چھاتی کے سرطان سے بچاؤ کے طریقے

خواتین کو چھاتی کے کینسر سے بچا سکتی ہے۔

خواتین کو چھاتی کے کینسر سے بچا سکتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

MANCHESTER:
ہمارے ملک میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے تاہم کچھ معلومات ہونے کے وجہ سے اس مرض سے بچاؤ ممکن ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ایشیائی ملکوں میں جس شہر میں چھاتی کے سرطان کی شرح سب سے بلند ہے، وہ کراچی ہے۔ ویسے تو اس شہر میں تعلیم یافتہ اور باخبر خواتین کی تعداد دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ وہ چھاتی کے سرطان کے متعلق اتنی باخبر نہیں ہیں جتنا انھیں ہونا چاہیے۔

یہ ایسا مہلک مرض ہے جس سے آگہی کے باعث ہی محفوظ رہا جاسکتا ہے، مگر مرض سے متعلق آگہی کا نہ ہونا، بے احتیاطی، شرم اور دیگر عناصر کے باعث خواتین کی اکثریت جانتے بوجھتے بھی اس موضوع پر نہ تو معلومات حاصل کرتی ہے اور نہ اس حوالے سے کوئی احتیاط برتتی ہے جس کے باعث ان میں بروقت مرض کی تشخیص نہیں ہو پاتی، حالاں کہ اگر ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص ہوجائے تو مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

موجودہ دور میں ہمارا میڈیا ہر موضوع پر معلومات اور آگہی فراہم کرتا رہتا ہے۔ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے بھی معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز بھی حقائق پر مبنی معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ بس ہماری خواتین کو اس جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ اس سلسلے میں از خود بھی اس بات کا پتا لگاتی رہیں کہ کہیں ان کی چھاتی میں کوئی گلٹی یا رسولی تو نہیں، کوئی گانٹھ تو محسوس نہیں ہورہی یا یہ کہ کچھ بڑھ تو نہیں رہی۔

ایسا شبہہ محسوس کرتے ہی فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور میمو گرافی کرواکر تسلی کرلیں۔ اپنے روزمرہ اطوار زندگی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں اور غور کریں کہ کیا اس میں ایسے عوامل شامل تو نہیں جو چھاتی کے سرطان کا سبب بن سکیں۔ اس میں رسک فیکٹر اہم ترین ہے، مثلاً آپ کی خوراک، وزن ، جسمانی مشقت میں کمی وغیرہ۔

اگر آپ کے خاندان میں چھاتی کے کینسر کا مرض موجود ہے تو خصوصی طور پر اور بہ صورت دیگر عمومی طور پر چھاتی کا معائنہ ہر چھے ماہ میں ضرور کروائیں اور ممکن ہو تو چھاتی کے لیے کیا جانے والا خاص ایکسرے میمو گرام بھی سال میں ایک مرتبہ ضرور کروالیا جائے تو بہت مفید ہوگا۔

اس کے علاوہ وہ پڑھی لکھی خواتین ہیں جو اس مرض سے آگہی رکھتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ لازمی اپنے حلقہ احباب ، آس پڑوس اور ملنے جلنے والیوں کو معلومات اور احتیاط فراہم کریں، خاص طور پر ان خواتین کو جن کی رسائی اخبارات، ٹی وی تک نہیں یا جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں اور غریب بھی ہیں، کیوں کہ اس مرض کے بارے میں آگہی کے باعث بہت سے کیسز ابتدائی مرحلے پر ہی تشخیص ہوسکیں گے اور اگر ابتدائی مراحل پر مرض تشخیص ہوجائے تو اس کا سوفی صد کام یاب علاج ممکن ہے۔

اگر آپ کے عزیز و اقارب میں سے کسی کو چھاتی کا کینسر ہے تو اپنی میمو گرافی کروانے کے علاوہ اپنی خوراک اور طرز زندگی میں بھی تبدیلی لائیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ جو خواتین خوراک میں چربی کا استعمال کم کرتی ہیں، پھل اور سبزیاں خصوصاً ریشے دار پھل اور سبزیاں زیادہ کھاتی ہیں اور باقاعدگی سے ورزش کرتی ہیں، ان میں سرطان کے خطرات کم ہوتے ہیں۔ ایک امریکی تحقیق کے مطابق جو خواتین بند گوبھی، پالک اور دیگر سبز پتوں والی سبزیاں زیادہ استعمال کرتی ہیں، وہ ان خواتین کی نسبت جو یہ سبزیاں استعمال نہیں کرتیں یا بہت کم کرتی ہیں چھاتی کے کینسر سے بچنے میں زیادہ کام یاب دیکھی گئی ہیں۔ لہٰذا فوراً ان سبزیوں کا استعمال شروع کردیں۔


ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سبزی خوری کے ذریعے 60 فی صد تک چھاتی کے سرطان سے بچاؤ ہوسکتا ہے۔ بروکلی، گوبھی اور بندگوبھی کے علاوہ سبز پھلیاں، مغزیات اور اناج کا استعمال بھی چھاتی کے سرطان سے بچاؤ میں معاون ہوسکتا ہے۔ پھلوں کا استعمال بھی مفید ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان اشیاء میں حیاتین، ریشوں اور معدنی نمکیات کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جو سرطان کو اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

چھاتی کے سرطان سے بچنے کے لیے ماہرین خواتین کو سبز پتوں والی ترکاریاں زیادہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جیسے کہ پالک اور اس کی فیملی کے تمام ساگ اور سبزیاں جیسے مولی، گاجر ، چقندر، شلجم ، ٹماٹر ، توری اور لوکی وغیرہ کا استعمال کریں۔ ان میں وافر مقدار میں جسم میں قوت مدافعت پیدا کرنے والے اجزا پائے جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لہسن اور پیاز خون صاف کرتی ہے اور جسم سے بیماریوں کو بھگاتی ہے۔ ٹماٹر میں وٹامن اے ، بی اور سی کے علاوہ وٹامن ڈی بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فولاد، کیلشیم اور تانبا، گندھک اور معدنی نمکیات کا بھی ذخیرہ ہوتا ہے۔ اس کا استعمال نہایت مفید اور صحت بخش ہے۔ آلو اگر چھلکے سمیت کھایا جائے تو اس کے چھلکے میں موجود کلوروجیک ایسڈ کینسر جیسی بیماری کے خلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔

سبزیوں کے علاوہ چاکلیٹ کی ایک قسم ڈارک چاکلیٹ کھاکر بھی بریسٹ کینسر کے خلاف جنگ لڑی جاسکتی ہے۔ ایسا ہم نہیں کہہ رہے بلکہ واشنگٹن کی جارج یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے شرکاء کا کہنا ہے کہ کوکو کی پھلیوں یا بیجوں میں ایسی پروٹین پائی جاتی ہے جو سرطان کے سیلز کو منقسم ہونے یا پھیلنے سے روکتی ہے۔ تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انھیں چاکلیٹ کے اصل جزو کوکو میں پروٹینز کی ایک مقدار نظر آئی جو باہمی طور پر بریسٹ کینسر کے خلیوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خواتین اسے زیادہ سے زیادہ چاکلیٹ کھانے کو بنیاد بنالیں، کیوںکہ اس طرح انھیں دیگر عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ اعتدال میں رہتے ہوئے دیگر اجزا کے ساتھ ساتھ چاکلیٹ کا استعمال بھی دوا سمجھ کر کریں۔ بریسٹ کینسر کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں تاہم کچھ ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ ابتدائی زندگی میں استعمال ہونے والی خوراک آئندہ زندگی میں خواتین میں بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔

مشاہدے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ چھاتی کا سرطان خواتین کو ابتدائی برسوں سے ہی جکڑنا شروع کردیتا ہے لہٰذا انھیں کھانے پینے کی عادات سے اس دوران اسے قابو میں رکھنا چاہیے، تاکہ اس مرض کے خطرات کو کم کیا جاسکے۔

امریکی محققین کے مطابق چھوٹی بچیاں جو متواتر فرنچ فرائز کھانے کی عادی ہوتی ہیں، بلوغت میں داخل ہونے کے بعد چھاتی کے سرطان کے خطرات سے دوچار ہوسکتی ہیں جب کہ ہر ہفتے محض ایک مرتبہ اضافی فرائز کھانے سے چھاتی کے سرطان کے خطرات 27 فی صد تک بڑھ سکتے ہیں لہٰذا اگر بچیاں فرنچ فرائز کی عادی ہیں تو ان کی اس عادت کو ترک کروادیں۔

اپنی زندگی میں سبزیوں، پھلوں ، اناج اور میووں کا استعمال بڑھا دیں، اور کچھ نہیں تو کم از کم سبزیوں کی مقدار ضرور دگنی کردیں۔ سبزیوں اور پھلوں میں صحت کے خزانوں کے ساتھ ساتھ حسن کا خزانہ بھی پوشیدہ ہے۔ سبزیاں ہمارے بال، ناخن، جلد اور ہڈیوں کی نشوونما نہ صرف کرتی ہیں، بلکہ جسم میں قوت مدافعت پیدا کرکے ہمیں بیماریوں سے بھی بچاتی ہیں۔

 
Load Next Story