لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈر جینیاتی عارضوں کا گروپ ہے مقررین
حکومت مریضوں کیلیے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کی سہولتیں فراہم کرے، طبی ماہرین
لاہور:
لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD)کی کور کمیٹی اور ماہرین کے پینل نے صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم، گورنرز، صوبائی وزرائے اعلٰی اور وزرائے صحت سے ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے علاج کیلیے مالی معاونت کی اپیل کی ہے تاکہ وہ بھی صحت مند زندگی گزار سکیں۔
لائسو سومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) کے موضوع پر معلوماتی سیمینار کراچی کے موون پک ہوٹل میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز کے زیرِ اہتمام منعقد کیا گیا ایل ایس ڈی کی کور کمیٹی، بچوں کے علاج کے ضلعی ماہرین ، ایل ایس ڈی کے مریض اور ان کے والدین نے شرکت کی اور تبادلہ خیال کیا مقررین میں ڈاکٹر ہانیہ اکبر راؤ، میگ جین اسپتال اسلام آباد، پروفیسر ہما ارشد چیمہ پروفیسر اینڈ ہیڈ آف پیڈیاٹریکس چلڈرن اسپتال لاہور، جنرل سلمان علی پرنسپل فضائیہ اسپتال راولپنڈی ، پروفیسر عائشہ مہناز اور این آئی بی ڈی کے سربراہ پروفیسر طاہر شمسی شامل تھے۔
طبی ماہرین کے پینل نے سیمینار میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مریضوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلیے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کیلیے سہولیات فراہم کرے حکومت کو مریض بچوں کے علاج کیلیے انزائم تھراپی کی دستیابی بھی یقینی بنانی ہوگی تاکہ وہ علاج کے بعد ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔
ممتاز ہیماٹولوجسٹ پروفیسر طاہر شمسی نے کہا کہ حکومت کو نمایاں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے اہل خانہ ملک بھر میں حکومت سے اپنے بچوں کے علاج کے لیے رابطہ کررہے ہیں تاکہ وہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں پاکستان میں حکومت کی جانب سے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص ، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کیلیے سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
زچگی کے دوران ایل ایس ڈی کی تشخیص کے مراکز کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ ایسے مریضوں کا قبل از پیدائش پتہ لگ سکے ان بیماریوں کے مریضوں کی قلیل تعدا د ہونے کے باعث حکومت کو فوری طور پر ان کے مفت علاج کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے مقررین نے حکومت سے لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) کے مریضوں کیلیے پالیسی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا۔
انزائم تھراپی پر مشتمل علاج پاکستان میں مریضوں کی اکثریت کی استطاعت سے باہر ہے لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) کے مریض ان بیماریوں کے باعث پیش آنے والی آزمائشوں سے نمٹتے ہوئے غیر معمولی حوصلے، صبر اور وقار کا مظاہرہ کرتے ہیں مقررین نے ایسے مریضوں کے ساتھ تعاون کیلیے حکومت پاکستان کو ایک خصوصی فنڈ مختص کرنے کا مشورہ دیا ماہرین نے مزید کہا، ان مریضوں کی بیت المال سے مالی امداد اور ایک آرفن ڈرگ پالیسی کی بھی ضرورت ہے۔
لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) جینیاتی عارضوں کا ایک گروپ ہے یہ انسانی جسم میں مخصوص فضلوں کی مصنوعات کو توڑنے کیلیے درکار انزائم میں خرابی کے باعث لاحق ہوتی ہیں یہ عمل خلیات کے عام فعل میں دخل اندازی کا سبب بن جاتا ہے جس کا نتیجہ جگر اور تلی کے غیر معمولی بڑھ جانے، خون کی بار بار منتقلی، ہڈیوں کی ساخت میں تبدیلی اور سینے کی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
تشخیص مریض کی عمر اور ایل ایس ڈی کی قسم اور شدت کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے زیادہ تر بچوں میں ایک سال کی عمر کے اندر اندر تشخیص ممکن ہے لاعلمی کے باعث تشخیص میں عموماً تاخیر ہوتی ہے اور متاثرہ بچے کم عمری میں ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں ایل ایس ڈی کی تشخیص ماضی میں ایک مشکل عمل تھا کیونکہ نمونے امریکا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا اور انڈیا بھیجنے پڑتے تھے فی ٹیسٹ خرچہ کم از کم 12 سے 15 ہزار روپے تھا اور رپورٹ میں 4 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا تھا۔
اب ایل ایس ڈی کے لیبارٹری ٹیسٹ صنوفی جنزائم کی جانب سے بغیر کسی اخراجات کے فراہم کی جارہی ہے اس ادارے کا شمار ایل ایس ڈی کے علاج کے لیے صف اول میں کیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایل ایس ڈی کے قابل علاج نئے مریضوں کی سالانہ تعداد 100سے زائد ہے چلڈرن اسپتال لاہور میں اندراجات کے مطابق ایل ایس ڈی کے مختلف عوارض کے قابلِ علاج مریضوں کی تعداد 350 سے زائد ہے اس میں زیادہ تعداد گوچے (Gaucher) اور ایم پی ایس ون کے مریضوں کی ہے پچھلے سال کے دوران 30 کے قریب مریض زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔
صرف کراچی میں 50 سے زائد مریضوں میں ایل ایس ڈی کی بیماریاں تشخیص ہوئی ہیں اور پچھلے سال کے دوران کراچی میں 7 مریض موت کا شکار ہوچکے ہیں ان بیماریوں کا علاج ایک تکلیف دہ موت کو صحت مند زندگی میں تبدیل کر سکتا ہے لیکن یہ علاج بہت مہنگا ہے ان بیماریوں کے شکار بچوں کو اپنے آپ کو لاحق عارضوں سے لڑنے کے لیے ڈاکٹرز، حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، مخیر حضرات، مریضوں کے اپنے خاندان کے افراد ، دوا ساز اداروں اور مریضوں کی امداد کے لیے مصروف عمل تمام متعلقہ اداروں اور انفرادی شخصیات کی جانب سے منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔
لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD)کی کور کمیٹی اور ماہرین کے پینل نے صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم، گورنرز، صوبائی وزرائے اعلٰی اور وزرائے صحت سے ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے علاج کیلیے مالی معاونت کی اپیل کی ہے تاکہ وہ بھی صحت مند زندگی گزار سکیں۔
لائسو سومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) کے موضوع پر معلوماتی سیمینار کراچی کے موون پک ہوٹل میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز کے زیرِ اہتمام منعقد کیا گیا ایل ایس ڈی کی کور کمیٹی، بچوں کے علاج کے ضلعی ماہرین ، ایل ایس ڈی کے مریض اور ان کے والدین نے شرکت کی اور تبادلہ خیال کیا مقررین میں ڈاکٹر ہانیہ اکبر راؤ، میگ جین اسپتال اسلام آباد، پروفیسر ہما ارشد چیمہ پروفیسر اینڈ ہیڈ آف پیڈیاٹریکس چلڈرن اسپتال لاہور، جنرل سلمان علی پرنسپل فضائیہ اسپتال راولپنڈی ، پروفیسر عائشہ مہناز اور این آئی بی ڈی کے سربراہ پروفیسر طاہر شمسی شامل تھے۔
طبی ماہرین کے پینل نے سیمینار میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مریضوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلیے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کیلیے سہولیات فراہم کرے حکومت کو مریض بچوں کے علاج کیلیے انزائم تھراپی کی دستیابی بھی یقینی بنانی ہوگی تاکہ وہ علاج کے بعد ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔
ممتاز ہیماٹولوجسٹ پروفیسر طاہر شمسی نے کہا کہ حکومت کو نمایاں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے اہل خانہ ملک بھر میں حکومت سے اپنے بچوں کے علاج کے لیے رابطہ کررہے ہیں تاکہ وہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں پاکستان میں حکومت کی جانب سے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص ، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کیلیے سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
زچگی کے دوران ایل ایس ڈی کی تشخیص کے مراکز کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ ایسے مریضوں کا قبل از پیدائش پتہ لگ سکے ان بیماریوں کے مریضوں کی قلیل تعدا د ہونے کے باعث حکومت کو فوری طور پر ان کے مفت علاج کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے مقررین نے حکومت سے لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) کے مریضوں کیلیے پالیسی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا۔
انزائم تھراپی پر مشتمل علاج پاکستان میں مریضوں کی اکثریت کی استطاعت سے باہر ہے لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) کے مریض ان بیماریوں کے باعث پیش آنے والی آزمائشوں سے نمٹتے ہوئے غیر معمولی حوصلے، صبر اور وقار کا مظاہرہ کرتے ہیں مقررین نے ایسے مریضوں کے ساتھ تعاون کیلیے حکومت پاکستان کو ایک خصوصی فنڈ مختص کرنے کا مشورہ دیا ماہرین نے مزید کہا، ان مریضوں کی بیت المال سے مالی امداد اور ایک آرفن ڈرگ پالیسی کی بھی ضرورت ہے۔
لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز (LSD) جینیاتی عارضوں کا ایک گروپ ہے یہ انسانی جسم میں مخصوص فضلوں کی مصنوعات کو توڑنے کیلیے درکار انزائم میں خرابی کے باعث لاحق ہوتی ہیں یہ عمل خلیات کے عام فعل میں دخل اندازی کا سبب بن جاتا ہے جس کا نتیجہ جگر اور تلی کے غیر معمولی بڑھ جانے، خون کی بار بار منتقلی، ہڈیوں کی ساخت میں تبدیلی اور سینے کی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
تشخیص مریض کی عمر اور ایل ایس ڈی کی قسم اور شدت کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے زیادہ تر بچوں میں ایک سال کی عمر کے اندر اندر تشخیص ممکن ہے لاعلمی کے باعث تشخیص میں عموماً تاخیر ہوتی ہے اور متاثرہ بچے کم عمری میں ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں ایل ایس ڈی کی تشخیص ماضی میں ایک مشکل عمل تھا کیونکہ نمونے امریکا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا اور انڈیا بھیجنے پڑتے تھے فی ٹیسٹ خرچہ کم از کم 12 سے 15 ہزار روپے تھا اور رپورٹ میں 4 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا تھا۔
اب ایل ایس ڈی کے لیبارٹری ٹیسٹ صنوفی جنزائم کی جانب سے بغیر کسی اخراجات کے فراہم کی جارہی ہے اس ادارے کا شمار ایل ایس ڈی کے علاج کے لیے صف اول میں کیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایل ایس ڈی کے قابل علاج نئے مریضوں کی سالانہ تعداد 100سے زائد ہے چلڈرن اسپتال لاہور میں اندراجات کے مطابق ایل ایس ڈی کے مختلف عوارض کے قابلِ علاج مریضوں کی تعداد 350 سے زائد ہے اس میں زیادہ تعداد گوچے (Gaucher) اور ایم پی ایس ون کے مریضوں کی ہے پچھلے سال کے دوران 30 کے قریب مریض زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔
صرف کراچی میں 50 سے زائد مریضوں میں ایل ایس ڈی کی بیماریاں تشخیص ہوئی ہیں اور پچھلے سال کے دوران کراچی میں 7 مریض موت کا شکار ہوچکے ہیں ان بیماریوں کا علاج ایک تکلیف دہ موت کو صحت مند زندگی میں تبدیل کر سکتا ہے لیکن یہ علاج بہت مہنگا ہے ان بیماریوں کے شکار بچوں کو اپنے آپ کو لاحق عارضوں سے لڑنے کے لیے ڈاکٹرز، حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، مخیر حضرات، مریضوں کے اپنے خاندان کے افراد ، دوا ساز اداروں اور مریضوں کی امداد کے لیے مصروف عمل تمام متعلقہ اداروں اور انفرادی شخصیات کی جانب سے منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔