ہم نے جو بویا‘ اسے کاٹ رہے ہیں
ایک بڑی تعداد میں ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں شدت بھردی گئی ہے، ان کے پاس ہتھیار ہیں۔
پاکستانی سیاست اس وقت ایک عجیب موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ وہ سیاست جس کا آغاز پچھلی صدی کی 70ء اور 80ء کی دہائی سے ہوا۔ بحیثیت پاکستانی قوم ہمارا یہ دہائیوں کا سفر تباہیوں اور ہولناکیوں سے بھر پور تھا۔ جس نے نہ صرف ہمارے وجود بلکہ ہماری روح کو بھی چھلنی کردیا۔ دنیا اس طویل سفر میں ہمارے ذریعے ایک نئے دور میں داخل ہوئی جب کہ ہم قرون وسطی کی تاریکیوں میں گم ہوگئے۔
فروری کے تیسرے ہفتے میں ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے میونخ جرمنی میں بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سچائیوں سے بھر پور ایک ایسا جملہ کہا جس میں ہماری تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ صرف ایک فقرے میں انھوں نے سب کچھ بیان کردیا، وہ فقرہ کیا تھا آپ بھی پڑھیے اور جہاں تک ہوسکے غور کرتے رہیے کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے چالیس سال پہلے بویا تھا۔
آرمی چیف نے ایک فقرے میں سمندر کو بند کردیا۔ وہ سمندر جس نے پاکستان سمیت پورے خطے کو تاریکیوں میں غرق کردیا۔اپنی تقریر کے آغاز میں وہ کہتے ہیں کہ 70ء کا عشرہ ہمارے لیے تباہ کن رہا۔ ہمارے مشرقی بازو کی علیحدگی اور دوسرے سیاسی زلزلوں نے بھی ہمارے معاشرے کی ہیت اتنی نہیں بدلی تھی جتنے گہرے اثرات 1979ء نے ہم پر مرتب کیے۔
جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، جب ہمارے پڑوس ایران میں انقلاب آیا۔ اس کے بعد ہم نے یہ سوچنا شروع کیا کہ ہم صرف مسلمان نہیں ہیں، ہم سنی، شیعہ ہیں۔ یہی وقت ہے جب ہمیں نظریاتی طور پر سوویت یونین سے لڑنے اور کمیونسٹ آئیڈیالوجی کو چیلنج کرنے کی طرف راغب کیا گیا۔ آزاد دنیا کے فکری تعاون سے مغربی یونیورسٹیوں میں ہمارے مدارس کے لیے نصاب مرتب کیے گئے۔
جہاں ہمارے نوجوان ذہنوں کے لیے جہاد کی خوراک تجویز کی گئی۔ مگر اس کی تفسیر اور مفہوم کے بغیر غیر ریاستی اداروں نے خود مدافعت کا سہارا لے کر جہاد کا اعلان کیا۔ دنیا بھر سے نوجوان بھرتی کیے گئے، انھیں شدت پسند بنایا گیا جب ان سے اپنا مقصد پورا ہوگیا ان سے ترک تعلق کرکے بیچ منجدھار چھوڑ دیا گیا۔اس کے بعد آرمی چیف اپنی تقریر میں کہتے ہیں... میں تاریخ کا یہ طویل سبق دوہرانے پر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ سب کچھ آپ کے لیے تاریخ ہے لیکن ہمارے لیے وطن ہے، یہ اب جیتا جاگتا مسئلہ ہے۔
ایک بڑی تعداد میں ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں شدت بھردی گئی ہے، ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ سیاسی اور نظریاتی طور پر وہ طاقتور ہیں۔ انھیں صرف اس لیے نہیں ختم کیا جا سکتا کیونکہ ہم انھیں پسند نہیں کرتے۔ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے 40 سال پہلے بویا تھا۔ اس لیے اس فصل کو جڑ سے اکھاڑنے میں کچھ عرصہ لگے گا لیکن اب آئیے اسے جہاد کہنا چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہ دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔
اس تقریر میں آرمی چیف نے وہ وقت بھی یاد کیا جب ہم اعتدال پسند تھے، غیر ملکی سربراہان اہم شخصیتں پورے ملک کا دورہ کرتی تھیں۔ کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے بلا خوف و خطر ہمارے ملک میں منعقد ہوتے تھے اور 60ء کی دہائی میں عالمی بینک کے مطابق پاکستان ایشیا میں ترقی میں سب سے آگے تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، پاکستان کی ترقی کو بریک لگ گئی جب کہ دوسرے ترقی کی معراج پر پہنچ گئے۔ یہ چیز پیش نظر رہیں کہ یہ باتیں کوئی اور نہیں پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے کا سربراہ کہہ رہا ہے۔
یہ بات بڑی المناک ہے کہ بقول آرمی چیف سوویت یونین کے خلاف جہاد پر مغرب کے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین ترین لوگوں نے لگایا جن کی مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی فرقہ وارانہ تقسیم پر گہری نظر تھی۔ انھوں نے جہاد جیسے حساس معاملے کو سوویت یونین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر انتہائی کامیابی سے استعمال کیا۔ کیونکہ انھیں اسلامی تاریخ پر عبور ہونے سے یہ پتہ تھا کہ جہاد ہی وہ چیز ہے جس میں مسلمان بہ رضا و رغبت خوشی اپنی جان قربان کرسکتا ہے۔ چنانچہ مسلم دنیا سے لاکھوں نوجوانوں کو جہاد کے نام پر سوویت یونین کے خلاف اکٹھا کیا گیا اور اپنا ایک شہری مروائے بغیر مغرب نے پوری دنیا کی بادشاہت حاصل کرلی۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان میں کیا گیا لیکن اس کے لیے نصاب امریکا، برطانیہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں گوروں نے مرتب کیا۔ بقول ہمارے محترم آرمی چیف کے، نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں لوگ مارے گئے اور پاکستان سمیت مسلم دنیا آیندہ کئی نسلوں کے لیے تباہ برباد ہوگئی۔ صرف یہیں پر بس نہیں۔
اسی ایجنڈے کے دوسرے حصے پر عمل کرتے ہوئے مسلم دنیا میں شیعہ سنی تقسیم اتنی گہری کردی گئی کہ مسلمان باہر تو کیا اپنے گھر میں بھی غیر محفوظ ہے۔ ایک طرف تو مغرب نے مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف انتہائی سستا استعمال کیا تو دوسری طرف اس بات کو یقینی بنایا کہ اگلے سو سال تک اس کا مقابلہ نہ کرے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلم دنیا پہلے ہی مغرب سے کئی سو سال پیچھے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ فاصلہ مزید بڑھتا جارہا ہے۔
آرمی چیف نے صحیح کہا کہ جہاد کا حق صرف ریاست کو ہے، کسی فرد یا گروہ کو نہیں۔ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جب بھی کسی فرد یا گروہ نے جہاد کا حق اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، مسلمان تباہ و برباد ہوگئے۔ مغرب نے ایک سازش کے تحت اپنے مفادات کے لیے جہادی گروپوں کو پرائیویٹائز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کے اندر ریاستیں وجود میں آگئیں۔
کیا وہ وقت بھلایا جاسکتا ہے جب مٹھی بھر دہشت گرد کئی سال تک پاکستانی شہریوں کا قتل عام کرتے رہے تاکہ پاکستانی عوام کو دہشت زدہ کرکے ریاست پر قبضہ کیا جاسکے اور ریاست اس تمام صورتحال میں خاموش تماشائی تھی، آخر کیوں؟ وہ کونسا دباؤ تھا جس نے ریاست کو ان دہشت گردوں کے خلاف طویل مدت تک آپریشن سے روکے رکھا، مقام شکر ہے کہ آرمی چیف نے آج اس سچائی کو کھول کر بیان کردیا جس کو تسلیم کرنے سے آج بھی بہت سے مذہبی اور سیاسی گروہ انکاری ہیں۔
مجھے فخر ہے کہ میں نے اس جہاد کو اسی وقت امریکی جہاد کہا جب یہ کہنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔
سیل فون: 0346-4527997
فروری کے تیسرے ہفتے میں ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے میونخ جرمنی میں بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سچائیوں سے بھر پور ایک ایسا جملہ کہا جس میں ہماری تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ صرف ایک فقرے میں انھوں نے سب کچھ بیان کردیا، وہ فقرہ کیا تھا آپ بھی پڑھیے اور جہاں تک ہوسکے غور کرتے رہیے کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے چالیس سال پہلے بویا تھا۔
آرمی چیف نے ایک فقرے میں سمندر کو بند کردیا۔ وہ سمندر جس نے پاکستان سمیت پورے خطے کو تاریکیوں میں غرق کردیا۔اپنی تقریر کے آغاز میں وہ کہتے ہیں کہ 70ء کا عشرہ ہمارے لیے تباہ کن رہا۔ ہمارے مشرقی بازو کی علیحدگی اور دوسرے سیاسی زلزلوں نے بھی ہمارے معاشرے کی ہیت اتنی نہیں بدلی تھی جتنے گہرے اثرات 1979ء نے ہم پر مرتب کیے۔
جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، جب ہمارے پڑوس ایران میں انقلاب آیا۔ اس کے بعد ہم نے یہ سوچنا شروع کیا کہ ہم صرف مسلمان نہیں ہیں، ہم سنی، شیعہ ہیں۔ یہی وقت ہے جب ہمیں نظریاتی طور پر سوویت یونین سے لڑنے اور کمیونسٹ آئیڈیالوجی کو چیلنج کرنے کی طرف راغب کیا گیا۔ آزاد دنیا کے فکری تعاون سے مغربی یونیورسٹیوں میں ہمارے مدارس کے لیے نصاب مرتب کیے گئے۔
جہاں ہمارے نوجوان ذہنوں کے لیے جہاد کی خوراک تجویز کی گئی۔ مگر اس کی تفسیر اور مفہوم کے بغیر غیر ریاستی اداروں نے خود مدافعت کا سہارا لے کر جہاد کا اعلان کیا۔ دنیا بھر سے نوجوان بھرتی کیے گئے، انھیں شدت پسند بنایا گیا جب ان سے اپنا مقصد پورا ہوگیا ان سے ترک تعلق کرکے بیچ منجدھار چھوڑ دیا گیا۔اس کے بعد آرمی چیف اپنی تقریر میں کہتے ہیں... میں تاریخ کا یہ طویل سبق دوہرانے پر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ سب کچھ آپ کے لیے تاریخ ہے لیکن ہمارے لیے وطن ہے، یہ اب جیتا جاگتا مسئلہ ہے۔
ایک بڑی تعداد میں ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں شدت بھردی گئی ہے، ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ سیاسی اور نظریاتی طور پر وہ طاقتور ہیں۔ انھیں صرف اس لیے نہیں ختم کیا جا سکتا کیونکہ ہم انھیں پسند نہیں کرتے۔ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے 40 سال پہلے بویا تھا۔ اس لیے اس فصل کو جڑ سے اکھاڑنے میں کچھ عرصہ لگے گا لیکن اب آئیے اسے جہاد کہنا چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہ دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔
اس تقریر میں آرمی چیف نے وہ وقت بھی یاد کیا جب ہم اعتدال پسند تھے، غیر ملکی سربراہان اہم شخصیتں پورے ملک کا دورہ کرتی تھیں۔ کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے بلا خوف و خطر ہمارے ملک میں منعقد ہوتے تھے اور 60ء کی دہائی میں عالمی بینک کے مطابق پاکستان ایشیا میں ترقی میں سب سے آگے تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، پاکستان کی ترقی کو بریک لگ گئی جب کہ دوسرے ترقی کی معراج پر پہنچ گئے۔ یہ چیز پیش نظر رہیں کہ یہ باتیں کوئی اور نہیں پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے کا سربراہ کہہ رہا ہے۔
یہ بات بڑی المناک ہے کہ بقول آرمی چیف سوویت یونین کے خلاف جہاد پر مغرب کے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین ترین لوگوں نے لگایا جن کی مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی فرقہ وارانہ تقسیم پر گہری نظر تھی۔ انھوں نے جہاد جیسے حساس معاملے کو سوویت یونین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر انتہائی کامیابی سے استعمال کیا۔ کیونکہ انھیں اسلامی تاریخ پر عبور ہونے سے یہ پتہ تھا کہ جہاد ہی وہ چیز ہے جس میں مسلمان بہ رضا و رغبت خوشی اپنی جان قربان کرسکتا ہے۔ چنانچہ مسلم دنیا سے لاکھوں نوجوانوں کو جہاد کے نام پر سوویت یونین کے خلاف اکٹھا کیا گیا اور اپنا ایک شہری مروائے بغیر مغرب نے پوری دنیا کی بادشاہت حاصل کرلی۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان میں کیا گیا لیکن اس کے لیے نصاب امریکا، برطانیہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں گوروں نے مرتب کیا۔ بقول ہمارے محترم آرمی چیف کے، نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں لوگ مارے گئے اور پاکستان سمیت مسلم دنیا آیندہ کئی نسلوں کے لیے تباہ برباد ہوگئی۔ صرف یہیں پر بس نہیں۔
اسی ایجنڈے کے دوسرے حصے پر عمل کرتے ہوئے مسلم دنیا میں شیعہ سنی تقسیم اتنی گہری کردی گئی کہ مسلمان باہر تو کیا اپنے گھر میں بھی غیر محفوظ ہے۔ ایک طرف تو مغرب نے مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف انتہائی سستا استعمال کیا تو دوسری طرف اس بات کو یقینی بنایا کہ اگلے سو سال تک اس کا مقابلہ نہ کرے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلم دنیا پہلے ہی مغرب سے کئی سو سال پیچھے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ فاصلہ مزید بڑھتا جارہا ہے۔
آرمی چیف نے صحیح کہا کہ جہاد کا حق صرف ریاست کو ہے، کسی فرد یا گروہ کو نہیں۔ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جب بھی کسی فرد یا گروہ نے جہاد کا حق اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، مسلمان تباہ و برباد ہوگئے۔ مغرب نے ایک سازش کے تحت اپنے مفادات کے لیے جہادی گروپوں کو پرائیویٹائز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کے اندر ریاستیں وجود میں آگئیں۔
کیا وہ وقت بھلایا جاسکتا ہے جب مٹھی بھر دہشت گرد کئی سال تک پاکستانی شہریوں کا قتل عام کرتے رہے تاکہ پاکستانی عوام کو دہشت زدہ کرکے ریاست پر قبضہ کیا جاسکے اور ریاست اس تمام صورتحال میں خاموش تماشائی تھی، آخر کیوں؟ وہ کونسا دباؤ تھا جس نے ریاست کو ان دہشت گردوں کے خلاف طویل مدت تک آپریشن سے روکے رکھا، مقام شکر ہے کہ آرمی چیف نے آج اس سچائی کو کھول کر بیان کردیا جس کو تسلیم کرنے سے آج بھی بہت سے مذہبی اور سیاسی گروہ انکاری ہیں۔
مجھے فخر ہے کہ میں نے اس جہاد کو اسی وقت امریکی جہاد کہا جب یہ کہنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔
سیل فون: 0346-4527997