پروین رحمٰن قتل کیس کی گتھی 5 سال بعد بھی سلجھائی نہ جا سکی

پولیس حکام نے کئی بار کیس حل کرنے کے دعوے ضرور کیے لیکن عدالت میں تمام تر کارکردگی کا پول کھلتا چلا گیا

پولیس حکام نے کئی بار کیس حل کرنے کے دعوے ضرور کیے لیکن عدالت میں تمام تر کارکردگی کا پول کھلتا چلا گیا۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
پروین رحمن قتل کیس کی گتھی پانچ سال بعد بھی نہ سلجھائی جاسکی۔

پولیس حکام نے متعدد مرتبہ کیس حل کرنے کے دعوے ضرور کیے لیکن عدالت میں تمام تر کارکردگی کا پول کھلتا چلا گیا ، مقتولہ کے قریبی لوگ بھی پولیس کی کارکردگی سے مکمل طور پر غیر مطمئن ہیں ، 13 مارچ 2013 کی رات بنارس میں قائم اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر سے نکلنے والی پروین رحمن کا قاتل چند گز کے فاصلے پر ان کا انتظار کررہا تھا اور دفتر سے نکلنے والا یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔

عبداللہ کالج کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئیں ، واقعے کے دوسرے ہی روز اس وقت کے ڈی آئی جی ویسٹ کالعدم تنظیم کے کارندے قاری بلال کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ہی پروین رحمن کا قاتل قرار دیا ، عدالت میں رپورٹ جمع ہونے پر عدالت نے مسترد کردی۔

بعدازاں کئی تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کی گئیں لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا ، پروین رحمن کے قریبی لوگوں نے سال 2013 کے آخر میں ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کے بعد جوڈیشل کمیشن بنایا گیا۔

کمیشن میں بتایا گیا کہ قتل کے محرکات میں زمینوں کے معاملات ہوسکتے ہیں جس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے ، اسی کمیشن کی سفارش پر پہلی مرتبہ جے آئی ٹی بنائی گئی لیکن اس کے بعد بھی کیس حل نہ ہوا۔


اس دوران پولیس نے مانسہرہ سے رحیم سواتی ، احمد خان عرف پپو کشمیری اور ریاض نامی افراد کو گرفتار کیا جنھوں نے اپنے اعترافی بیانات میں بتایا کہ ان کا کچھ زمینوں کے معاملے پر پروین رحمن کے ساتھ اختلاف تھا اور قتل کی منصوبہ بندی منشیات فروش محفوظ اللہ عرف بھالو کے ایک ٹھکانے پر کی گئی لیکن محفوظ اللہ کی ہلاکت کے باعث ان بیانات کے کوئی شواہد نہیں مل سکے ہیں، اس کیس میں اب تک متعدد افراد کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے، واقعے کو 5 سال بیت گئے ہیں لیکن اب تک کیس کی گتھی نہیں سلجھ سکی۔

پروین رحمن 30 برس اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ رہیں

پروین رحمن تقریباً 30 برس اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ رہیں، انھوں نے ساری عمر غریبوں کی بھلائی کے لیے وقف کردی ، اس پروجیکٹ کے تحت کم لاگت والے مکانات تعمیر کرکے غریب افراد کو دیے جاتے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اورنگی ٹاؤن جیسے پسماندہ علاقے میں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بھی ان کا مشن تھی ، وہ جنوری 1957 میں ڈھاکا میں پیدا ہوئیں ، نوعمری میں ہی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آگئیں۔

انھوں نے 1982 میں داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی 1986 میں ہاؤسنگ اینڈ اربن پلاننگ میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا ، ان کی ایک بہن امریکا میں مقیم ہیں لیکن وہ کبھی بھی امریکا منتقل نہیں ہوئیں ، وہ چاہتیں تو ایک پرتعیش زندگی گزار سکتی تھیں لیکن انھوں نے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کو زندگی کی اولین ترجیح بنایا۔

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر بننے کے بعد سے ادارے کے تحت انھوں نے نوجوانوں کے لیے کئی پروگرامز متعارف کرائے جن میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ خصوصی طور پر شامل رہے ، اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جامعہ کراچی ، این ای ڈی یونیورسٹی ، انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اور دیگر معروف تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے ، اپنے کام سے ان کی مخلصی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے ساری زندگی شادی ہی نہیں کی۔

 
Load Next Story