نئی حلقہ بندیاں جمہوری اسپرٹ سے کام لیں

الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا صائب فیصلہ کیا۔

الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا صائب فیصلہ کیا۔ فوٹو: فائل

پیر کو الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل وفد کو ملک میں نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں بریفنگ دینا تھی، قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق نے مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل وفد تشکیل دیا، ادھر میڈیا میں یہ اطلاع تھی کہ نئی حلقہ بندیوں کا اعلان بس چند روز میں متوقع ہے جس پر سیاسی جماعتوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔

اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کا اعتراض اس نکتہ پر تھا کہ رولز کے مطابق گائیڈ لائنز شایع کیے بغیر نئی حلقہ بندیوں کا مسودہ تیار نہیں ہونا چاہیے تھا ، اسی پر بعض سیاسی جماعتوں نے سخت تحفظات ظاہر کیے تاہم معاملہ صرف معمولی تکنیکی سقم دور کرنے کا نہیں ہے بلکہ انتخابی اصلاحات کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن 2018 ء کا جو منظر نامی تشکیل پائیگا اس کا ماضی کے انتخابی عمل سے زیادہ شفاف ہونا شرط ہے نیز اسے منفرد اور فالٹ فری تسلیم کروانا ایک اہم انتخابی وعدے کی تکمیل کے مترادف ہوگا۔

اس لیے سیاسی جماعتوں کے لیے یہ اہم انتخابی ایشو ہے جس کے لیے آیندہ الیکشن کی انتخابی مہم کی وسعت ، حلقہ انتخاب کی حساسیت اور پولنگ بوتھ کے محل وقوع وغیرہ سے ووٹرز کی آگاہی کے اہم معاملات جڑے ہوئے ہیں، یہ ملکی تاریخ کے غیر معمولی انتخابات ہونگے۔


واضح رہے سیاسی جماعتوں میں سندھ حکومت، ایم کیو ایم اور بلوچستان کے بعض حلقوں کے بارے میں مردم شماری نتائج پر تحفظات کا ایشو تاحال حل طلب ہے ، سندھ حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی طور مردم شماری نتائج کو تحفظات دور کیے بغیر تسلیم نہیں کرے گا جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور سول سوسائٹی کو شکایت تھی کہ کراچی کی آبادی بوجوہ بہت کم دکھائی گئی ہے۔

اس اعتبار سے الیکشن کمیشن کی بریفنگ اور تحفظات دور کرنے کے لیے مجوزہ اجلاس خوش آیند بھی تھا چونکہ سیاسی رہنماؤں نے اپنے حلقوں کی نئی تشکیل کے حقائق پر الیکشن کمیشن سے یہ توقع باندھی تھی کہ انھیں نئی حلقہ بندیوں کی حتمی فہرستوں کی منظوری سے قبل اعتماد میں لیا جائے گا، سیاسی قیادتوں کا اصرار تھا کہ انتخابی حلقوں کی تشکیل نو میں کوئی کنفیوژن باقی نہیں رہنا چاہیے اور اس کام کو تمام سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کی مجموعی امنگوں اور ان کی آسانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانا ناگزیر ہے، ان کا موقف بھی قابل غور ہے جس کے تحت وہ حکام کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ انتخابی عمل کا حلقہ بندیوں کی نئی صورتگری سے گہرا تعلق ہے۔

ماضی میں کئی انتخابات میں بعض پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی میں ووٹرز کو انتہائی مشکل پیش آتی رہی، مین اسٹریم جماعتوں کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے دو تین روز میں اعلان مناسب اسٹرٹیجی نہیں ، کیونکہ اس اعلان سے پہلے الیکشن کمیشن کی بریفنگ رضاکارانہ طور پر طے پا جاتی تواس میں کیا قباحت تھی جب کہ الیکشن کمیشن حکام کو بخوبی اندازہ تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کی منظوری اور تمام سیاسی جماعتوں کا ان پر اتفاق انتخابی شفافیت کی سمت صائب قدم متصور ہوگا۔

لہٰذامسئلہ کی اہمیت موجود تھی کہ میڈیا میں حلقہ بندیوں کے اعلان کی خبر آگئی جس کے باعث اس بات خدشہ پیدا ہوا کہ حلقہ بندیوں پر تنازع مشکلات پیدا کریگا، بہر حال الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا صائب فیصلہ کیا ۔لہذاامید کی جانی چاہیے کہ انتخابی عمل میں حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں کی دلی طمانیت اور مکمل اعتماد ان اہداف کی تکمیل کی جانب درست قدم ہوگا جس کی قوم شدت سے منتظر ہے۔
Load Next Story