بلوچستان سے ایک اور وزیر اعظم

انتظامی طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی بلوچستان کو شرقی اور غربی کے نام پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

khanabadosh81@gmail.com

اختر مینگل نے یہ درست ہی کہا کہ میر ہزار کھوسہ کی نگران وزارت عظمیٰ کی شکل میں بلوچوں کو ایک اور لولی پاپ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ (ان کا اگلا فقرہ بھی ان کی حسِ مزاح کا بھرپورنمونہ تھا کہ اب ہماری لولی پاپ کی عمر نہیں رہی) حسنِ اتفاق یہ بھی ہے کہ نگران وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان کے اسی ضلع سے ہے، جس سے بلوچستان کی تاریخ میں،ملک کا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔

پرویز مشرف کے عہد میں جب ایک ووٹ کی برتری سے میر ظفراللہ خان جمالی کو وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر جلوہ افروز کیا گیا تو تب بھی یہی ترانے فضاؤں میں گونجے تھے کہ بلوچستان سے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد بلوچوں کا احساسِ محرومی کسی حد تک کم ہو جائے گا۔ بلوچوں کا احساسِ محرومی تو خیرکیا دور ہونا تھا، اٹھارہ ماہ بعد جمالی صاحب اپنی محرومیوں کی داستان سناتے، اشک بہاتے، جان بچاتے واپس آئے۔

اپنے آبائی علاقے میں انھوں نے جو پہلی پریس کانفرنس کی، اس کالبِ لباب تھا''جان بچی سو لاکھوں پائے!'' آدابِ غلامی سے ناواقف ایک سرپھرے صحافی نے بھری محفل میں جب کہہ دیا کہ جناب، قائد تو وہ ہوتے ہیں جو اپنے عوام کے لیے سولی چڑھ جاتے ہیں،آپ ہیں کہ جان بچا کر آنے پر عوام سے شکرانے کے نفل ادا کرنے کو کہہ رہے ہیں؟ تب حفظِ مراتب میں وہ محفل میں تو کچھ نہ کہہ پائے ، لیکن محفل برخاست ہوئی تو اپنے 'بیربلوں' کے توسط سے نوجوان صحافی کو پیغام بھجوایا کہ آیندہ محفل میں سوال ذرا سوچ سمجھ کر کریں۔

سندھ بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع جعفرآباد، جناح صاحب کے قریبی ساتھی میر جعفرخان جمالی کے نام پر آباد ہے۔ جمالی اور کھوسہ یہاں کے روایتی سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں ۔ ضلع کی چارتحصیلوں ،صدر مقام ڈیرہ اللہ یار، صحبت پور، اوستہ محمد اورگنداخہ میں سے ڈیرہ اللہ یار اور اوستہ محمد ایک طویل عرصے تک سندھ کے زیر انتظام بھی رہے ہیں۔ بھٹو دورکے آخری ایام میں انھیں نصیرآباد ڈویژن میں ضم کر کے بلوچستان کے زیرانتظام کر دیا گیا۔

اُنیس سواَسی کی دہائی میں جعفرآباد کو الگ ضلع کی حیثیت دے دی گئی تو جھٹ پٹ کو کھوسہ قبائل کے سرکردہ رہنما میراللہ یار کھوسہ کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ڈیرہ اللہ یار کا نام دیا گیا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں انتظامی تبدیلیوں کے تحت جب بلوچستان کے تین اضلاع کو ختم کر کے جعفرآباد کو نصیرآباد میں ضم کر دیا تو جمالی صاحبان نے جعفرخان کا نام نہ کھونے کی خواہش میں ڈیرہ اللہ یار کا سرکاری نام جعفرآباد رکھوادیا۔ گو کہ یہ تقسیم کچھ ہی عرصہ قائم رہ سکی، اور اس کا کوئی اور فائدہ عوام کو تو نہ ہو سکا البتہ یہاں کے صحافیو ں کو اس کا ایک فائدہ اس صورت میں ہوا کہ اب ایک ہی اخبار میں وہاں کے دو نمایندے یہ کہہ کر نمایندگی کا کارڈ لے آتے ہیں کہ ایک ڈیرہ اللہ یار کا نمایندہ ہے، ایک جعفرآباد کا۔حالانکہ اب جعفرآباد نام کا کوئی مقام نہیں، بلکہ یہ چار تحصیلوں پر مبنی ضلع کا نام ہے۔

اس مختصر پس منظر سے آگاہی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جمالی اور کھوسہ قبائل کی سیاست بس اسی دوڑ دھوپ تک رہی ہے۔ سیاسی طور پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے سوا انھوں نے ساٹھ برس میں اور کوئی کارکردگی نہیں دکھائی ۔ حالانکہ یہ بلوچستان کا (اور اگر مبالغہ نہ ہوتو شاید پاکستان کا ) واحد ضلع ہے جہاں سے (اب) دو وزرائے اعظم، تین وزیر اعلیٰ ،ایک اسپیکر صوبائی اسمبلی، ایک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور کئی وفاقی و صوبائی وزراء منتخب ہو چکے ہیں، یعنی سوائے صدارت کے ملک تمام عہدوں پہ ان کا انتخاب ہو چکا ہے۔لیکن صوبہ تو رہا ایک طرف، ضلع کی یہ حالت ہے کہ کہیں ایک کلو میٹر پختہ سڑک آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ یہ وہی ضلع ہے ،حالیہ برسوں میں سیلاب نے جسے دو بار تہس نہس کر کے رکھ دیا، لیکن یہ عوامی نمایندے تب بھی عوام کو ڈھونڈے سے کہیں نہ ملے۔


انتظامی طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی اس ضلع کو شرقی اور غربی کے نام پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ شرقی میں صحبت پور اور ڈیرہ اللہ یار کی دو تحصیلیں ہیں، جہاں کھوسہ قبائل سیاسی طور پر مضبوط سمجھے جاتے ہیں،جب کہ مغربی حصے میں اوستہ محمد اور گنداخہ شامل ہیں، جہاں جمالی خاندان کی سیاسی اجارہ داری ہے۔ گو کہ بلوچستان میں مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہر دو قبائل کو مقتدرہ کا قریبی اور پروردہ سمجھا جاتا ہے، لیکن درحقیقت جمالی خاندان سیاست میں زیادہ ماہر ہے۔ اس کی ایک وجہ طویل عرصے سے ان کی سیاست کی غلام گردشوں سے آشنائی بھی ہے۔

کھوسہ قبائل کو شریف النفس سمجھا جاتا ہے۔ یہ مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بناتے۔ لیکن اس سے زیادہ عوام دوستی کی توقع بھی ان سے عبث ہے۔ جمالی صاحب کی وزرات عظمیٰ سے لے کر اسی خاندان کو ملنے والی سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمین شپ، اور صوبائی و وفاقی وزارت تک اگر اوستہ محمد سے ضلعی صدر مقام ڈیرہ اللہ یار کے مابین پینتیس کلومیٹر سڑک تعمیر نہیں ہو سکی، تو کھوسہ قبائل کو ملنے والی صوبائی اسمبلی کی اسپیکر شپ سے کر صوبائی وزارتوں کے دوران صحبت پور سے ڈیرہ اللہ یار کے مابین تیس کلو میٹر سڑک بنی ،نہ ہی دو بار آنے والے سیلاب کے متاثرین کی کوئی داد رسی ہوئی۔

زرعی علاقہ ہونے کے باوصف ہر دو قبائل بے انتہا زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ جمالی خاندان کی زمینیں تیزی سے فروخت ہوتی رہی ہیں، لیکن اب بھی یہ خاصی زمینوں پر دسترس رکھتے ہیں، جب کہ کھوسہ قبائل بھی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل زرعی زمینوں کی ملکیت کے مالک ہیں۔ نگران وزیر اعظم میر ہزار کھوسہ، اپنے آبائی گاؤں میراعظم کھوسہ میں ہزاروں نہیںتو سیکڑوں ایکڑ زرعی اراضی رکھتے ہیں اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آیندہ دو ماہ میں اس میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں کے کھوسوں اور جمالیوں کو ،دیگر بلوچ قبائل کی نسبت کم تر سمجھا جاتا ہے(بالخصوص ان کی قربت میں واقع بگٹیوں اور مریوں میں یہ تاثر گہرا ہے) ، سیاسی طور پر بھی انھیں خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کی ایک وجہ ان کا اپنا رویہ بھی ہے، جس میں یہ عمومی بلوچ تحریک سے ہمیشہ لاتعلق رہے ہیں۔ حتیٰ کہ نواب بگٹی کے بہیمانہ قتل پہ جب لاہور اور اسلام آباد میں بھی احتجاج ہو رہا تھا، اس کے نواح میں واقع اس ضلع میں مٹھائیاں تقسیم ہو رہی تھیں۔

نواب بگٹی سے سیاسی یا قبائلی اختلاف ممکن ہے، لیکن جس انداز میں انھیں قتل کیا گیا، اس پر ایسا ردِ عمل ظاہر ہے نہ تو قابلِ فراموش ہے نہ قابلِ معافی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ بگٹی کے بعد،بگٹی شورش کا مرکز اب یہی دو اضلاع(جعفرآباد اور نصیرآباد) رہ گئے ہیں۔ بگٹی اکثریت کی حامل کالعدم مزاحمتی تنظیم بی آر اے کی اکثر سرگرمیاں انھی علاقوں میں ہوتی ہیں۔یہاں کے سیاسی عمائدین کی مقتدرہ حلقوں سے یاری کا خمیازہ یہاں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

قطع نظر اس کے، بلوچستان میں ایک نواب سے عنانِ اقتدار لے کرنگران سیٹ اپ ایک اور نواب کے ہاتھ میں دینا، اور نگران وزارتِ عظمیٰ ایک غیر سیاسی زمیندار کو سونپنا بلوچستان کی اجتماعی سیاسی دانش کی توہین ہے۔ نگرا ن سیٹ اپ کے لیے بلوچستان میں نہ تو غیر جانبدار سیاسی ورکرز کی کمی ہے نہ ہی ایسی علمی شخصیات کی جو اس مرحلے کو بخوبی سر انجام دے سکیں۔ عوامی عہدوں کے لیے غیر عوامی شخصیات کا انتخاب ، عوامی اداروں پر سے بلوچستان کے عوام کا اعتماد مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔کیا ہی اچھا ہو کہ آیندہ نگران سیٹ اپ اہلِ سیاست کی بجائے اہلِ دانش کے ہاتھ میں سونپ دیا جائے۔

شاید اسی بہانے یہاں کی سیاست میں کچھ 'دانش' بھی شامل ہو سکے۔ ورنہ دانش دشمن مقتدرہ کی جانب سے نوابوں اور وڈیروں کی پشت پناہی انھیں عوام سے مزید دو رکر دے گی۔اس لیے پاکستان میں نگران وزیر اعظم کو خواہ کتنا ہی غیر جانبدار سمجھا جائے، بلوچستان میں انھیں قبولیت حاصل نہیں ہو گی۔ نیز یہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ بلوچستان میں ابھی سیاسی باگ ڈور غیر سنجیدہ نوابوں اور غیر سیاسی وڈیروں کے ہی ہاتھ میں رہے گی، ڈاکٹر حئی بلوچ اور ایڈوکیٹ علی احمد کردجیسے مڈ ل کلاس سیاسی نمایندوں کی جدوجہد کا ثمر ہنوز دُور است۔
Load Next Story