نظریاتی اور مفاداتی سیاست

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں جو نظریاتی جماعتیں ہیں جن کے نظریات اور منشور مختلف ہیں۔

بلوچستان اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر آیت اﷲ درانی نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں نظریاتی سیاست ختم ہوکر رہ گئی ہے اور سیاسی جماعتیں گینگز بن گئی ہیں اور گزشتہ5سالوں میں ملک میں گینگ پولیٹکس ہی دیکھی گئی ہے اور میں بھی اس کا حصہ رہا ہوں۔ انھوں نے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ پی پی حکومت کو گینگز کا سامنا رہا ۔

جن کی ٹھوڑی اور گھٹنوں کو ہاتھ لگا لگا کر اپنی مدت پوری کرنا پڑی ہے اور اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ان سیاسی گینگز سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اس موقعے پر متحدہ کے رہنما حیدر عباس رضوی نے اپنے دوست ڈاکٹر درانی سے اتفاق نہیں کیا اور دعویٰ کیا کہ متحدہ ایک نظریاتی جماعت ہے، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا بھی اس موقعے پر کہنا تھا کہ نظریاتی سیاست ختم نہیں ہوئی۔

پی پی کی اتحادی حکومت نے اپنے اقتدار کے5 سال جس طرح کی مجبوریوں اور منت سماجتوں میں مکمل کیے اس کی حقیقت ڈاکٹر آیت اﷲ نے بیان کردی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت نہ رکھنے والی پیپلزپارٹی نے محض اقتدار کے لیے اپنے اتحادیوں کی ہر جائز ناجائز بات مانی، انھیں وزارتیں دیکر ادارے تباہ کرادیے اور نام نہاد مفاہمت جو اصل میں سیاسی مفاد پرستی تھی کا نام لے کر اپنے5سال تو پورے کرلیے مگر اس دور میں سیاسی مفاد پرستی، کرپشن اور اقرباء پروری کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ۔

جب حکومت کے جانے کے دن آئے تو پہلے جے یو آئی فضل الرحمن گروپ اور متحدہ نے صرف ایک ماہ قبل اتحادی حکومت سے علیحدگی وہ بھی عملی نہیں بلکہ دکھاوے کی اختیار کرکے اپوزیشن کا روپ دھار لیا۔ پی پی حکومت کے کئی اہم رہنماؤں نے بھی اپنی قومی اسمبلی کی نشست اور پارٹی چھوڑدی اور پی پی، ق لیگ اور ن لیگ کے رہنماؤں نے ہوا کا رخ دیکھ کر دوسری جماعتوں میں جاکر پناہ حاصل کی اور کسی نے بھی اپنی پارٹی چھوڑنے کے اصل حقائق نہیں بتائے۔

ڈاکٹر آیت اﷲ نے نظریاتی سیاست ختم ہونے کی جو بات کی ہے وہ ( کراچی کی سیاسی و سماجی بدامنی کی حد تک) درست ضرور ہے مگر یہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا کہ ملک بھر سے نظریاتی سیاست مکمل طورپرختم ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں اب بھی کچھ ایسے رہنما اور نظریاتی کارکن موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی اپنی آبائی سیاسی پارٹیوں ہی میں گزار دی اور اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں نہیں گئے اور اپنے نظریے اور اپنے ساتھ زیادتیوں کے باوجود اب بھی اپنی پارٹی میں موجود ہیں۔

وہ بے لوث رکن رہے اور مال بنانے والوں کے ہم دوش نہیں رہے۔ نظریاتی سیاست در حقیقت ان کے ہی دم سے قائم رہی ہے،اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے بااعتبار رہنماؤں کو ان کی نظریاتی کمک ایک گمشدہ میراث کی شکل میں کسی حد تک آج بھی موجود ہے۔


مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا مگر مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ اور گروپنگ کا شکار ہوتی رہی اور مسلم لیگ کے مختلف گروپوں میں لوگوں کا آنا جانا لگا رہا جب کہ تمام گروپوں کا نظریہ ایک ہی تھا،1967میں پاکستان پیپلزپارٹی اپنے روٹی کپڑے اور مکان کے منشور اور منفرد نظریے کے باعث وجود میں آئی تو مسلم لیگ کے مختلف گروپوں میں شامل لوگوں نے مسلم لیگ کی گروپنگ کے باعث پیپلزپارٹی سے نظریاتی اختلاف کے باوجود اس کی مقبولیت دیکھ کر اس میں شامل ہونا شروع کردیا ہے ۔

جس کے بعد مسلم لیگ کی مقبولیت دن بدن کم اور پیپلزپارٹی کی بڑھتی گئی اور پیپلزپارٹی کے قیام کے45 سالوں میں مسلم لیگ مختلف گروپوں میں تقسیم رہی اور 1985 کے عام انتخابات میں حکومت بنانے کے بعد نظریاتی مسلم لیگی محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں کئی گروپوں کو ساتھ ملاکر مسلم لیگ کو منظم کیا مگر مسلم لیگ ہی کی حکومت1988 میں جنرل ضیاء نے برطرف کی جس کے بعد مسلم لیگ پھر گروپ بندی کا شکار ہوگئی،1985 کے بعد ملک میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بنتی رہیں اور فوجی سربراہوں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے اقتدار کے لیے مسلم لیگ کو استعمال کیا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے علاوہ ملک میں مذہبی جماعتوں کا بھی زور رہا جن میں جمعیت علمائے اسلام کو بڑی جماعت قرار دیا جاتاہے جس کے بعد جماعت اسلامی ہے جن کے عقائد تقریباً یکساں ہیں مگر راہیں جدا ہیں،1970 میں جے یو پی قائم ہوئی جس کے اب کئی گروپ ہیں مگر نظریہ ایک ہے، اے این پی سیکولر پارٹی ہے جس کا نظریہ مختلف ہے جب کہ سندھ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں تقریباً ایک جیسا قوم پرستی کا نظریہ رکھتی ہیں اور مختلف گروپوں میں تقسیم ہیں، جماعت اسلامی اور جے یو آئی دیوبندی مکتبہ فکر کی جماعتیں ہیں جن میں جے یو آئی کے اب بھی دو تین گروپ ہیں، مگر نظریہ ایک ہے، پیپلزپارٹی میں بھی گروپ بنے مگر ناکام رہے اب بھی پیپلزپارٹی کے شہید بھٹو اور این پی پی گروپ ہیں مگر ان میں اختلاف نظریاتی نہیں بلکہ شخصی ہے۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں جو نظریاتی جماعتیں ہیں جن کے نظریات اور منشور مختلف ہیں اور ان دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی اکثریت ایسی ہے جو پیپلزپارٹی میں بھی رہے اور مسلم لیگ ن میں بھی، ایسے لوگوں کے پاس دونوں پارٹیوں کے پرچم ہیں وہ جب وفاداری بدلتے ہیں تو ان کے بنگلوں پر لگے جھنڈے بھی بدل جاتے ہیں لوگوں نے ان کے بنگلوں پر دونوں پارٹیوں کے جھنڈے لگے دیکھے ہیں۔

عام انتخابات کے باعث سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی بھی زوروں پر ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں اہمیت نہ ملنے یا نظر انداز کیے جانے والے سیاسی لوگ بڑی تعداد میںتحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں اور دعوے کررہے ہیں کہ انھیں تحریک انصاف کا منشور اور نظریہ پسند آیا۔ اسی لیے وہ یہاں آئے ہیں جب کہ یہ لوگ اس سے قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے نظریے اور منشور کے دلدادہ رہے ہیں، عام انتخابات میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہ ملنے کے باعث اب پارٹیوں کی تبدیلیاں شروع ہوگئی ہیں اور انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر دونوں پارٹیاں مشکل میں ہیں، ان پر کارکنوں کا بھی دباؤ ہے مگر انھیں ایسے امیدوار درکار ہیں جو کسی بھی طرح انتخاب جیتنے کی طاقت رکھتے ہوں۔

میانوالی میں عمران خان کے عزیز بھی خفا ہیں اور بڑی پارٹیوں کے لیے ممکن نہیں کہ اپنے تمام رہنماؤں کو خوش کرسکیں۔

اصل میں اب نظریاتی سیاست پر اب ذاتی مفاداتی سیاست حاوی ہوچکی ہے اور ایسے لوگوں کا نظریہ صرف اور صرف سیاسی اور ذاتی مفاد بن چکا ہے، صدر زرداری ثابت کرچکے ہیں کہ مفاد کے لیے قاتل لیگ قرار دی جانے والی پارٹی کو بھی شریک اقتدار کیاجاسکتاہے اور اب نواز شریف بھی پی پی اور ق لیگ سے آنے والوں کو گلے لگا رہے ہیں جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ قومی رہنما بھی نظریاتی نہیں بلکہ ذاتی اور مفاد پرستی کی سیاست پر مجبور ہوچکے ہیں۔
Load Next Story