انتخابی سیاست
پاکستان کے محب وطن عوام لبرل اسلامی جمہوریت کے حامی ہیں اس لیے مذہبی فرقوں کے نام سے چلنے والی پارٹیوں کو ووٹ نہیں۔۔۔
پاکستان میں اس وقت ملک گیر سطح کی صرف دو مقبول عام سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ایک پاکستان مسلم لیگ اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی۔ یہ دونوں یہاں کی سیاست میں حریف پارٹیاں بھی ہیں۔ وطن عزیز میں فوجی حکومتوں کے دور میں مسلم لیگ برسراقتدار رہی ہے۔ سول جمہوری دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی باری باری اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہی ہیں۔
نیٹ ورک کے حساب سے جماعت اسلامی بھی ایک قدیم تاریخی پارٹی ہے جس کی پورے ملک میں ہر جگہ شاخیں ہیں لیکن اس کا پارلیمانی کردار کچھ متاثر کن نہیں ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 25-26 سال سے صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں بڑی مقبول عام پارٹی رہی ہے۔ اور عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے مرکزی اور صوبائی اقتدار میں حصے دار چلی آرہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے علاقوں میں کچھ اثر رکھتی ہے۔ پیر صاحب پگارا شریف کی فنکشنل مسلم لیگ صوبہ سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں میں مقبول ہے۔
اب یہ صوبہ سندھ میں مقبولیت کے حساب سے پیپلز پارٹی کے مدمقابل آچکی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی صوبہ خیبر پختونخواہ میں اکثریت رکھتی ہے۔ 2008 کے انتخابات میں سندھ اسمبلی میں بھی اس کی دو نشستیں تھیں، سابق کرکٹر عمران خان کی تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ق )آمر پرویز مشرف کے دور میں فوجی چھتری تلے بنائی گئی تھی۔ 2002 سے 2007 تک یہ مرکز اور چاروں صوبوں میں حکمران تھی۔ لیکن 2008 کے انتخاباتمیں اسے زبردست جھٹکا لگا اور یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے بعد تیسرے نمبر پر آئی۔
گزشتہ 5 سالوں میں بھی اس نے ترقی معکوس کا سفر جاری رکھا کسی مضبوط مقبول عام اور کرشماتی شخصیت کی حامل قیادت کے فقدان کے باعث یہ پارٹی کنونشن لیگ کی طرح تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی چلی گئی۔ اس کے اہم ممبران زیادہ تر اصل مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور چند ایک پیپلز پارٹی کے حلقہ بگوش ہوگئے۔ سو یہ اب سکڑتے سکڑتے چوہدری برادران تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ان کے پاس پارٹی کا بہت بڑا فنڈ پڑا ہے جس کو استعمال کرکے یہ اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شایع کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے محب وطن عوام لبرل اسلامی جمہوریت کے حامی ہیں اس لیے مذہبی فرقوں کے نام سے چلنے والی پارٹیوں کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ یہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کے نام سے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ ان کے علاوہ وطن عزیز میں بہت سی مقامی علاقائی قبائلی اور گروہی سیاسی پارٹیاں ہیں جو نسلی، لسانی اور قبائلی نوعیت کی سیاست کرتی ہیں۔ ان کی تعداد تو اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن مخصوص محدود علاقوں کے علاوہ کہیں دوسری جگہ وجود نہیں رکھتیں۔ یہ زیادہ تر پریشر گروپ ہیں۔
فروری 2008 کے جنرل الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق (مرکز) میں حکومت بنائی تو پاکستان مسلم لیگ اس کی اتحادی بنی لیکن چند دنوں بعد وہ اختلاف کرکے حکومت سے باہر آگئی اور حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھ گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت کے اتحادی بن گئے۔ تین سال بعد مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی حزب اختلاف میں شامل ہوگئی۔ ادھر مسلم لیگ (ق) حکومت میں شامل ہوگئی۔ اس طرح آخر میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) کے تعاون سے مرکزی حکومت چلتی رہی۔
حکومت کی داخلی، خارجی، معاشی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی پالیسیاں عموماً پیپلزپارٹی ہی بناتی تھی بعض پالیسیوں پر متحدہ قومی موومنٹ حکومت کے اندر رہ کر سخت احتجاج کرتی تھی۔ کئی دفعہ یہ حکومت چھوڑ کر باہر بھی آگئی تھی لیکن حکمرانوں کی منت سماجت کے بعد یہ پھر حکومت میں شامل ہوجاتی تھی۔
اب پانچ سال بعد پھر انتخابات کا موسم آگیا ہے۔ کچھ پارٹیاں علیحدہ الگ الگ انتخابات میں اترنا چاہتی ہیں اور کچھ متحد ہوکر اپنی قسمت آزمانا چاہتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے خلاف سب سے بڑا اتحاد صوبہ سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ کی سربراہی میں بن چکا ہے۔ اس میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) نیشنل پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، پاکستان سنی تحریک، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند اور قومی عوامی تحریک جیسی دس جماعتیں شامل ہیں۔
پنجاب میں (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی گزشتہ پانچ سالہ ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لیے اتحاد کیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد چاہ رہی ہے۔ تحریک انصاف صوبہ سندھ اور بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب صوبہ خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں جماعت اسلامی کے ساتھ کچھ سیٹوں پر معاہدہ ہورہا ہے جسے تحریک انصاف کی پیپلز پارٹی کو بالواسطہ طور پر تقویت پہنچانے کے عزائم کی بناء پر عوامی پذیرائی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
جماعت اسلامی اپنے منشور اور نظریاتی رجحان کی بناء پر تحریک انصاف کی نسبت مسلم لیگ کے زیادہ قریب ہے جوکہ ملک کے نہایت تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدانوں پر مشتمل پارٹی ہے۔ مسلم لیگ سے دوری جماعت اسلامی کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نوزائیدہ پارٹی سے بھی اتحاد کرلیا ہے اس طرح مختلف قسم کے اتحاد بن رہے ہیں اور غالب امکان یہ ہے کہ مکس پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں زیادہ امکانات ہیں کہ مسلم لیگ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔
کیونکہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ حکمرانی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مقبولیت ختم ہوچکی ہے لیکن اس کے حکمرانوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اور ان کے وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ ہر حال میں انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو سیدھے راستے سے انتخاب لڑنے سے تو ممکن نہیں ہے۔ البتہ کچھ غیر سیاسی غیر اخلاقی منفی ہتھکنڈے استعمال ہوں گے۔ اس پارٹی کا سب سے بڑا ہدف ہے کہ کہیں مسلم لیگ زیادہ نشستیں حاصل نہ کرجائے اس لیے کچھ پارٹیوں سے کھلم کھلا اور کچھ سے خفیہ طور پر مفاہمت کا امکان ہے۔
اور دامے درمے سخنے ان کی مدد کی جائے گی۔ جماعت اسلامی ،تحریک تحفظ پاکستان اور مسلم لیگ نظریاتی پارٹیاں ہیں یہ کسی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گی۔ زیادہ امکانات ہیں کہ کھلم کھلا اور خفیہ طور پر علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی حمایت کی جائے گی کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں مسلم لیگ کی نسبت پیپلز پارٹی کے نزدیک ہیں ان کے ذریعے پیپلز پارٹی کے مخالف اور مسلم لیگ کے حامی ووٹروں کو مختلف مسائل کھڑے کرکے کنفیوژ کرکے تقسیم کردیا جائے گا۔
ظاہراً یہ دونوں پارٹیاں پیپلز پارٹی کی ناقص حکمرانی کی وجہ سے عوام کے ڈر سے اس پارٹی کی ہلکی ہلکی مخالفت کر رہی ہیں لیکن بالواسطہ اور بلاواسطہ اپنی حکمت عملیوں کے ذریعے عوام کی مرضی کے خلاف پیپلز پارٹی کو ہی دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اگر واقعی یہ دونوں پارٹیاں اور دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ملک میں مستحکم جمہوریت چاہتی ہیں اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتی ہیں تو یہ سب مل کر مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کریں اور مسلم لیگ کو بھی ایک بار پانچ سال کے لیے موقع دیں تاکہ وہ اپنے انقلابی اور فلاحی منشور پر عمل کرکے اپنی کارکردگی دکھاسکے۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ کو ہر طرح کی پیش کش کرکے عوامی اتحاد سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ لیکن پیر صاحب پگارا شریف زبان اور کردار کے پکے ہیں وہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو جنہوں نے انھیں اپنا قائد بنایا ہے دھوکا نہیں دیں گے اور ہرگز ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اب چونکہ دو ہی بڑی پارٹیاں ہیں، دو وہی انتخابی اتحاد بننے چاہئیں۔ خفیہ اور بالواسطہ سیاست نہیں ہونی چاہیے جن پارٹیوں کو پیپلز پارٹی پسند ہے اور وہ اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں وہ عوام سے نہ ڈریں بلکہ کھل کر اس کے ساتھ اتحاد کریں اور باقی پارٹیاں مسلم لیگ کی سربراہی میں اتحاد بنائیں تاکہ مضبوط حکومت قائم ہوسکے اور وہ ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرسکیں۔
نیٹ ورک کے حساب سے جماعت اسلامی بھی ایک قدیم تاریخی پارٹی ہے جس کی پورے ملک میں ہر جگہ شاخیں ہیں لیکن اس کا پارلیمانی کردار کچھ متاثر کن نہیں ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 25-26 سال سے صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں بڑی مقبول عام پارٹی رہی ہے۔ اور عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے مرکزی اور صوبائی اقتدار میں حصے دار چلی آرہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے علاقوں میں کچھ اثر رکھتی ہے۔ پیر صاحب پگارا شریف کی فنکشنل مسلم لیگ صوبہ سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں میں مقبول ہے۔
اب یہ صوبہ سندھ میں مقبولیت کے حساب سے پیپلز پارٹی کے مدمقابل آچکی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی صوبہ خیبر پختونخواہ میں اکثریت رکھتی ہے۔ 2008 کے انتخابات میں سندھ اسمبلی میں بھی اس کی دو نشستیں تھیں، سابق کرکٹر عمران خان کی تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ق )آمر پرویز مشرف کے دور میں فوجی چھتری تلے بنائی گئی تھی۔ 2002 سے 2007 تک یہ مرکز اور چاروں صوبوں میں حکمران تھی۔ لیکن 2008 کے انتخاباتمیں اسے زبردست جھٹکا لگا اور یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے بعد تیسرے نمبر پر آئی۔
گزشتہ 5 سالوں میں بھی اس نے ترقی معکوس کا سفر جاری رکھا کسی مضبوط مقبول عام اور کرشماتی شخصیت کی حامل قیادت کے فقدان کے باعث یہ پارٹی کنونشن لیگ کی طرح تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی چلی گئی۔ اس کے اہم ممبران زیادہ تر اصل مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور چند ایک پیپلز پارٹی کے حلقہ بگوش ہوگئے۔ سو یہ اب سکڑتے سکڑتے چوہدری برادران تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ان کے پاس پارٹی کا بہت بڑا فنڈ پڑا ہے جس کو استعمال کرکے یہ اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شایع کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے محب وطن عوام لبرل اسلامی جمہوریت کے حامی ہیں اس لیے مذہبی فرقوں کے نام سے چلنے والی پارٹیوں کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ یہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کے نام سے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ ان کے علاوہ وطن عزیز میں بہت سی مقامی علاقائی قبائلی اور گروہی سیاسی پارٹیاں ہیں جو نسلی، لسانی اور قبائلی نوعیت کی سیاست کرتی ہیں۔ ان کی تعداد تو اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن مخصوص محدود علاقوں کے علاوہ کہیں دوسری جگہ وجود نہیں رکھتیں۔ یہ زیادہ تر پریشر گروپ ہیں۔
فروری 2008 کے جنرل الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق (مرکز) میں حکومت بنائی تو پاکستان مسلم لیگ اس کی اتحادی بنی لیکن چند دنوں بعد وہ اختلاف کرکے حکومت سے باہر آگئی اور حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھ گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت کے اتحادی بن گئے۔ تین سال بعد مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی حزب اختلاف میں شامل ہوگئی۔ ادھر مسلم لیگ (ق) حکومت میں شامل ہوگئی۔ اس طرح آخر میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) کے تعاون سے مرکزی حکومت چلتی رہی۔
حکومت کی داخلی، خارجی، معاشی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی پالیسیاں عموماً پیپلزپارٹی ہی بناتی تھی بعض پالیسیوں پر متحدہ قومی موومنٹ حکومت کے اندر رہ کر سخت احتجاج کرتی تھی۔ کئی دفعہ یہ حکومت چھوڑ کر باہر بھی آگئی تھی لیکن حکمرانوں کی منت سماجت کے بعد یہ پھر حکومت میں شامل ہوجاتی تھی۔
اب پانچ سال بعد پھر انتخابات کا موسم آگیا ہے۔ کچھ پارٹیاں علیحدہ الگ الگ انتخابات میں اترنا چاہتی ہیں اور کچھ متحد ہوکر اپنی قسمت آزمانا چاہتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے خلاف سب سے بڑا اتحاد صوبہ سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ کی سربراہی میں بن چکا ہے۔ اس میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) نیشنل پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، پاکستان سنی تحریک، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند اور قومی عوامی تحریک جیسی دس جماعتیں شامل ہیں۔
پنجاب میں (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی گزشتہ پانچ سالہ ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لیے اتحاد کیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد چاہ رہی ہے۔ تحریک انصاف صوبہ سندھ اور بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب صوبہ خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں جماعت اسلامی کے ساتھ کچھ سیٹوں پر معاہدہ ہورہا ہے جسے تحریک انصاف کی پیپلز پارٹی کو بالواسطہ طور پر تقویت پہنچانے کے عزائم کی بناء پر عوامی پذیرائی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
جماعت اسلامی اپنے منشور اور نظریاتی رجحان کی بناء پر تحریک انصاف کی نسبت مسلم لیگ کے زیادہ قریب ہے جوکہ ملک کے نہایت تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدانوں پر مشتمل پارٹی ہے۔ مسلم لیگ سے دوری جماعت اسلامی کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نوزائیدہ پارٹی سے بھی اتحاد کرلیا ہے اس طرح مختلف قسم کے اتحاد بن رہے ہیں اور غالب امکان یہ ہے کہ مکس پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں زیادہ امکانات ہیں کہ مسلم لیگ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔
کیونکہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ حکمرانی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مقبولیت ختم ہوچکی ہے لیکن اس کے حکمرانوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اور ان کے وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ ہر حال میں انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو سیدھے راستے سے انتخاب لڑنے سے تو ممکن نہیں ہے۔ البتہ کچھ غیر سیاسی غیر اخلاقی منفی ہتھکنڈے استعمال ہوں گے۔ اس پارٹی کا سب سے بڑا ہدف ہے کہ کہیں مسلم لیگ زیادہ نشستیں حاصل نہ کرجائے اس لیے کچھ پارٹیوں سے کھلم کھلا اور کچھ سے خفیہ طور پر مفاہمت کا امکان ہے۔
اور دامے درمے سخنے ان کی مدد کی جائے گی۔ جماعت اسلامی ،تحریک تحفظ پاکستان اور مسلم لیگ نظریاتی پارٹیاں ہیں یہ کسی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گی۔ زیادہ امکانات ہیں کہ کھلم کھلا اور خفیہ طور پر علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی حمایت کی جائے گی کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں مسلم لیگ کی نسبت پیپلز پارٹی کے نزدیک ہیں ان کے ذریعے پیپلز پارٹی کے مخالف اور مسلم لیگ کے حامی ووٹروں کو مختلف مسائل کھڑے کرکے کنفیوژ کرکے تقسیم کردیا جائے گا۔
ظاہراً یہ دونوں پارٹیاں پیپلز پارٹی کی ناقص حکمرانی کی وجہ سے عوام کے ڈر سے اس پارٹی کی ہلکی ہلکی مخالفت کر رہی ہیں لیکن بالواسطہ اور بلاواسطہ اپنی حکمت عملیوں کے ذریعے عوام کی مرضی کے خلاف پیپلز پارٹی کو ہی دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اگر واقعی یہ دونوں پارٹیاں اور دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ملک میں مستحکم جمہوریت چاہتی ہیں اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتی ہیں تو یہ سب مل کر مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کریں اور مسلم لیگ کو بھی ایک بار پانچ سال کے لیے موقع دیں تاکہ وہ اپنے انقلابی اور فلاحی منشور پر عمل کرکے اپنی کارکردگی دکھاسکے۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ کو ہر طرح کی پیش کش کرکے عوامی اتحاد سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ لیکن پیر صاحب پگارا شریف زبان اور کردار کے پکے ہیں وہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو جنہوں نے انھیں اپنا قائد بنایا ہے دھوکا نہیں دیں گے اور ہرگز ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اب چونکہ دو ہی بڑی پارٹیاں ہیں، دو وہی انتخابی اتحاد بننے چاہئیں۔ خفیہ اور بالواسطہ سیاست نہیں ہونی چاہیے جن پارٹیوں کو پیپلز پارٹی پسند ہے اور وہ اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں وہ عوام سے نہ ڈریں بلکہ کھل کر اس کے ساتھ اتحاد کریں اور باقی پارٹیاں مسلم لیگ کی سربراہی میں اتحاد بنائیں تاکہ مضبوط حکومت قائم ہوسکے اور وہ ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرسکیں۔