اردو باغ کمپلیکس
قومیں اپنے زبان ، تاریخ ، ثقافتی ورثے اور اپنی طرز زندگی سے پہچانی جاتی ہیں۔
دنیائے انسانیت کا دائرہ کار اپنے علاقائی معاشرت ، ثقافت ، تہذیب وتمدن ، موروثی ثقافت ، قانون وسیاست اور جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے مختلف ممالک کی شکل میں محیط ہے ۔ ان ممالک میں بے شماربولی ، لکھی اورسمجھی جانے والی علاقائی زبانیں بھی ہیں مگر خصوصی طور سے ہر ملک کی علیحدہ قومی زبان کی سرکاری حیثیت نا گزیر ہے جیسے فرانس میں فرانسیسی، جرمنی میں جرمن، امریکا ، برطانیہ اور دوسرے یورپین ممالک میں انگریزی، ایران میں فارسی، مشرق وسطی کے خلیج عرب ممالک میں عربی وغیرہ وغیرہ اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ زبانیں ہی ان کی قومیت و حمیت کی پہچان ہیں۔
برطانیہ چونکہ ایک طویل عرصہ سے پوری دنیا پر سپر طاقت کی حیثیت میں حکمرانی کرتا رہا ہے، اسی مناسبت سے یہاں بولی جانے والی انگریزی (Global Language)کے اثرات دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے تھے۔ پورے یورپ میں یہ زبان نہ صرف بولی اور سمجھی جاتی تھی بلکہ قومی زبان کی حیثیت سے سرکاری طور پر رائج بھی تھی ۔ ایک وقت تھا جب برطانوی سامراج کا براعظم ایشیا کے جنوبی خطہ ''برصغیر '' میں بھی راج تھا۔
اس خطے میں تو وہ زیادہ عرصہ نہ رہ سکے مگر یہاں سے جاتے جاتے دو اہم کام کر گئے، ایک یہاں پر موجود مغلیہ دورکا مخفی خزانہ (سونا ، چاندی اور قیمتی نوادرات) لوٹ کر روانہ ہوگئے، دوسرا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تعصب کے فساد کا بیج بوگئے تاکہ یہ تقسیم ہوکر ہمارے غلام بن کر آپس میں دست و گریبان بھی رہیں اور ہماری حکمرانی بھی قائم رہے۔ اسی طرح اس نے ہمیں انگریزی کا ابدی غلام بنا دیا۔ پورے برصغیر میں اکثریتی دو قومیں ہندو اور مسلمان تھیں اور ان میں اپنی آبادی کے تناسب سے دو زبانیں ہندی اور اردو مقبول عام تھیں ۔
ہندی لکھنے میں رومن رسم الخط اور بولنے میں اردو کا انداز تھا مگر اس اردو میں ہندی حروف کی آمیزش تھی۔کمال دیکھیے کہ اردو نے پورے اس خطے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی، اس کی بنیادی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنا اس زبان کی ترقی و ترویج میں اردو کے نامور ادبا و شعرا کا مرکزی کردار رہا ہے وہ بلاشبہ قابل ستائش ہے۔ہندوستان کے مشہور شہر لکھنو، علی گڑھ، دلی، کان پور، دکن ایک عرصے تک اردو ادب کا گہوارہ رہے۔
جہاں مرزا اسداللہ خان غالب، سر سید احمد خان، الطاف حسین حالی، بابائے اردو مولوی عبد الحق، جوش ملیح آبادی، میر انیس، مرزا دبیر ، معروف ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار ،دکنی دورکے ولی دکنی ، سراج اورنگ آبادی، چراغ حسن حسرت اور دیگر اہم ادبی شخصیات نے اس سر زمین پر آنکھ کھولی ۔ الف سے لے کر ے تک 37حروف تہجی بشمول الف ممدودہ ، الف مقصورہ کے ساتھ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان آبادی کی مقبول ترین زبان ''اردو'' جو نوزائیدہ اسلامی جمہوری مملکت کی دستوری، آئینی اور قومی زبان قرار پائی۔ انگریزی زبان محض سرکار کی خط و کتابت تک ہی محدود رہی۔
واضح رہے کہ تہجی کے لفظی معنی ہجے کرنے کے ہیں یعنی زبان کی بنیادی آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف۔ اس وقت پاکستان میں سرکاری سطح پر مقتدرہ قومی زبان، اردو ڈکشنری بورڈ اور انجمن ترقی اردو ، اردو زبان کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل ہے۔
اس حقیقت سے ہرگز انکار ممکن نہیں کہ جہاں ان بے شمار ادبی شخصیات کی کارکردگی نمایاں ہے وہاں برصغیرکے معروف ادیب ونقاد اورعلی گڑھ یو نیورسٹی کے تعلیم یافتہ مولوی عبدالحق کی اردو کی ترقی و ترویج میں جو عملی کردار بخوبی ادا کیا ہے وہ ہم سب کے لیے قیمتی اثاثے کی شکل میں مشعل راہ ہے۔ ریاست حیدرآباد (بھارت) میں ایک مدت تک تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دینے کے بعد انھوں نے اپنی زندگی کا ہر قیمتی لمحہ اردو زبان کی توسیع و اشاعت میں وقف کر دیا جو انجمن ترقی اردو کے قیام کا سبسب بنا۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور یہاں کل پاکستان انجمن ترقی اردو کی نئے سرے سے بنیاد رکھی۔ جس کے تحت تعلیم و تدریس کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اردوکالج کے قیام کی مستحکم بنیاد رکھی اور یوں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں '' بابائے اردو'' کے خطاب سے نوازا۔ آخر کار 82سال کی عمر میں 16اگست1 196کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
بابائے اردو کے اس تعمیری اور بامقصد مشن کے روشن مشعل کو آگے بڑھانے میں جہاں جمیل الدین عالی کی ادبی و علمی خدمات شامل حال رہیں وہا ں اردو کی اس تحریک کو زندہ رکھنے میں ڈاکٹر فاطمہ حسن، پروفیسر سحر انصاری ، ذوالقرنین جمیل، ڈاکٹر روف پاریکھ، زاہدہ حنا اور ان کی ٹیم کے دیگر ممبران کی طویل عرصے سے جاری انتھک اور مسلسل کاوشیں آخر کار رنگ لے ہی آئیں۔
رواں سال2018 کے افتتاحی مہینے کے بیسویں روز جامعہ این ای ڈی اور جامعہ کراچی کے عین سنگم پر انجمن ترقی اردوکا نیا تعمیر شدہ پروجیکٹ '' اردو باغ کمپلیکس ''کا افتتاح اسلامی جمھوریہ پاکستان کے صدر ممنون حسین کے دست مبارک سے بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچا۔ اس میں کسی قسم کا شائبہ نہیں کیا جاسکتا کہ صدر مملکت کی ذاتی دلچسپی اور اس سلسلے میں ان کی طرف سے ان مشکل حالات میں دی جانے والی مالی اعانت ہی سے اس عظیم الشان پروجیکٹ کی تکمیل ممکن ہوسکی۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران انھوں نے اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سب سے پہلے اردو کی ترویج کے لیے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور فرمایا کہ پورے ملک میں اردوکو اعلی تعلیم کی ہر سطح پر رائج کیا جائے۔ قومیں اپنے زبان ، تاریخ ، ثقافتی ورثے اور اپنی طرز زندگی سے پہچانی جاتی ہیں۔ ذریعہ اردو نہ صرف تعلیمی نظام میں معیار اور ہم آہنگی کے لیے راہیں ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہونگی بلکہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ اس ضمن میں انھوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی بیشتر یونیورسٹیاں اردو کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تمام تحقیقی کاموں کو اردو ترجمہ کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔
ان تمام کاوشوں کے باوجود نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد اردو کے درست ہیت کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ ز کی جگہ ض، ک کی جگہ ق، ط کی جگہ ت کا استعمال بڑی دیدہ دلیر ی سے کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران ہر جملے کے بعد یہ کہنا ''ٹھیک ہے ...'' ، ٹھیک ہے یا صحیح ہے کا ورد کرتے رہتے ہیں جس سے سننے والے کو ناگوار سا محسوس ہوتا ہے۔ اپنا خیال رکھیے اور اپنی قومی زبان کے درست اظہار پر توجہ دیجیے۔