام کے بارے میں ایک عمومی نکتہ نظر یہ موجود ہے کہ جو معاشرے احتساب اور شفافیت کے عمل کو طاقت دیے بغیر آگے بڑھتے ہیں وہ اپنی ساکھ کے بحران کا شکار رہتے ہیں۔
احتساب اور شفافیت پر مبنی نظام کی چار بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اول مضبوط سیاسی قیادت، دوئم خود مختار ادادہ جاتی نظام، سوئم احتساب کا داخلی نظام اور چہارم احتساب بلاتفریق۔لیکن پاکستان بلاتفریق احتساب کے خلاف ہے۔ اول تو پاکستان میں احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا اور اس میں تعصب، نفرت، انتقام زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیا۔جب بھی احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا گیا تو انتقام کی سیاست کا نعرہ بلند کردیا جاتا ہے۔
اگر مسئلہ خود حکومت کے اپنے احتساب کا ہو تو اسے اسٹیبلشمنٹ کی سازش سے جوڑا جاتا ہے لہذا احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسی طرح مسئلہ محض سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے ہر شعبہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو احتساب کی زد میں آتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ جب بھی احتساب پر زور دیا جاتا ہے یا اس عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو جمہوری نظام کے تسلسل کو خطرہ اور اس کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دے کر احتساب کے عمل کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔
اس دور حکومت میں پہلے پیپلز پارٹی نیب اور احتساب عدالتوں سمیت دیگر اداروں کی جانب سے احتساب کے عمل کو متنازعہ بناتی ہے، لیکن اب یہ عمل مسلم لیگ)ن(کی قیادت بڑی شدت سے پیش کررہی ہے کہ حالیہ احتساب کا عمل ان کے خلاف سازش ہے۔منطق یہ دی جارہی ہے کہ اس وقت احتساب کا عمل یکطرفہ ہے اور سارا زور شریف خاندان اور ان کی جماعت پر لگایا جارہا ہے۔ اس منطق میں وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ اور نیب سمیت دیگر اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
نیب کے حالیہ چیرمین کی تقرری حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی رضا مندی سے ہوئی تھی، مگر اب ان کے اختیارات کو محدود کرنے، سلب کرنے اور ان کو لگام ڈالنے کی باتیں کھلے عام کی جارہی ہیں۔ مگر اب جب نیب کی جانب سے احتساب کا عمل تیزی دکھا رہا ہے تو حکمران طبقات سیخ پا نظر آتا ہے۔
حکمران طبقات کی جانب سے نیب کو دھمکیاں اوران کے اختیارات کو محدود کرنے کی یہ آوازیں پہلی بار سننے کو نہیں ملی ہیں، بلکہ ماضی میں جب بھی پنجاب میں احتساب کی بات شروع کی جاتی تھی تو وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلی تک اور ان کے وفاقی وزرا لنگوٹ کس کر نیب اور احتساب کے خلاف سامنے آکر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔ احتساب کا عمل سندھ میں ہو تو درست پنجاب میں ہو تو یہ انتقامی عمل کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
پنجاب میں حالیہ دنوں میں وزیر اعلی پنجاب کے سب سے چہیتے بیوروکریٹ احد چیمہ کی گرفتاری پر جس شدت سے پنجاب کے حکمران طبقات نے شدید ردعمل دیا وہ ظاہرکرتا ہے کہ ان میں احتساب کی خوف زدگی کا عمل طاری ہے۔احد چیمہ شہباز شریف کے سب سے من پسند افسر سمجھے جاتے تھے اوریہ ہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری کے باوجود ان کو 19ویں سے بیس ویں گریڈ میں ترقی دی گئی ہے۔
احد چیمہ نے کیا کیا ہے اورکس حد تک وہ اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اس کا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے، مگر انداز سے بیوروکریسی کے ایک مخصوص گروپ نے احد چیمہ کی حمایت کی' وہ درست فیصلہ نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہمارے حکمران طبقات نے اپنی سیاسی مداخلتوں کی بنیاد پر ہمارے انتظامی ڈھانچے اور بیوروکریسی کو کافی کمزور اور خراب کیا ہے۔ لیکن یہ تاثر دینا کہ اس وقت پوری بیوروکریسی احد چیمہ یا پنجاب کے حکمرانوں کے ساتھ کھڑی ہے غلط ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم بااصول اور قانون پسند بیوروکریٹ کو ترجیح دینے کے بجائے ایسے افسروں پر اعتبار کرتے ہیں جو قواعد و ضوابط کا نہیں بلکہ حکمران طبقہ کے مفادات کو تقویت دے کر پورے نظام کو آلودہ کرتی ہے۔حالیہ نیب کی کاروائیوں اوراحد چیمہ کے مسئلہ پر ہمیں پنجاب کی بیوروکریسی واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک بڑے گروپ نے واضح کیا ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اورہمارا تعلق ریاستی نظام کی مضبوطی سے ہے۔
صوبائی مینجمنٹ سروس ایوسی ایشن پنجاب کے سیکریٹری جنرل نوید شہزاد نے اس حالیہ احتجاج کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اور ان کے بقول یہ احتجاج محض ڈی ایم جی گروپس کے کچھ افسرا ن تک محدود ہے ۔ ا ن کے بقول یہ ایک فرد کے خلاف انکوائری ہے اس کو اداہ جاتی عمل میں نہ دیکھا جائے۔
کچھ لوگوں کے بقول پنجاب میں بیوروکریسی کا ایک مخصوص طبقہ جو حکمران طبقات سے جڑا ہوا ہے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ پوری بیوروکریسی نیب کے اقدامات کے خلاف ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔صوبائی کابینہ کا جلاس احد چیمہ کی حمایت، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، گورنر پنجاب سمیت کئی حکومتی لوگوں کا احد چیمہ کی حمایت میں کھڑا ہونا اور شہر میں اس کی حمایت میں بینر لگاناحکمران طبقات میں خوف کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔
اصولاً بلاتفریق احتساب کی بحث کو آگے بڑھایا جانا چاہیے۔اگر واقعی حکمران احتساب میں مخلص ہوتے تو آج ہمیں اداروں کی جانب سے یہ غیر معمولی اقدامات نہ دیکھنے کو ملتے۔ہمیں افراد اور جماعتوں کے مقابلے میں اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور اداروں کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ ان کا عمل شفافیت اور بلاتفریق احتساب سے جڑا ہو، جس میں کسی کے خلاف تعصب کا پہلو نمایاں نہ ہو۔
احتساب اور شفافیت پر مبنی نظام کی چار بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اول مضبوط سیاسی قیادت، دوئم خود مختار ادادہ جاتی نظام، سوئم احتساب کا داخلی نظام اور چہارم احتساب بلاتفریق۔لیکن پاکستان بلاتفریق احتساب کے خلاف ہے۔ اول تو پاکستان میں احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا اور اس میں تعصب، نفرت، انتقام زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیا۔جب بھی احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا گیا تو انتقام کی سیاست کا نعرہ بلند کردیا جاتا ہے۔
اگر مسئلہ خود حکومت کے اپنے احتساب کا ہو تو اسے اسٹیبلشمنٹ کی سازش سے جوڑا جاتا ہے لہذا احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسی طرح مسئلہ محض سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے ہر شعبہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو احتساب کی زد میں آتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ جب بھی احتساب پر زور دیا جاتا ہے یا اس عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو جمہوری نظام کے تسلسل کو خطرہ اور اس کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دے کر احتساب کے عمل کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔
اس دور حکومت میں پہلے پیپلز پارٹی نیب اور احتساب عدالتوں سمیت دیگر اداروں کی جانب سے احتساب کے عمل کو متنازعہ بناتی ہے، لیکن اب یہ عمل مسلم لیگ)ن(کی قیادت بڑی شدت سے پیش کررہی ہے کہ حالیہ احتساب کا عمل ان کے خلاف سازش ہے۔منطق یہ دی جارہی ہے کہ اس وقت احتساب کا عمل یکطرفہ ہے اور سارا زور شریف خاندان اور ان کی جماعت پر لگایا جارہا ہے۔ اس منطق میں وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ اور نیب سمیت دیگر اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
نیب کے حالیہ چیرمین کی تقرری حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی رضا مندی سے ہوئی تھی، مگر اب ان کے اختیارات کو محدود کرنے، سلب کرنے اور ان کو لگام ڈالنے کی باتیں کھلے عام کی جارہی ہیں۔ مگر اب جب نیب کی جانب سے احتساب کا عمل تیزی دکھا رہا ہے تو حکمران طبقات سیخ پا نظر آتا ہے۔
حکمران طبقات کی جانب سے نیب کو دھمکیاں اوران کے اختیارات کو محدود کرنے کی یہ آوازیں پہلی بار سننے کو نہیں ملی ہیں، بلکہ ماضی میں جب بھی پنجاب میں احتساب کی بات شروع کی جاتی تھی تو وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلی تک اور ان کے وفاقی وزرا لنگوٹ کس کر نیب اور احتساب کے خلاف سامنے آکر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔ احتساب کا عمل سندھ میں ہو تو درست پنجاب میں ہو تو یہ انتقامی عمل کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
پنجاب میں حالیہ دنوں میں وزیر اعلی پنجاب کے سب سے چہیتے بیوروکریٹ احد چیمہ کی گرفتاری پر جس شدت سے پنجاب کے حکمران طبقات نے شدید ردعمل دیا وہ ظاہرکرتا ہے کہ ان میں احتساب کی خوف زدگی کا عمل طاری ہے۔احد چیمہ شہباز شریف کے سب سے من پسند افسر سمجھے جاتے تھے اوریہ ہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری کے باوجود ان کو 19ویں سے بیس ویں گریڈ میں ترقی دی گئی ہے۔
احد چیمہ نے کیا کیا ہے اورکس حد تک وہ اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اس کا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے، مگر انداز سے بیوروکریسی کے ایک مخصوص گروپ نے احد چیمہ کی حمایت کی' وہ درست فیصلہ نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہمارے حکمران طبقات نے اپنی سیاسی مداخلتوں کی بنیاد پر ہمارے انتظامی ڈھانچے اور بیوروکریسی کو کافی کمزور اور خراب کیا ہے۔ لیکن یہ تاثر دینا کہ اس وقت پوری بیوروکریسی احد چیمہ یا پنجاب کے حکمرانوں کے ساتھ کھڑی ہے غلط ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم بااصول اور قانون پسند بیوروکریٹ کو ترجیح دینے کے بجائے ایسے افسروں پر اعتبار کرتے ہیں جو قواعد و ضوابط کا نہیں بلکہ حکمران طبقہ کے مفادات کو تقویت دے کر پورے نظام کو آلودہ کرتی ہے۔حالیہ نیب کی کاروائیوں اوراحد چیمہ کے مسئلہ پر ہمیں پنجاب کی بیوروکریسی واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک بڑے گروپ نے واضح کیا ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اورہمارا تعلق ریاستی نظام کی مضبوطی سے ہے۔
صوبائی مینجمنٹ سروس ایوسی ایشن پنجاب کے سیکریٹری جنرل نوید شہزاد نے اس حالیہ احتجاج کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اور ان کے بقول یہ احتجاج محض ڈی ایم جی گروپس کے کچھ افسرا ن تک محدود ہے ۔ ا ن کے بقول یہ ایک فرد کے خلاف انکوائری ہے اس کو اداہ جاتی عمل میں نہ دیکھا جائے۔
کچھ لوگوں کے بقول پنجاب میں بیوروکریسی کا ایک مخصوص طبقہ جو حکمران طبقات سے جڑا ہوا ہے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ پوری بیوروکریسی نیب کے اقدامات کے خلاف ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔صوبائی کابینہ کا جلاس احد چیمہ کی حمایت، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، گورنر پنجاب سمیت کئی حکومتی لوگوں کا احد چیمہ کی حمایت میں کھڑا ہونا اور شہر میں اس کی حمایت میں بینر لگاناحکمران طبقات میں خوف کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔
اصولاً بلاتفریق احتساب کی بحث کو آگے بڑھایا جانا چاہیے۔اگر واقعی حکمران احتساب میں مخلص ہوتے تو آج ہمیں اداروں کی جانب سے یہ غیر معمولی اقدامات نہ دیکھنے کو ملتے۔ہمیں افراد اور جماعتوں کے مقابلے میں اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور اداروں کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ ان کا عمل شفافیت اور بلاتفریق احتساب سے جڑا ہو، جس میں کسی کے خلاف تعصب کا پہلو نمایاں نہ ہو۔