سچ بات
ہمارے ان قلم کار کی بات صحیح ہے ساری عمر لکھتے رہے کچھ نہ پایا تو کیا امید رکھیں گے۔
ایک دوست نے بتایا کہ آج میں نے اپنی زوجہ سے کہا میرے جتنے مسودے و دیگر کتب ہیں ان کو میرے مرنے کے بعد ردی کی نذر کردینا۔ میں نے پوچھا آپ کی زوجہ نے کیا جواب دیا؟ مسکراتے ہوئے بولے، میری زوجہ نے کہا کہ آپ کے مرنے کے بعد ان مسودوں یا کتب کی کیا ضرورت ہے بے کار ہیں یہ سب ایسا ہی کروں گی جو آپ نے کہا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا تم صحیح بتاؤ تمہیں کیا امید تھی ان کے جواب کی؟
بولے خان صاحب مجھے ایسی قطعی امید نہ تھی جو انھوں نے کہا۔ میں نے کہا اس لیے تھا کہ ان کی طبیعت اور ذوق کا معلوم کرسکوں۔ میرے ذہن میں تھا کہ یہ ضرور کہیں گی آپ کیسی بات کر رہے ہیں یہ تو سب اہم ادبی سرمایہ ہے اس کو میں کیسے ضایع کرسکتی ہوں بلکہ آپ کی آنے والی نسل اس کو دیکھے گی اور میں اولاد کو کہہ دوں گی یہ سب محفوظ رکھنا۔
ظاہر ہے ایسی بات سن کر افسوس تو ہوگا، جب مجھے اس قدر افسوس ہوا تو اس شخص کو کس قدر افسوس ہوا ہوگا جس کا زندگی کا سرمایہ یہی کتب اور مسودے ہیں۔ جب کوئی یہ بات کہتا ہے چھوڑیں جناب کیا رکھا ہے ان کتابوں میں، کون پڑھے گا کس کے پاس اتنا وقت ہے جو کتب نویسی کرے یا پڑھے۔ وہ دور ختم ہوگیا جب کتابوں کی اہمیت تھی۔ جدید دور ہے آپ جو کچھ چاہیں کمپیوٹر سے حاصل کرسکتے ہیں اتنی کتابوں کا لادنا رکھنا حفاظت کرنا ان کتابوں کے لیے جگہ نکالنا۔ یہ سب بے مقصد ہے یہ وہ دور ہے انسان کے پاس رہائش کے لیے جگہ نہیں تو وہ ان مسودوں یا کتابوں کو کہاں تک محفوظ رکھے گا؟
ہمارے ان قلم کار کی بات صحیح ہے ساری عمر لکھتے رہے کچھ نہ پایا تو کیا امید رکھیں گے کہ آنے والی نسل ان کی تصانیف کو پڑھے یا حفاظت کرے۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنا ایک بہت پرانا قطع یاد آرہا ہے کیوں نہ پیش کردوں۔
رات ہوتے ہی چٹخ جاتے ہیں زخموں کے دہن
بہنے لگتا ہے رگوں میں احساس کا خون
کتنا مجبور بنادیتی ہے تنہائی مجھے
اشک بہتے رہے' بہتے رہے' میں پی نہ سکوں
میں فرسٹ ایئر میں تھا جب یہ قطع کہا جس کی اصلاح اپنے اردو ادب کے کامل جید استاد سے کرائی۔ لیکن آج بھی یہ مجھ کو ایسا لگتا ہے جیسا فرسٹ ایئر میں لگا تھا۔ یہاں ایک شعر عرض کر رہا ہوں ملاحظہ فرمائیے۔ یہ ایک پرانی فلم کے نغمے کا شعر ہے۔
زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی' ہم پھر بھی اکیلے ہیں
میرے نزدیک شاعر ہو تو مصنف و قلم کار کسی سائنسدان سے کم نہیں۔ جس طرح بڑے سائنس دانوں نے سائنسی ایجادات کیں اسی طرح ہمارے ان شعرا کرام، مصنفین نے بڑی تخلیق کی۔ جیسے میں نے عرض کیا بہت سے ایسے جو ناپید ہوکر رہ گئے انھوں نے جو خون جگر اپنی تصانیف و اشعار میں پیش کیا افسوس کسی نے نہ جانا ایسا بھی ہوا کچھ لوگ ایسے دانش مند تھے انھوں نے ان کامل جید شعرا کرام کا کلام اپنے نام کرلیا اسی طرح تصانیف بھی دوسروں کے ذریعے نہ جانے کس کس کے نام پر تحریر ہوتی رہیں یا ہو رہی ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
تعلیم کے معاملے میں اب والدین کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان یا جدید اشیا کے موجد کی تعلیمی ڈگری حاصل کرے۔ چونکہ ماحول میں دیکھا جن لوگوں کی عزت و عظمت قدر و منزلت ہے اس کو ترجیح دیں گے۔ شاعر، مصنف، قلم کار کو شاید وہ مقام کچھ نصیب نہیں ہوتا جو دیگر لوگوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی دوست نے کہا یہ انڈیا سے آئے ہیں میں نے السلام علیکم، مصافحہ و آداب کے بعد ان سے ایک بات معلوم کی۔
میں نے کہا انڈیا میں اردو کیسی ہے۔ بولے ہندوستان میں اگر اردو زندہ ہے تو صرف ''شعرائے کرام'' کی وجہ سے وہ جس طرح مشاعروں میں اشعار پیش کرتے ہیں ان کو سن کر معلوم ہوتا ہے اردو ابھی زندہ ہے۔ ویسے تو عام طور پر لوگ اردو ایسی بولتے ہیں جس میں چند لفظ ہندی کے ضرور ہوتے ہیں، ہندوستان میں اردو کو ہندی کہا جاتا ہے۔ اب تو مسلمان گھرانوں میں بھی اردو پڑھانا ختم ہوتا جا رہا ہے پہلے تو گھر میں عربی (قرآن) پڑھانے کے بعد اردو کا قاعدہ پڑھاتے، اردو لکھنا، بولنا سکھاتے۔ لیکن اب وہ بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ تمام باتیں سننے کے بعد میں نے کہا دیکھ لو پاکستان میں اردو کا کس قدر بول بالا ہے۔ آپ جس شہر میں جائیں دکانوں پر اردو انگلش میں سائن بورڈ دیکھیں گے۔
چاہیں اردو میں درخواست پیش کریں اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس لیے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ میری بات سن کر انڈین صاحب بولے حضرت آپ جو کہہ رہے ہیں بالکل صحیح ہے۔ لیکن میں ایک بات جانتا ہوں آپ درخواست بھلے اردو میں دیں لیکن اس پر ساری کارروائی انگلش میں ہوگی اور جواب بھی آپ کو انگلش میں ملے گا۔ آپ کا کوئی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارہ ایسا نہیں جہاں انگلش میں کارروائی نہ ہوتی ہو۔
میرے نزدیک تو صرف دل کا بہلاوا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اگر آپ کی سرکار اس کو اہمیت دیتی تو تمام محکموں میں اردو کے ٹائپ رائٹر بلکہ اب تو کمپیوٹر میں بھی اردو لکھی جاسکتی ہے وہ پیش کرتی اور سرکلر نکالتی کہ سارا کام اردو میں کیا جائے گا۔ لیکن ایسا آپ کے ستر سالوں میں کسی حکمران نے کرنے کی جرأت نہیں کی۔ بلکہ آپ کے ملک میں ہر بڑے گھر کی اولادیں مہنگے ترین انگلش اسکول میں تعلیم پاتے ہیں۔ اب تو اس سے بھی آگے جاچکے ہیں شروع سے یورپ بچوں کو بھیج دیا جاتا ہے ساری تعلیم وہ وہیں حاصل کرتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو اردو نہیں بول پاتے اگر بولتے ہیں تو ٹوٹی پھوٹی اس کی مثالیں موجود ہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔
اب آپ مجھے بتائیں پاکستان میں اردو اگر ہے تو شاید صرف غریب، غربا، مساکین تک جوکہ 92 فیصد کی آبادی ہے وہ لوگ اردو بولتے ہیں۔ پڑھتے بھی اردو میڈیم سرکاری اسکولوں میں، ایسے بھی سرکاری اسکول ہیں جہاں اردو پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ اردو اس ملک میں قومی زبان رہے۔ آپ کے ملک میں جتنے بڑے عہدوں پر پہنچے ہیں وہ سب باہر کے تعلیم یافتہ اعلیٰ قسم کی سند حاصل کیے ہوئے سرکاری بڑے عہدوں پر پہنچے ہیں۔
غریب کا لڑکا چپڑاسی یا بہت آگے گیا تو جونیئر کلرک یا پھر ہیڈ کلرک۔ اس کی ساری وجہ میں نے آپ کو بتا دی جو آپ نے سمجھ لی ہوگی۔ اول تو آپ کے ملک میں کسی غریب کے لڑکے کو سرکاری نوکری ملنا بے حد مشکل ہے شاید ہزار میں ایک خوش قسمت ہو یا اس کے والدین نے ساری عمر جو رقم جوڑی ہو وہ دے کر اس کو چپڑاسی رکھوا دیں۔
باتیں ساری سچ اور حقائق پر مبنی ہیں اور میں لاجواب ہوگیا اب اگر ہم ہندوستان پر بحث کرتے ہیں تو وہاں کی حکومت کہتی ہے یہ ہندوؤں کا دیش ہے مسلمانوں کا دیش الگ 14 اگست 1947 میں بنا۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو اپنے مسلم دیش میں جانا چاہیے کیونکہ بٹوارا جو ہوا تھا وہ دو قومی نظریے پر ہوا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے الگ دیش ہوگا اسی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔
یہ بات بالکل صحیح ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے انتھک کاوشوں شب و روز کی جدوجہد کا ثمر ''پاکستان'' ہے۔ جب کہ دیگر شہر پاکستان میں شامل کرنے تھے کاٹھیاواڑ، حیدرآباد دکن، یوپی یہ تمام پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بیمار تھے ان کو ٹی بی تھی لیکن جہاز میں کھانسی آئی تو سامنے بیٹھے لیاقت علی خان کو کہہ دیا نہیں کوئی بات نہیں ایسے ہی کھانسی آگئی۔ وہ شدید بیمار رہے لیکن اپنے کام میں ایک لمحہ پیچھے نہ ہوئے یہ ان کی بدولت پاکستان ملا ساتھ میں مشرقی پاکستان بھی مسلمان اکثریتی آبادی پر دیا گیا جو سمندر پار تھا۔ لیکن بعد میں انڈیا نے مشرقی پاکستان کو الگ کروا کر بنگلہ دیش بنوا دیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح جیسا لیڈر دنیا میں کم ہوتا ہے میری بات اگر تلخ نہ سمجھیں تو میں یہ کہوں گا کہ اب کوئی بھی قائد اعظم محمد علی جناح جیسا نہ بن سکتا ہے اور نہ پیدا ہو سکے گا۔ جس بے سر و سامانی میں ایک جذبے کے ساتھ انھوں نے بغیر کسی حرص و لالچ کے محنت کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے اقوال آج بھی دہرائے جاتے ہیں جو کچھ وہ کہہ گئے وہ غلط نہ نکلا۔ ٹی بی کے شدید (آخری حصے) پر اپنی جدوجہد جاری رکھی اس بیماری میں بھی بدستور کام کرتے رہے یہ ہمارے لیے بڑی مثال ہے پاکستان بنانے والا پیچھے نہ ہٹا۔