شہباز شریف کی سیاست کے مختلف منظر نامے
شاید نواز شریف کو شہباز شریف کو صدر بنانے کے بعد خود کو سیاست سے الگ کرنا ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) بحرانی کیفیت میں ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس حل موجود ہے لیکن شاید انھیں یہ حل قبول نہیں ہے۔ قیاس آرائیاں یہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے شہباز شریف کا نام ہاٹ فیورٹ ہے۔
ن لیگ کے ذمے دار حلقہ یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اس بار صدارت شہباز شریف کو دے دی جائے گی۔لیکن یہ اشارے نئے نہیں ، گزشتہ سال جب نواز شریف نا اہل ہوئے اور لندن چلے گئے تھے تب بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ شہباز شریف کو صدر بنا دیا جائے۔ تب بھی نواز شریف نے اس حل کو قبول نہیں کیا تھا۔ دیکھیںکیا وہ اب اس حل کو قبول کریں گے یا نہیں۔
شہباز شریف نے بہر حال اپنی الگ سیاسی پہچان بنائی ہے۔ بہت دباؤ میں بھی انھوں نے اپنے اس موقف کو قائم رکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کو قومی اداروں سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اختلاف بہت واضح ہے۔ شہباز شریف کی سیاست کے اس وقت مختلف منظر نامے سامنے ہیں۔
سب سے پہلا منظر نامہ تو یہ ہے کہ اس بار بھی نواز شریف شہباز شریف کو صدر نہیں بنا ئیں گے۔ جیسے انھوں نے پہلے عبوری وقت کے لیے سردار یعقوب ناصر کا انتخاب کیا تھا ۔ اسی طرح اب بھی ایک قائم مقام صدر بنا دیں اور بعد میں کلثوم نواز کو صدر بنا دیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ن لیگ نواز شریف کی ملکیت ہے، وہ کسی اور کیسے دے دیں۔
اگر ن لیگ نے رہنا ہے تو نواز شریف اور ان کے خاندان کے پاس رہنا ہے۔ اس لیے شہباز شریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دوسرے فیصلے کے بعد شاید نواز شریف کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہو کہ حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے کہ وہ ن لیگ کو اب اپنی خاندانی میراث کے طورپر لا سکیں۔ لیکن مقابلے کی دلیل یہ ہے کہ جب مزاحمت کا فیصلہ کر لیا ہے تو شہباز شریف کو صدر کیوں بنایا جائے۔ وہ تو مفاہمت کے حق میں ہیں۔ اس لیے اگر اس بار شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کا صدر نہ بنا یا گیا تو انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اب بہت وفاداری نبھا لی، اب انھیں اپنی نئی سیاسی اننگز کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ شہباز شریف کو بادل ناخواستہ مسلم لیگ (ن) کا صدر بنا دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی پالیسی جاری رکھی جائے۔ اس طرح تو شہباز شریف ایک ڈمی صدر ہو ںگے۔ نواز شریف اور مریم نواز اپنی جارحا نہ پالیسی جا ری رکھیں۔ لڑائی جاری رہے، بس قانونی ضروریات پورا کرنے کے لیے شہباز شریف کو صدر بنا دیا جائے۔ تا ہم سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف کو ایسا ڈمی صدر بن جانا چاہیے۔
ایک رائے یہ ہے کہ ایسی صدارت نہ صرف گناہ بے لذت ہو گی بلکہ سیاسی خود کشی بھی ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف کو ایسی صدارت کا کیا فائدہ۔ اگر شہباز شریف نے ایسا ہی صدر بننا تھا تو انھیں اپنی الگ سیاسی لائن لینے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کے ڈمی صدر بننے سے اس تاثر کو بھی تقویت ملے گی کہ نواز شریف اور شہباز شریف جان بوجھ کر مل کر Good Coup اور Bad Coupکھیلتے ہیں۔ شاید یہ شہباز شریف کے لیے زہر قاتل ثابت ہو۔ وہ اپنی ایک الگ سیاسی شناخت بھی کھو دیں گے۔ وہ نواز شریف کے لیے شہید تو ہو جائیں گے۔ لیکن اس شہادت سے انھیں نیک نامی نہیں ملے گی۔
اس ضمن میں یہ درست ہے کہ شہباز شریف کو مبہم طور پر ن لیگ کی طرف سے وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس نامزدگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس نے شہباز شریف کے لیے مسائل ہی پیدا کیے ہیں۔ وہ اپوزیشن اور ن لیگ کے مخالفین کے بھی ٹارگٹ پر آگئے ہیں اور قومی اداروں کے بھی ٹارگٹ پر آگئے ہیں۔ ہر طرف سے ان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تواس نامزدگی کا فائدہ کم اورنقصان زیادہ سامنے آرہا ہے۔ کم از کم مسلم لیگ (ن) کو اس ابہام کو ہی ختم کرنا چاہیے اور سینٹرل ایگزیکٹو سے اس شہباز شریف کی نامزدگی کی منظوری لینی چاہیے لیکن شاید ابہام نوازشریف کے لیے فائدہ مند ہے۔
تیسری صورت یہ ہے شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کا ایک مکمل با اختیار صدر بنا دیا جائے۔ انھیں مسلم لیگ (ن) کے اہم پالیسی امور پر مکمل کنٹرول ہو۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی اس کشتی کے حقیقی پائلٹ ہوں۔ جو اس کشتی کو اپنی مرضی اور پالیسی کے تحت منزل تک لے کر جا سکے۔ اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی مزاحمت کی پالیسی ختم کر کے شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کو اپنانا ہو گا۔ قومی اداروں سے لڑائی ختم کرنا ہو گی۔ بالخصوص مریم نواز کو اپنے چچا کے تابع آنا ہو گا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا ا ختیار شہباز شریف کو دینا ہو گا۔ شہباز شریف کو اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کا اختیار دینا ہو گا۔ پارٹی پر شہباز شریف کی رٹ قائم ہو گی۔
شاید نواز شریف کو شہباز شریف کو صدر بنانے کے بعد خود کو سیاست سے الگ کرنا ہو گا۔ وہ قائد تو ہو سکتے ہیں لیکن وقتی طور پر انھیں عملی سیاست سے کنارہ کشی کرنا ہو گی۔ تاکہ سب شہباز شریف کو صدر مانیں۔ بلکہ انھیں خود لوگوں کو یہ کہنا ہو گا کہ اب شہباز شریف ہی فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ میں ان کے کام میں مداخلت نہیں کروں گا۔ یہ مشکل ضرور ہے۔ لیکن حل یہی ہے۔ سارے راستے اسی سے نکلیں گے۔ مزاحمت کر کے تو دیکھ لی گئی ہے ،کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
شہباز شریف اس وقت ایک منجھدار میں ہیں۔ جہاں ابھی ان کے مستقبل کے حوالے سے کچھ واضع نہیں ہے۔ وہ وزیر اعظم ہو بھی سکتے ہیں اور سیاسی شہید بھی ہو سکتے ہیں۔ آج شہباز شریف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ اسی منجھدار اور ابہام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر ہم پاناما کے بعد سے سیاسی حالات کا بغور جائزہ لیں تو ایک منظر نظر آئے گاجس میں شہباز شریف مسلسل ٹارگٹ میں نظر آئیں گے۔ بالخصوص عمران خان کو شدت سے احساس ہے جب تک وہ شہباز شریف کو آؤٹ نہیں کرتے تب تک ان کی منزل ان سے دور ہی رہے گی۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد شہباز شریف ہی عمران خان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
موجودہ نیب کے منظر نامہ سے پہلے دیکھیں عمران خان نے جرمنی سے شہباز شریف کا ایک فرنٹ مین پیدا کر دیا۔ اور ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ اس طوطے میں شہباز شریف کی جان ہے ۔ لیکن یہ سب پانی کا بلبلا ثابت ہوا۔ اس کے بعد سب امیدیں حدیبیہ سے لگا لی گئیں۔ ایک منظر نامہ بنا دیاگیا بس حدیبیہ کھل جائے، شہباز شریف منظر سے ہٹ جائے گا۔ یہ بھی نا کام ہوا تو نجفی رپورٹ آگئی کہ شہباز شریف بس گرفتار ہو جائیں گے۔ لیکن یہ بھی نہ ہوا۔ پھر عمران خان عابد باکسر کو ایک ایسے کردار کے طورپر سامنے لے آئے کہ بس یہ شہباز شریف کا طوطا ہے۔
اب احد چیمہ کو ایک طوطے کے طورپرپیش کیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک شہباز شریف کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ابہام رہے گا، وہ ٹارگٹ پر رہیں گے۔ کیونکہ دوستوں کو خدشہ ہے کہ اگر اس بار بھی انھوں نے آخر میں بھائی کا ساتھ دے دیا تو کیا ہو گا۔ اس لیے انھیں تب تک شکنجے میں رکھا جائے جب تک شہباز شریف اپنے سیاسی پتے ظاہر نہیں کرتے۔ جیسے ہی یہ منظر صاف ہو گا، طوطے غائب ہو جائیں گے۔