اسکروٹنی کی چھلنی

مین اسٹریم پارٹیوں میں ابھی تک سب سے پتلی حالت پیپلز پارٹی کی ہے۔ اسے کہیں امیدوار نہیں مل رہے تو کہیں حلقہ تبدیل۔۔۔

ayazkhan@express.com.pk

الیکشن 2013 ء میں محض 5 ہفتے کے قریب وقت بچا ہے۔ مختلف شہروں میں جلسے ہو رہے ہیں لیکن انفرادی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز چند دن میں ہو گا۔ یہ الیکشن اس لحاظ سے مشکل ہو گا کہ ماضی میں امیدواروں کے لیے پولنگ ڈے تک پہنچنا اتنا مشکل کبھی نہیں رہا۔ نادہندگان، ٹیکس چور، دہری شہریت یا جعلی ڈگری والے الیکشن کمیشن سے بچ بھی گئے تو متحرک عدلیہ کے شکنجے میں ضرور آ جائیں گے۔

مجھے خطرہ ہے جس طرح مرکزی حکومت کے لیے نگراں وزراء کی تلاش بہت مشکل کام ہے اسی طرح اسکروٹنی کی چھلنی سے نکل کر الیکشن ڈے تک پہنچنے والے خوش قسمت امیدواروں کی تعداد بھی کافی تھوڑی رہ جائے گی۔ اسکروٹنی کے خوف کا یہ عالم ہے کہ اس بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے سات ہزار امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جب کہ گزشتہ انتخابات میں یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ یعنی آٹھ ہزار تھی۔ جمع کرائے گئے کاغذات میں بھی ایک بڑی تعداد متبادل امیدواروں کی ہو گی۔ ایک معقول تعداد کاغذات واپس لے لے گی اور بہت سے اسکروٹنی میں فارغ ہو جائیں گے۔

مجھے ڈر ہے کہیں اسکروٹنی کے بعد قومی یا صوبائی اسمبلی کا کوئی ایسا حلقہ نہ سامنے آ جائے جس میں تمام بڑی پارٹیوں کے امیدوار نا اہل قرار پائیں اور کوئی عام آدمی (یہ وہ عام آدمی نہیں جس کی حالت بدلنے کے وعدے اور دعوے ہمارے سارے حکمران کرتے ہیں) وہاں سے بآسانی جیت کر اسمبلی میں پہنچ جائے۔

اس عمل میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہوگا۔ الیکشن کمیشن عدلیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میڈیا کی خبروں اور تجزیوں کا مسلسل نوٹس لے رہا ہے اور انھیں اپنی پالیسیوں کا حصہ بنانے میں مصروف ہے۔ سیاسی جماعتوں کی حالت بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کو امیدوار نہیں مل رہے تو ن لیگ اور تحریک انصاف میں ایک ایک ٹکٹ کے لیے کئی کئی امیدوار ہیں۔ پری پول سروے بتاتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی جماعت سب سے زیادہ پاپولر ہے۔ یہ سروے رپورٹیں سچ مان لی جائیں تو اگلی باری میاں صاحب کی بنتی ہے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ ان کی تحریک انصاف الیکشن میں سب کا دھڑن تختہ کردے گی۔ وہ ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کر چکے ہیں اور اب تو انھوں نے خواب بھی دیکھ لیا ہے کہ ان کی پارٹی کلین سویپ کریگی۔ اپنا یہ خواب انھوں نے اتوار کو سوات میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران بتایا۔ اللہ نہ کرے ان کا خواب منظور وسان کے خوابوں جیسا نکلے۔


مین اسٹریم پارٹیوں میں ابھی تک سب سے پتلی حالت پیپلز پارٹی کی ہے۔ اسے کہیں امیدوار نہیں مل رہے تو کہیں حلقہ تبدیل کرنے پر امیدوار ناراض ہیں۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول ملک سے باہر ہیں پیپلز پارٹی کہتی ہے وہ سیکیورٹی کی وجہ سے واپس نہیں آ رہے جب کہ میڈیا میں کچھ اور ہی خبریں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد یعنی صدر آصف علی زرداری سے ناراض ہیں۔ وجہ جو بھی ہو بلاول کا اس موقع پر ملک سے باہر رہنا پارٹی کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ زرداری صاحب کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ صدر ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔

ان کے اعلان کے مطابق اگر یوسف رضا گیلانی نے انتخابی مہم کی قیادت کی تو پیپلز پارٹی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دیگر جماعتوں میں مولانا فضل الرحمٰن نے مینار پاکستان گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسے کا انعقاد کر کے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ جماعت اسلامی کے منور حسن نے کراچی میں شباب ملی کی ایک بڑی ریلی سے خطاب کیا۔ ایم کیو ایم پہلے ہی اپنے امیدوار فائنل کرچکی ہے انتخابی مہم کے حوالے سے اے این پی سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ اس کے امیدواروں کو دہشتگردی کی کارروائیوں کا مستقل خطرہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کا ایک انداز سیاست ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بے رحمانہ اسکروٹنی شروع کر دی ہے۔ اس اسکروٹنی سے جو بچ پائیں گے وہی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔

آپ سمجھ رہے ہیں کہ اس بار الیکشن بہت پھیکے رہیں گے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ اداکارہ میرا نے کاغذات جمع کرا کے الیکشن لڑنے کے اعلان کو سچ کردیا ہے۔ لیلیٰ سیاست میں آنے کا اعلان کر چکی ہیں لیکن انھوں نے کاغذات داخل نہیں کرائے۔ الیکشن لڑنے کے لیے شرط ہے کہ امیدوار کی عمر 25 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ آپ جانتے ہیں ہماری فلمی ہیروئنیں اپنی عمر کے بارے میں کافی حساس واقع ہوئی ہیں۔ ان کی عمر بڑھنے کی رفتار کھچوے کی چال سے بھی سست ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے لیلیٰ نے ابھی 25 سال کا ہونا پسند نہ کیا ہو۔

میرا کی ہمت کی داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے عمر کی سلور جوبلی تک پہنچنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ الیکشن تو وہ شاید جیسے تیسے لڑ لیں اگلے انتخابات میں حصہ لینا ان کے لیے کافی مشکل ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پانچ سال بعد الیکشن ہوئے تو انھیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی عمر تیس سال ہو گئی ہے۔ مسرت شاہین بھی اداکارہ ہیں لیکن ان کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ وہ ایک مدت سے مولانا کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اور شاید تب تک لڑتی رہیں گی جب تک وہ اپنا مقصد پا نہیں لیتیں۔ اداکاراؤں کی بات ہو رہی ہے تو اس موقع پر وینا ملک کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ وہ کسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہوتیں تو مجال ہے کسی دوسرے حلقے کا ذکر بھی ہو جاتا۔ پورے ملک میں صرف اور صرف وینا ملک اور ان کی انتخابی مہم کا چرچہ ہوتا ۔وہ الیکشن میں ایسا رنگ بھرتیں کہ اس کے سامنے سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے۔

خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ ان کی اکثریت کو آپ جانتے ہیں۔ مجھے یہاں بادام زری کا ذکر کرنا ہے۔ یہ پہلی باہمت خاتون ہے جو قبائلی علاقے سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ یوں بادام زری کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو جائے گا۔ خیبرپختونخوا میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ ہی نہیں ڈالنے دیا جاتا وہاں کسی خاتون کا الیکشن لڑنا واقعی قابل داد ہے۔ نتائج جو بھی نکلیں ایک بات طے ہے کہ یہ الیکشن مشکل بھی ہوں گے اور دلچسپ بھی۔ بہت کچھ ایسا ہونے کی امید رکھیں جو پہلے کبھی کسی الیکشن میں نہیں ہوا۔ کوششیں سب کرتے ہیں' کامیابی سب کو نصیب نہیں ہوتی۔ خواب دیکھنے پر پابندی نہیں' یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوں گے یا شرمندہ رہیں گے' کون جانے؟۔
Load Next Story