سیاست میں نئے خون کو آنے دو
ہماری اشرافیائی سیاست اور جمہوریت کے تالاب میں 70 سال سے پانی جمع ہوکر سڑگیا ہے۔
دریاؤں اور ندیوں کا پانی اس لیے صاف اور قابل استعمال ہوتا ہے کہ وہ بہتا رہتا ہے، تازہ پانی ان میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کا پانی اگر برسوں، عشروں تک ایک جگہ جمع رہے اس میں تازہ پانی شامل نہ ہو تو وہ بھی سڑجاتا ہے۔
ہماری اشرافیائی سیاست اور جمہوریت کے تالاب میں 70 سال سے پانی جمع ہوکر سڑگیا ہے اور قومی صحت کے لیے مضر ہوگیا ہے۔ جب بھی اس تالاب سے گندہ پانی نکال کر تازہ پانی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تالاب کے سرپرست واویلا مچاتے ہیں، دوہائیاں دیتے ہیں کہ تالاب کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ساری دنیا میں حتیٰ کہ پسماندہ ملکوں کی سیاست میں بھی تازہ خون آتا رہتا ہے جس کی وجہ سے سیاست اور جمہوریت میں نہ سڑاند پیدا ہوتی ہے نہ یہ قومی صحت کے لیے مضر بنتی ہے۔
ذرا غور کیجیے، ذرا نظر ڈالیے 70 سال پہلے جو سیاست دان ہماری سیاست میں متحرک تھے آج وہ تو نہیں رہے البتہ ان کی آل اولاد سیاست اور جمہوریت کے تالاب میں مچھلی کی طرح تیرتی نظر آرہی ہے اور وراثتی سیاست کی سڑاند سے سارے ملک کی فضا آلودہ ہورہی ہے۔ اس کلچر کی اصل وجہ تو ہماری شاہانہ تاریخ میں گڑھی ہوئی ہیں لیکن ماڈرن دور کے شاہ اور شہنشاہ اس 70 سالہ گندے پانی کو تازہ پانی سے بدلنے کے لیے تیار اس لیے نہیں ہوتے کہ تازہ پانی اگر سیاست میں آتا ہے تو عوام سڑے ہوئے پانی کو اٹھاکر باہر پھینک دیتے ہیں۔
ہمارے اشرافیائی سیاست دانوں نے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے سیاست میں نئے خون کو آنے سے روک رکھا ہے۔ اگر کوئی تازہ خون آتا ہے تو اسے اپنی پیروں کی جوتی بناکر رکھا جاتا ہے۔ اس کا کام صرف ان جمہوری شاہوں اور ان کی آل اولاد کے جرائم کی پردہ پوشی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، ہمارے ملک میں دیہی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہاریوں اور کسانوں پر مشتمل ہے۔ تعلیم پر سخت پابندی کے باوجود ان طبقات کا نوجوان اپنی کاوشوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا اہل اور ایماندار طبقہ سیاست کے میدان میں اچھوت بناکر رکھ دیا گیا ہے، اس کی نئی نسل کو یا تو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا غلام بناکر رکھ دیا گیا ہے یا پھر بیروزگاری کے سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جہاں وہ ڈبکیاں لگاتا نظر آتا ہے۔
مزدوروں، کسانوں کے علاوہ ہمارے ملک میں چھوٹے تاجر ہیں، اساتذہ ہیں، پروفیسر ہیں، وکلا ہیں، ڈاکٹر ہیں، صحافی ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں، فنکار ہیں، اہل دانش ہیں، اہل فکر ہیں، جن پر سیاست عملاً حرام کرکے رکھ دی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے چور، ڈاکو، لٹیرے، بے ایمان، بد کردار افراد سیاست اور جمہوریت اور اقتدار پر قابض ہیں اور لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیے ہوئے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں اس حوالے سے پہچانتی ہے۔
رنگ برنگی سیاسی جماعتوں میں دوا کے لیے بھی ایک ایماندار، مخلص، اہل اور ملک و قوم کا سچا دوست نہیں مل سکتا۔ ہماری اشرافیہ بڑی چالاکی سے سیاست، جمہوریت اور اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے اس میں جلسوں کا کلچر ایک اہم ہتھکنڈہ ہے۔ شخصیت پرست عوام دیہاڑی دار عوام اور ورغلائے ہوئے عوام کے ہجوموں کو جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں اس تکنیک سے عدلیہ کو بھی ڈرایا جاتا ہے کہ ان کے کارناموں کے خلاف احتساب کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے اسے جلسوں، جلوسوں کی دھونس سے روکا جائے اور بدقسمتی سے یہ حربے کامیاب بھی ہوتے نظر آتے ہیں۔
چور، ڈاکو، لٹیرے میڈیا میں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بڑی حد تک ان کوششوں میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ اگر اس کو روکا نہ گیا تو عوام کو گمراہ کرنا اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا ناممکن نہیں رہے گا۔
70 سال سے ہمارے ملک میں کسی نہ کسی حوالے سے جمہوریت کا کاروبار چل رہا ہے اور اس کاروبار میں ملک کے 20 کروڑ عوام کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے۔ ان کی ڈیوٹی صرف اتنی رہ گئی ہے کہ پانچ سال میں ایک بار اپنے طبقاتی دشمنوں کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں اور ان کے جلسوں کو کامیاب بناکر انھیں عوام اور خواص کو یہ دھوکا دینے کا موقع فراہم کریں کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اس حربے کے ذریعے انصاف کا رخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہ کوششیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں اگر ایسا ہوا تو ملک کا شیرازہ بھی بکھرسکتا ہے اور خون خرابے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری مڈل اور اپر مڈل کلاس اشرافیہ کی وکیل بن کر رہ گئی ہے اور ہر فورم پر اپنے آقاؤں کے گناہوں کی تردید کرتی نظر آرہی ہے۔ یہ گندا کام مڈل اور اپر مڈل کلاس کا وہ چھوٹا سا حصہ انجام دے رہا ہے اور اس خدمت کے عوض اپنے منہ کو موتیوں سے بھر رہا ہے اس کے پاس شاندار بنگلے ہیں، چمچماتی گاڑیاں ہیں، نوکروں کی فوج ہے اس کے بینکوں میں کروڑوں، اربوں روپے پڑے ہوئے ہیں جب کہ ایماندار مڈل اور اپر مڈل کلاس انتہائی مشکل زندگی گزار رہی ہے۔
اس سارے کھیل میں دنیا کا بدترین سرمایہ دارانہ نظام محور بن گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام وہ گندا پانی ہے جو بد دیانت، چور ڈاکو اور لٹیرے مچھروں کو جنم دیتا ہے اور بے چارے غریب عوام ان مچھروں کے کاٹنے سے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر رہ جاتے ہیں جن میں بھوک، بیکاری، تعلیم اور علاج سے محرومی وہ بیماریاں ہیں جو اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے جسموں سے جونکوں کی طرح چمٹی ہوئی ہیں۔ یہ بیمار جسم اشرافیہ خاص طور پر حکمران اشرافیہ کے لیے سیاسی کھاد کا کام انجام دے رہی ہیں۔
ہم نے کالم کے آغاز میں اس حقیقت کی نشان دہی کردی تھی کہ جب تک سیاست میں نیا خون نہیں آئے گا ملک ہر طرح کی برائیوں کا شکار رہے گا کیونکہ سیاست، جمہوریت کے ٹھیکیدار نہ صرف ان برائیوں کی حفاظت کرتے رہیںگے بلکہ ان میں دن دونی رات چوگنی اضافہ کرتے رہیںگے۔ اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست میں نئے خون کو آنے سے ہر حال میں روکا جائے۔
پاکستانی سیاست میں دھندلے نظریات رکھنے والے نئے سیاست دان بھی آرہے ہیں تو ان کے خلاف آسمان سر پر اٹھایا جارہاہے ان پر چاروں طرف سے اس منظم طریقے سے حملے کیے جارہے ہیں کہ ان کا سنبھلنا مشکل ہورہاہے۔ یہ نئے عناصر حالانکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاست میں اشرافیائی حربوں کا مقابلہ کرنا ان کے لیے آسان نہیں لیکن سیاسی اشرافیہ ان نو واردوں سے اس قدر خائف ہے کہ سیاسی حملوںکے ساتھ ساتھ ان کے خلاف ذاتی حملے کرکے عوام میں ان کی مقبولیت کو کم کرنے کی ایک منظم حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
ہماری حکمران اشرافیائی خاندان کے ایک اہم اور نامور رکن کا کہناہے کہ بلکہ موصوف بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر عوام کے مسائل حل نہ کیے گئے تو اس ملک میں ''خونی انقلاب آجائے گا'' اب ذرا اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ عوام کے مسائل ہیں کیا؟ عوام کے سب سے بڑے مسائل ہیں غربت، بھوک، بیماری، بیروزگاری، تعلیم اور علاج سے محرومی سر فہرست ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 70 سال سے اشرافیہ نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی؟ اس کا جواب ہے قطعی نہیں کی۔ انفرااسٹرکچر کے حوالے سے سڑکیں بناکر پل بناکر اور ہیڈ اور انڈر پاس بناکر حکمران اشرافیہ عوام کے مسائل کے حل کا پروپیگنڈا کررہی ہے اصل مسائل حل طلب ہیں تو پھر کیا ملک خونیں انقلاب کی طرف نہیں جائے گا؟