وزیروں کی تلاش

تعجب ہے کہ وزارت جس کے لیے لوگ ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں،آج وہ اتنی بے وقعت ہوگئی ہے کہ اس کو قبول کرنے پرکوئی تیارنہیں ہے


Abdul Qadir Hassan April 01, 2013
[email protected]

پاکستان پر حکمرانی کے لیے جب سے نگراں قسم کے لوگ آئے ہیں تب ہی حمید گل صاحب نے فوراً ایک پیغام بھیجا تھا کہ ''خدا کا شکر ہے رچرڈ اولسن (امریکی سفیر) خود ہی نگراں بن گئے ہیں''۔ یہ مختصر سا پیغام بظاہر ایک طنز ہے لیکن یہ ایک واقعہ کا بیان بھی ہے اور ہمیں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ اب الیکشن تک ہمارا حکمران کون ہوگا۔

امریکا اور پاکستان کا تعلق یوں تو مدتوں سے آقا اور محکوم کا تھا لیکن اب بات اتنی کھل گئی ہے کہ تمام تکلفات برطرف سیدھی بات کہہ دی گئی ہے۔ تکلف برطرف کا یہ واقعہ ہمیں ایوب خان کا دور یاد دلاتی ہے جب اس کی کابینہ کے وزیر شعیب صاحب امریکی ہونے کا پردہ بھی نہیں کرتے تھے، امریکی سفارت خانے میں ان کے لیے ایک کمرہ مختص تھا جس میں ٹیلی پرنٹر پر بیٹھ کر وہ کابینہ کے اجلاس کی رپورٹ یا کسی دوسرے اہم واقعہ کی رپورٹ ارسال کرتے تھے تب پیغام رسانی کا تیز رفتار طریقہ یہی ٹیلی پرنٹر ہوتا تھا۔

اخباروں کے دفاتر میں بھی خبروں کے لیے ٹیلی پرنٹر ہوا کرتا تھا جو دن رات کھٹ کھٹ کرتا رہتا تھا۔ ہم لوگ جب اس سے کوئی خبر پھاڑتے تھے تو کبھی کسی ساتھی کی مزاحاً آواز آتی تھی دیکھ لینا کہیں شعیب صاحب کا کوئی پیغام نہ ہو۔ اب وہ رکھ رکھاؤ اور تکلف کا زمانہ گزر گیا ہے اور ہماری نئی عوامی حکومت بنانے کے لیے امریکا خود ہی آ گیا ہے۔

کبھی ہم کہا کرتے تھے کہ امریکا ہمیں ریاستہائے متحدہ کی ایک ریاست کیوں نہیں بنا لیتا اب یہی سمجھیں کہ یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے اگر ہمارے مطالبے کو آئینی حیثیت دینی پڑے تو پھر نہ جانے کتنے ملکوں کو ایسی حیثیت دینی پڑ جائے گی اس لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے جو امریکا نے پاکستان کے لیے اپنایا ہے اور خود ہی ہمارا نگراں حکمران بن گیا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔

امریکا جس حکومت کی نگرانی کر رہا ہے وہ بھی ایک تماشا ہے۔ وزیر اعظم ہے چار وزراء اعلیٰ ہیں مگر بعض صوبوں میں لوگ ان کے وزیر بننے پر تیار نہیں اور چیف سیکریٹری جیسے عہدے سے انکاری ہیں۔ تازہ خبروں میں بتایا گیا کہ پنجاب میں تو چند وزراء بن گئے ہیں لیکن وفاق میں ابھی تک سوائے بلند قہقہوں کے کچھ نہیں۔ پہلے پنجاب کی ایک بات عرض کروں کہ وزیر تو بن گئے لیکن اس صوبے کا چیف سیکریٹری بننے پر فی الحال کوئی افسر تیار نہیں۔ تعجب ہے کسی زمانے میں چیف سیکریٹری کو چھوٹا لاٹ صاحب کہا جاتا تھا اور سول سیکریٹریٹ کو دفتر لاٹ صاحب۔

گورنر جو عموماً برطانیہ کے لارڈ ہوتے تھے اسی دفتر میں بیٹھتے تھے مگر حکومت عملاً چیف سیکریٹری کے پاس ہوتی تھی جسے چھوٹا لاٹ صاحب کہا جاتا تھا۔ ویسے لارڈ تو چلے گئے اور دفتر لاٹ صاحب اب سول سیکریٹریٹ بن گیا لیکن چھوٹا لاٹ صاحب اب بھی چیف سیکریٹری ہی ہوتا ہے اور حکومت یہی افسر چلاتا ہے شاید اسی اہمیت کی وجہ سے اس عہدے پر کوئی پکا سرکاری افسر تیار نہیں ہے۔ بہر کیف یہ تو ہوتا ہی رہے گا اصل معاملہ تو وفاق میں اٹکا ہوا ہے اور ہماری وفاقی حکومت نہیں بن رہی یعنی اب صوبے تو ہیں مگر وفاق نہیں ہاتھ پاؤں ہیں مگر سر نہیں۔

لگتا ہے وفاق میں وزیروں کی تلاش میں کوئی دقت پیش آ رہی ہے اس کا ایک پرانا قدیمی حل بھی موجود ہے پہلے زمانوں میں جب شہروں کی فصیلیں اور دروازے ہوتے تھے تو سابقہ بادشاہ کے درباری کہہ دیتے کہ کل صبح شہر کے دروازے پر جو پہلا مسافر آئے گا، وہ ہمارا بادشاہ ہو گا اور خالی تخت پر بیٹھے گا۔ اب جدید دارالحکومت اسلام آباد میں نہ کوئی فصیل ہے نہ دروازہ، اب تو حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ جو کوئی اسلام آباد ایئر پورٹ پر پہلا مسافر اترے وہ ہمارا وزیر اعظم ہو گا۔

تعجب ہے کہ وزارت جس کے لیے لوگ ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں،آج وہ اتنی بے وقعت ہو گئی ہے کہ اس کو قبول کرنے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ امریکا نے وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ تو مقرر کر دیے مگر بھول ہو گئی ان کا عملہ مقرر نہیں کیا۔ بہر کیف یہ تو ہو ہی جائے گا لیکن پاکستانیوں کو یہ پتہ چل گیا کہ ان کے حکمران اصل میں کیا ہوا کرتے ہیں اور ان کا اقتدار کتنا بوگس ہوتا ہے اور وہ خود اس سے زیادہ بوگس۔

اب جب میں ان بوگس نگراں حکمرانوں پر اتنے الفاظ ضایع کر چکا ہوں تو مجھے اپنے پر افسوس ہو رہا ہے کہ میں بھی شاید ایسا ہی کوئی بوگس صحافی ہوں جو اپنے موضوع کی قدر و قیمت جانے بغیر اس پر لکھنا شروع کردیتا ہے۔ ان بوگس اور کرائے کے حکمرانوں کے ساتھ رہتے رہتے اور ان کی سرگرمیوں پر لکھتے لکھتے میں بھی ان کے بد اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ ان دنوں الیکشن کی تیاریاں شروع ہیں اور جماعتیں عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنے منشور پیش کر رہی ہیں کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔

مجھے گستاخانہ تعجب ہوتا ہے کسی ایسی جماعت پر جو گزشتہ پانچ جمہوری برسوں میں تو حکومت وقت کے ساتھ رہی اور اس کی تمام ظالمانہ خرابیوں میں اس کا حصہ بنی رہی اور اب بھی ہے لیکن اپنی تقریروں اور منشوروں میں اس کی مذمت کرتی ہے۔ ایسی دیدہ دلیری صرف دستار و جبہ کے پردے میں ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگ جب الیکشن کے امیدوار ہوں گے تو ان کی کامیابی ہمیں کیا دے گی، اس کا اندازہ ان کے گزشتہ پانچ برسوں سے اور وہ اب بھی جو ہیں اس سے لگا لیجیے۔ یا اللہ تو ہم پر رحم فرما!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں