’نوجوان لڑکیاں‘ سرپرستی چاہتی ہیں
ہماری نوجوان بچیوں کو ہماری مدد اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں کہ اپنے چھوٹوں اور اپنی نئی نسل کی خاص طور سے اپنی بیٹیوں کی عادتیں سنوارنے کے لیے بڑوں کو بعض اوقات سختیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور ایسے انداز اختیار کرنے پڑتے ہیں جنہیں دیکھ کر بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ اپنے چھوٹوں کو پسند نہیں کرتیں یا انہیں نئی نسل سے متعدد اختلافات ہیں جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔
ممکن ہے ایسے مواقع پر ہماری بچیاں یا نوجوان لڑکیاں بڑوں کے اس سلوک کو اپنے لیے ناقابل برداشت تصور کریں اور انہیں بھی اپنے سینیرز کا یہ سلوک پسند نہ آئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوجوان لڑکیوں کی بڑی بہنوں یا امیوں کو اس ضمن میں بھی کچھ نہ کچھ سوچنا چاہیے اور ان کی پوزیشن یا ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بدلنی چاہیے۔
مثال کے طور پر ایک نوجوان لڑکی جو کوئی کم عمر یا کم سن بچی نہیں تھی، بلکہ بارہ سال تیرہ سال کا ایک ایسی سمجھ دار لڑکی تھی جو اپنے چہرے سے خاصی الجھی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ بات کیا تھی؟ بات یہ تھی کہ یہ لڑکی اس اسکول میں جانا نہیں چاہتی تھی جہاں اس کے والدین نے اس کا داخلہ کروایا تھا۔ وہ خاص طور سے اپنی ممی سے ضد کررہی تھی، مگر جب اس کی ممی نہ مانیں یا یوں کہہ لیں کہ انہوں نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دی تو اس لڑکی نے مایوس ہوکر اپنی بڑی بہن کی مدد حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف رخ کیا، مگر وہ بھی کچھ نہ کرسکی۔
وہاں موجود دیگر لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ یقیناً اس لڑکی کی اس ضد کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ ضرور رہی ہوگی۔ وہ اسکول کیوں جانا نہیں چاہتی، اس ضمن میں اس کے والدین کو ضرور سوچنا چاہیے تھا اور اس بچی کو الجھن سے نکالنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ مگر وہاں ایسا دکھائی نہیں دے رہا تھا، وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جس اسکول میں انہوں نے اپنی بچی کا داخلہ کرادیا ہے، وہ اس میں خاموشی سے چلی جائے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ نہ تو ہمارے والدین یعنی ہمارے بڑوں کو اپنی بچیوں کو ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کی وجوہ معلوم ہوتی ہیں اور نہ ہی اسکولوں میں انہیں مستقبل کے لیے تیار کرنے والی ٹیچرز کو ان کا کوئی علم ہوتا ہے۔ ہماری بچیوں کو پالنے اور ان کی عمدگی سے تربیت کرنے والی خواتین ان سارے معاملات کی ذمے دار ہیں۔ ان کی تھوڑی سی توجہ اگر نوجوان بچیوں کی زندگی سنوار سکتی ہے تو ان کے بے پروائی اسے بگاڑ بھی سکتی ہے۔
نوجوان نسل کی تربیت کرنے والی خواتین چاہے وہ مائیں ہوں یا ٹیچرز، بعض اوقات ان کے رویے اتنے زیادہ سخت ہوجاتے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں یا تو شدید قسم کے احساس کم تری کا شکار ہوجاتی ہیں یا ذہنی طور پر اس حد تک ڈسٹرب ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا مستقبل تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ نوجوان لڑکیاں اور طالبات بہت حساس طبیعت کی مالک ہوتی ہیں، ان میں سے اکثر لڑکیاں اپنی ماؤں، ٹیچرز یا بڑی بہنوں کی زیادہ توجہ چاہتی ہیں، کیوں کہ وہ اپنی سینیر خواتین کے رویے کو قبول کرتی ہیں اور اس سے بہت متاثر ہوتی ہیں۔
ماؤں، بڑی بہنوں اور ٹیچرز کو بھی اپنی نوجوان نسل کی تربیت کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنے ذہن میں یہ بات بھی رکھنی ہوگی کہ ایک ہی گھر یا ایک ہی کلاس میں بہت سی الگ الگ ذہنی صلاحیتوں کی لڑکیاں موجود ہوتی ہیں، جب کہ خواتین کا اور بالخصوص ٹیچرز کا کام ہے ان سب کو ساتھ لے کر چلنا۔
اگر بڑی بہنیوں، بھابھیاں اور مائیں اپنے سے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کریں، پیار و محبت کا سلوک کریں، ان کی بات کو سنیں اور سمجھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری نوجوان لڑکیاں اور ہماری بچیاں کسی بھی قسم کی الجھن، پریشانی یا مشکل میں مبتلا ہوں۔ اگر مائیں اپنی بیٹیوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں تو انہیں اپنی بچیوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے اور بہت سی الجھنیں اور پریشانیاں سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم ہوسکتی ہیں۔
ہماری نوجوان بچیوں کو ہماری مدد اور سرپرستی کی ضرورت ہے، اگر ہم ان کی عمدگی سے راہ نمائی کریں گے تو یہ بچیاں اور لڑکیاں مستقبل میں بہترین مائیں، بہترین شہری، مفید اور کارآمد بہنیں بن سکیں گی۔ اس کے بعد ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ترقی کرسکے گا اور ہماری نوجوان قوت بھی بڑھ سکے گی۔
ممکن ہے ایسے مواقع پر ہماری بچیاں یا نوجوان لڑکیاں بڑوں کے اس سلوک کو اپنے لیے ناقابل برداشت تصور کریں اور انہیں بھی اپنے سینیرز کا یہ سلوک پسند نہ آئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوجوان لڑکیوں کی بڑی بہنوں یا امیوں کو اس ضمن میں بھی کچھ نہ کچھ سوچنا چاہیے اور ان کی پوزیشن یا ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بدلنی چاہیے۔
مثال کے طور پر ایک نوجوان لڑکی جو کوئی کم عمر یا کم سن بچی نہیں تھی، بلکہ بارہ سال تیرہ سال کا ایک ایسی سمجھ دار لڑکی تھی جو اپنے چہرے سے خاصی الجھی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ بات کیا تھی؟ بات یہ تھی کہ یہ لڑکی اس اسکول میں جانا نہیں چاہتی تھی جہاں اس کے والدین نے اس کا داخلہ کروایا تھا۔ وہ خاص طور سے اپنی ممی سے ضد کررہی تھی، مگر جب اس کی ممی نہ مانیں یا یوں کہہ لیں کہ انہوں نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دی تو اس لڑکی نے مایوس ہوکر اپنی بڑی بہن کی مدد حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف رخ کیا، مگر وہ بھی کچھ نہ کرسکی۔
وہاں موجود دیگر لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ یقیناً اس لڑکی کی اس ضد کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ ضرور رہی ہوگی۔ وہ اسکول کیوں جانا نہیں چاہتی، اس ضمن میں اس کے والدین کو ضرور سوچنا چاہیے تھا اور اس بچی کو الجھن سے نکالنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ مگر وہاں ایسا دکھائی نہیں دے رہا تھا، وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جس اسکول میں انہوں نے اپنی بچی کا داخلہ کرادیا ہے، وہ اس میں خاموشی سے چلی جائے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ نہ تو ہمارے والدین یعنی ہمارے بڑوں کو اپنی بچیوں کو ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کی وجوہ معلوم ہوتی ہیں اور نہ ہی اسکولوں میں انہیں مستقبل کے لیے تیار کرنے والی ٹیچرز کو ان کا کوئی علم ہوتا ہے۔ ہماری بچیوں کو پالنے اور ان کی عمدگی سے تربیت کرنے والی خواتین ان سارے معاملات کی ذمے دار ہیں۔ ان کی تھوڑی سی توجہ اگر نوجوان بچیوں کی زندگی سنوار سکتی ہے تو ان کے بے پروائی اسے بگاڑ بھی سکتی ہے۔
نوجوان نسل کی تربیت کرنے والی خواتین چاہے وہ مائیں ہوں یا ٹیچرز، بعض اوقات ان کے رویے اتنے زیادہ سخت ہوجاتے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں یا تو شدید قسم کے احساس کم تری کا شکار ہوجاتی ہیں یا ذہنی طور پر اس حد تک ڈسٹرب ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا مستقبل تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ نوجوان لڑکیاں اور طالبات بہت حساس طبیعت کی مالک ہوتی ہیں، ان میں سے اکثر لڑکیاں اپنی ماؤں، ٹیچرز یا بڑی بہنوں کی زیادہ توجہ چاہتی ہیں، کیوں کہ وہ اپنی سینیر خواتین کے رویے کو قبول کرتی ہیں اور اس سے بہت متاثر ہوتی ہیں۔
ماؤں، بڑی بہنوں اور ٹیچرز کو بھی اپنی نوجوان نسل کی تربیت کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنے ذہن میں یہ بات بھی رکھنی ہوگی کہ ایک ہی گھر یا ایک ہی کلاس میں بہت سی الگ الگ ذہنی صلاحیتوں کی لڑکیاں موجود ہوتی ہیں، جب کہ خواتین کا اور بالخصوص ٹیچرز کا کام ہے ان سب کو ساتھ لے کر چلنا۔
اگر بڑی بہنیوں، بھابھیاں اور مائیں اپنے سے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کریں، پیار و محبت کا سلوک کریں، ان کی بات کو سنیں اور سمجھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری نوجوان لڑکیاں اور ہماری بچیاں کسی بھی قسم کی الجھن، پریشانی یا مشکل میں مبتلا ہوں۔ اگر مائیں اپنی بیٹیوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں تو انہیں اپنی بچیوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے اور بہت سی الجھنیں اور پریشانیاں سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم ہوسکتی ہیں۔
ہماری نوجوان بچیوں کو ہماری مدد اور سرپرستی کی ضرورت ہے، اگر ہم ان کی عمدگی سے راہ نمائی کریں گے تو یہ بچیاں اور لڑکیاں مستقبل میں بہترین مائیں، بہترین شہری، مفید اور کارآمد بہنیں بن سکیں گی۔ اس کے بعد ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ترقی کرسکے گا اور ہماری نوجوان قوت بھی بڑھ سکے گی۔