افغانستان میں داعش پاکستان کو الرٹ رہنے کی ضرورت

خطرہ مسلسل بڑھتے بڑھتے اب پاکستان کی سرحدوں تک آ پہنچا ہے۔


Editorial February 27, 2018
خطرہ مسلسل بڑھتے بڑھتے اب پاکستان کی سرحدوں تک آ پہنچا ہے۔ فوٹو:فائل

پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ایک عرصے سے داعش کی موجودگی اور اس کے بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی کی جا رہی ہے لیکن امریکی اور افغان حکومت اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی طے نہیں کر سکیں جس کے نتیجے میں یہ خطرہ مسلسل بڑھتے بڑھتے اب پاکستان کی سرحدوں تک آ پہنچا ہے۔

اب پاک افغان سرحدی علاقوں میں داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات اور پاکستان میں اس کے قدم جمانے سے روکنے کے لیے خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے صوبے کی پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل سے معاونت کی درخواست کر دی ہے۔

داعش کا وجود عراق میں ظہور پذیر ہوا' جس نے دیکھتے دیکھتے اتنی قوت پکڑ لی کہ اس نے عراق' شام اور ارد گرد کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کر لی' قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اپنی خود ساختہ خلافت کا اعلان کیا تو دنیا بھر میں جہاد سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس طرف مائل ہونے لگے یہاں تک کہ یورپ اور امریکا سے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں پر اس کے اثرات مرتب ہوئے اور وہ اس تنظیم میں دھڑا دھڑ شامل ہونے لگے جس سے اس کو خاصی تقویت ملی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت سامنے آنے لگی کہ اس سارے گھناؤنے کھیل کے پیچھے اسلام دشمن قوتیں ملوث ہیں جن کا مقصد دہشت گردی کو فروغ دے کر مسلمان ممالک کو تباہ کرنا ہے۔ عراق اور شام سے نکل کر اس تنظیم نے اپنے قدم افغانستان میں بھی جمانے شروع کر دیے جس پر پاکستان نے امریکی اور افغان حکومت کی اس خطرے کی جانب توجہ دلائی اور اسے ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا مگر افغان حکومت ایسا کرنے میں قطعی ناکام رہی۔

گزشتہ روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے افغانستان کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے بالکل صائب کہا کہ افغان فورسز میں دہشت گردوں کو شکست دینے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر افغان فورسز میں دہشت گردوں کو شکست دینے کی صلاحیت ہوتی تو اب تک وہ یقیناً داعش سمیت دیگر انتہا پسند تنظیموں پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہوتی اور انتہا پسندی کے جن خطرات کی نشاندہی کی جا رہی ہے آج ان کی نوبت ہی نہ آتی۔

آخر افغانستان میں داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کا خاتمہ کیوں نہیں ہو رہا یہ وہ سوال ہے جو فہمیدہ حلقوں کی جانب سے بار بار اٹھایا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اور بھارت پاکستان سے بھاگنے والے کالعدم جماعتوں بالخصوص ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی معاونت اور داعش میں شمولیت کے لیے بھاری رقوم خرچ کر رہے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں داعش کو فروغ دے کر اسے اندرونی طور پر کمزور کرنا ہے جس طرح داعش کی مدد سے عراق کو کمزور کیا گیا۔

اس صورت حال میں یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ امریکا اور بھارت داعش سمیت دیگر انتہا پسند قوتوں کی مدد سے پاکستان میں عراق' شام اور لیبیا کی طرح خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں کیونکہ یہی ان کے پاس ایک آسان راستہ ہے کہ پاکستان سے براہ راست ٹکراؤ کے بجائے اندرونی طور پر ہی انتہا پسند قوتوں کی مدد سے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جائے۔ یہ بہت گہری سازش ہے جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی عسکری اور سول قیادت کو بھرپور طور پر متحرک ہونا ہو گا۔

پاکستان کی بقا اور سالمیت سب سے پہلے لہٰذا داعش کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے پوری قوم کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ اندرون ملک وہ مذہبی عناصر جو انتہا پسند قوتوں کے بارے میں ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں انھیں بھی قائل کرنا ہو گا کہ انتہا پسندی کے اس کھیل کے پیچھے اسلام کا فروغ نہیں بلکہ اسلامی ممالک میں افراتفری اور انتشار پیدا کر کے انھیں تباہ کرنا ہے۔

حیرت انگیز امر ہے کہ صرف اسلامی ممالک ہی کیوں اس انتہا پسندی کی زد میں آئے ہوئے اور وہ کون سی قوتیں ہیں جو ان کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ یہ قوتیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں لیکن پریشان کن امر یہ ہے کہ مسلم ممالک سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان قوتوں کے سامنے بے بس اور انھی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ افغانستان میں تقویت پاتی ہوئی داعش کا واحد مقصد پاکستان کو نشانہ بنانا ہے کیونکہ افغانستان تو پہلے ہی افراتفری اور انتشار کی زد میں آیا ہوا ہے۔

ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ علما کرام' دانشوروں اور ادیبوں کی خدمات بھی حاصل کی جائیں تاکہ گراس روٹ لیول پر عوام کا تعاون حاصل کیا جا سکے۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی نظام اور خیبر پختونخوا کی پولیس کو جدید بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ یہ علاقے افغانستان سے متصل ہیں اور وہاں سے لوگوں کی پاکستانی علاقوں میں آمد ورفت مسلسل جاری ہے، ان افراد اور دیگر لوگوں کی چیکنگ کا فول پروف نظام بنانا بھی ضروری ہے، اس کے علاوہ چاروں صوبوں کی پولیس کے درمیان ہاٹ لائن قائم ہونی چاہیے تاکہ فوری معلومات کا تبادلہ ممکن ہوسکے۔

چاروں صوبوں کی پولیس کو ایک مربوط نظام کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کردیا تاکہ مفرور جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کو گرفتار کرنا آسان ہوجائے۔ قبائلی علاقوں تک پولیس کا اختیار پھیلایا جائے ۔ بلاشبہ فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہی ہے لیکن شہروں اور دیہات میں چھپے دہشت گردوں ،ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پولیس کا کردار سب سے اہم ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔