جانوروں اور پرندوں سے محبت کیجیے

مغرب میں جانوروں اورپرندوں کا بے حد خیال رکھاجاتاہے، ان کی حفاظت اور پرورش کے لیے عام شہری اورحکومت جان لڑادیتے ہیں۔

raomanzar@hotmail.com

جس معاشرے میں انسانوں کے حقوق تک محفوظ نہ ہوں وہاں جانوروں اورپرندوں کے حقوق کی بات کرنا عجیب سی بات ہے۔مگراس اہم موضوع پربات ہونی چاہیے۔ رائے عامہ کو متحرک اور ہموار کرناچاہیے تاکہ قدرت کے ان عظیم تحفوں کی حفاظت ہوسکے۔لوگ،ان کاخیال رکھیں۔ ایک اورمخلوق بھی ہماری توجہ کی محتاج ہے اوروہ ہیں کیڑے۔شائدآپ مسکراناشروع کردیں۔مگر آپ کی خدمت میں سائنسی تحقیق پیش کردیتاہوں۔

سائنس کہتی ہے کہ اگر کرہ ارض پر موجود تمام کیڑے مکوڑوں کوختم کردیا جائے، تو نسلِ انسانی صرف چند برسوں میں ختم ہوجائیگی۔یہ بہت سنجیدہ بات ہے۔ میںکچھ عرصہ پہلے امریکا کے شہرآسٹن میں ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں مقیم تھا۔تین چار دن رہا۔صبح ناشتے کے وقت وہاں پرپانچ چھ لوگ ہوتے تھے۔ان میں ایک انتہائی مہذب نظرآنے والا آدمی ہمیشہ ننگے پیر آتا تھا۔

ایک صبح ناشتہ کرنے کے لیے ذراجلدی گیاتووہ بھی بیٹھا ہوا تھا۔بات چیت شروع ہوئی۔ بتانے لگاکہ وہ Entomologist یعنی کیڑوں کاماہرہے۔امریکی ہے مگرآسٹریلیا منتقل ہوچکاہے۔ننگے پیر رہنے کی وجہ پوچھی تو جواب کافی دلچسپ تھا۔بتانے لگاکہ اکثرمقامات پرجوتے نہیں پہنتا۔کوئی بڑی کانفرنس ہویاکوئی بین لاقوامی سطح کی میٹنگ ہوتووہاں جوتے ضرورپہن لیتا ہوں۔کہنے لگاکہ وپ آسٹریلیاکی ایک ناموریونیورسٹی میں پڑھاتا ہے اور طالبعلموں کویہ بات سمجھاتا ہوں کہ کیڑوں کی حفاظت کرو۔ اپنے بوٹ سے ان کومت کچلو۔ اس کا عملی ثبوت اس طرح دیا کہ خود بوٹ پہننے چھوڑدیے۔

بہرحال،یہ حیرت انگیز بات تھی اورپروفیسراس پرمن وعن عمل کررہاتھا۔کافی دیرسوچتا رہا کہ یہ کیساشخص ہے۔کیڑوں کے متعلق بھی فکرمند ہے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی بات سوچنا،سمجھنایااس پرعمل کرنا محض ایک خواب ہے۔یہاں توانسان ایک دوسرے کے شرسے محفوظ نہیں ۔بھلا،پرندے،جانوراورکیڑوں کے حقوق کے متعلق کیابات کی جائے۔

بیس برس پہلے،سال میں تین چاربار شکار ضرور کھیلتا تھا۔تیتر،سیسی اورمرغابی کے شکارپربڑے اہتمام سے جاتا تھا۔مگرآہستہ آہستہ جب طبیعت پرسنجیدگی واردہوئی تو یہ معمول ترک کر ڈالا۔ اپنی قیمتی بندوق بھی کسی کومفت دے ڈالی۔صرف اس لیے کہ پرندوں اورجانوروں کے پاس توکوئی حفاظتی انتظام نہیں ہوتا۔مکمل طورپربے بس ہوتے ہیں۔ پھر قتلِ عام سے ان کی نسل کشی ہوتی ہے۔چنانچہ فیصلہ کرلیاکہ زندگی میں خداکی اس کمزورمخلوق کونقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ آج تک اپنے فیصلے پرقائم ہوں۔

شائدآپ کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہوکہ کئی لوگوں نے ایسے ملازم رکھے ہوئے ہیں جو پیشہ ورشکاری ہیں۔انھیں جہاں موقع ملتا ہے، یہ پرندوں اورجانوروں کی نسل اُجاڑڈالتے ہیں۔ دو سے تین سوتیترایک دن میں ہی مارڈالتے ہیں۔ایک برس کے لیے گوشت اکٹھاکرناان کے داہنے ہاتھ کاکام ہے۔ یہ سب کچھ مالک کے لیے ہوتاہے۔اس کے فریزر میں شکارکاگوشت بہتات میں موجود ہوتا ہے۔

بلوچستان میں موسیٰ خیل ایک مکمل طورپر غیرترقی یافتہ علاقہ ہے۔وہاں کی آبادی بہت کم ہے۔اس وجہ سے تیتربہتات میں ہیں۔بہت سے لوگوں کوجانتا ہوں۔جوہرسال سفارش کراکرموسیٰ خیل جاتے ہیں اور پرندوں کادھڑن تختہ کرڈالتے ہیں۔کسی روک ٹوک کے بغیر۔بہرحال،طالبعلم کی نظرمیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ شائد کچھ شکاری میری بات کا بُرا مناجائیں۔ایک برطانوی شکاری نے کہا تھا کہ پرندے اورجانورکوجان بچانے کاپورا موقع دیناچاہیے۔

اس کاعملی پہلویہ ہے کہ مہذب شکاری ایک نالی والی بندوق سے شکارکھیلتے تھے،جس میں صرف ایک کارتوس ہو۔آپ ایک فائرکریں تودوسرافائرکرنے کے لیے آپ کوکارتوس دوبارہ ڈالناپڑے۔اس دوچارمنٹ میں جانوریاپرندہ اپنی جان بچا سکتاہے۔شکارکوایک گیم کے طورپرلیاجاتاتھا۔مگراب تو مہلک ترین بندوقیں ہیں،جن سے کوئی چرند پرندکسی صورت میں نہیں بچ سکتا۔

ہمارے معاشرے میں بہت کم دیکھاجاتاہے کہ لوگ دل سے پرندوں اورجانوروں کاخیال رکھیں۔انگریزنے ان کی حفاظت کاقانون بناکرہمارے حوالے کیاتھا۔مگراس پرکسی صورت پرعمل نہیں ہوتا۔ شہروں میں تانگے گھوڑے بہت حدتک کم ہوچکے ہیں۔مگراب بھی جہاں استعمال ہوتے ہیں، وہاں تانگوں میں جتے ہوئے گھوڑوں کی حالت اَبتر ہوتی ہے۔ ان کی کمرپرزخم ہوتے ہیں ۔چابک مارمارکر انھیں مسافر ڈھونے پرمجبورکیاجاتاہے۔چارے کاخیال بھی نہیں رکھا جاتا۔نتیجہ یہ کہ گھوڑے بے حدنحیف ہوجاتے ہیں۔

اس کے بعدجب کسی کام کے نہیں رہتے توانھیں ذبح کرکے بڑے آرام سے گوشت فروخت کردیا جاتا ہے۔ انسانی استعمال کے لیے۔ہم سفاک اور بے رحم ہوچکے ہیں کہ خیال ہی نہیں کرتے کہ جانوروں اورپرندوں کوبھی تکلیف ہوتی ہے۔وہ بھی دردہونے پرچلاتے ہیں۔لوگ انھیں اذیت پہنچاکرقہقہے لگاتے ہیں۔ریچھ اورکتوں کی لڑائی اس ظلم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔


ہمارے ظلم سے حیوان بھی پناہ مانگتے ہیں۔ چند دہائیاں پہلے تک ہرمیونسپل کمیٹی کے فرائض میں شامل تھاکہ زخمی، بیمار اورلاپتہ جانوروں کے لیے سرکاری باڑے بنائیں۔ ان کو ''کانجی ہاؤس'' کہاجاتاتھا۔ان جگہوں پر باقاعدہ جانوروں کاخیال رکھاجاتاتھا۔دوائیاں دی جاتی تھیں۔ نامعلوم جانوروں کی حفاظت کی جاتی تھی۔جب کوئی شخص اپناگھوڑا، گائے، بھینس یاکوئی اور جانور واپس لینے آتا تھا، تو اس کی باز پرس ہوتی تھی کہ لاپرواہی کیوں برتی۔

شناخت کے بعد مویشی واپس کیے جاتے تھے۔جانوروں کی دوائیوں سے ذہن میں آیاکہ ان کودی جانے والی نوے فیصددوائیاں جعلی ہیں۔ کچھ ایسی کمپنیوں کے متعلق علم رکھتاہوں جو جعلی دوائیاں بناتی ہیں۔ایسی ہی کمپنی کے مالک سے پوچھاکہ انسانوں کے لیے دوائیاں کیوں نہیں بناتے۔جواب حد درجہ ظالمانہ تھا۔ اس لیے کہ جانورشکایت نہیں کرسکتے۔کوئی بھی ان کے تحفظ کے لیے آوازنہیں اُٹھاتا۔ذاتی مشاہدے میں ہے کہ سات مورپال رکھے تھے۔بذات خودان کی دیکھ بھال کرتاتھا۔

ایک مور بیمار ہواتوجانوروں کے سرکاری اسپتال لے کرگیا۔دوائی دی گئی۔ مگر کوئی اثرنہ ہوا۔دیکھتے دیکھتے چارمورمرگئے۔وجہ صرف ایک کہ جس بیماری میں مبتلا تھے، اس کی دوائی جعلی تھی۔ سرکاری شعبہ کاذکرکرناعبث ہے۔ بڑے شہروں میں بھی جانوروں اورپرندوں کے لیے جدید شفاخانے موجودنہیں ہیں۔

دیہاتوں میں توخیران ڈاکٹروں کا نام ونشان نہیں ہے۔ ہرشخص اپنے جانوروں کے لیے پرائیویٹ ڈاکٹرکے پاس جانے پر مجبور ہے۔ وہاں بھی کیا ہوتاہے، اس کا ذکر چھوڑ دیجیے۔ دراصل انسانی قدریںکمزورہیں، ذہانت کمترین درجہ کی ہے،اس لیے ہمیں دل سے یقین ہی نہیں ہے کہ جانور بھی تکلیف میں روتے ہیں۔چیخیں مارتے ہیں۔ آواز دیتے ہیں کہ کوئی آئے اوران کی مددکرے۔مگریہاں کس نے ان کی فریاد سننی ہے۔

اس ساری صورتحال کے برعکس مغرب میں جانوروں اورپرندوں کا بے حد خیال رکھاجاتاہے۔ان کی حفاظت اور پرورش کے لیے عام شہری اورحکومت جان لڑادیتے ہیں۔ ایک ڈاکومینٹری میں دیکھاکہ ایک بطخ سڑک پرواقع گٹرکے ساتھ کھڑے ہوکرزورزورسے چلارہی تھی۔ایک پولیس موبائل آئی۔اس نے بطخ کی آوازسنی۔گٹرسے دورلیجانے کی کوشش کی۔مگربطخ دوبارہ اس مقام پرآکرآہ وزاری کرنا شروع کردیتی تھی۔سڑک پرٹریفک روک دی گئی۔

پولیس والوں نے گٹرمیں جھانک کردیکھا، انھیں لگاکہ بطخ کے چند بچے اس میں گرگئے ہیں ۔اس کے بعدجوہوا،وہ ہم لوگ صرف تصورکرسکتے ہیں۔ٹی وی پراس واقعہ کی لائیوکوریج شروع ہوگئی۔ لوگوں نے بطخ کے بچوں کومحفوظ طریقے سے باہر نکالنے کے لیے دعائیں مانگنا شروع کردیں۔ غوطہ خور منگوائے کیونکہ گٹر گہراتھا۔جب غوطہ خورنیچے پہنے تومعلوم ہواکہ بچے موجود نہیں ہیں۔پانی کے بہاؤسے آگے جاچکے ہیں۔ سمجھیے،کہ قیامت آگئی۔

مزیدغوطہ خورمنگوائے گئے۔ درجنوں شہریوں نے رضاکارانہ طورپراپنی خدمات پیش کردیں۔ ایک گھنٹے کی شدیدمحنت کے بعدغوطہ خوراس مقام پرپہنچ گئے جہاں بطخ کے چھ چھوٹے چھوٹے بچے سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔انھیں حفاظت سے باہرنکال لیاگیا۔بطخ نے اپنے بچوں کوزندہ دیکھ کرجس خوشی کااظہارکیا،وہ ناقابل بیان ہے۔

پوراشہربچوں کی کامیاب بازیابی پرجھومنے لگا۔ اس کے بعدپورے خاندان کوجھیل کے کنارے چھوڑ دیا گیا، تاکہ کسی دوسرے حادثے کاشکارنہ ہوجائیں۔ہاں،ایک اوربات، تمام گٹراس نئی طرزپربنادیے گئے کہ پرندے ان میں گر نہ پائیں۔ہمارے ملک میں ایسے رحمدلانہ اور تہذیب یافتہ رویے کی توقع کرناصرف اورصرف دیوانگی ہے۔

مگرایک مقام پراُمیدکی ہلکی سی کرن نظرآتی ہے۔ باغِ جناح کی سیرکے دوران کم ازکم تین جگہیں ایسی ہیں، جہاں لوگ پرندوں کوبے حساب دانہ ڈالتے ہیں۔کسی دن بھی ناغہ نہیں ہوتا۔وہاں اَن گنت کبوتر، چڑیاں، بلبلیں، کوے اورطوطے دانہ چگنے میں ہمہ تن مصروف ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ عیدکے دن بھی اس روٹین میں ناغہ نہیں ہوتا۔

یہ کون لوگ ہیں۔یہ کب باغِ جناح آکر پرندوں کی خاموش خدمت کرتے ہیں،کوئی پتہ نہیں۔ مگر اس نیکی کودیکھ کریقین ہوجاتاہے کہ معاشرہ ابھی زندہ ہے اورزندہ رہے گا۔محبت کے یہ آثاربہت خوشگوار ہیں، حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا!
Load Next Story