خدا جانے
اس پر زیادہ کچھ کہنا کسی قسم کی توہین نہ ہوجائے لہٰذا آپ کی سمجھ کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔
تحریر ایک دو دھاری تلوار ہے تقریرکی طرح اس کو ثابت کرنے کے لیے شیخ رشید کا لاہور کا اعلان اور عمران خان کے تائیدی غیر محتاط الفاظ کافی ہیں ۔
داستان سرائے کے عنوان سے ہمارا کالم جنوری میں چھپا ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی بسیت کے ایک مصرعے کا ترجمہ ہے جس کا مکمل ترجمہ یہ ہے کہ ''مورکھوں کے گھر پانی پر ہیں اور پیاسے مرتے ہیں۔''
تو داستان سرائے پڑھ کر دوستوں نے پسند کیا خاص طور پر سندھی کے قدیم روزنامے سے منسلک مہربان دوست میر اعظم تالپور نے اسے بہت سراہا، میں نے کافی چیزوں کو مذکور کیا تھا اور کچھ کو برا کچھ کو اچھا لگا ہوگا، سچوں کو سچ اچھا لگتا ہے اور ''سچل ساروسچ'' کہلاتا ہے، جھوٹوں اور ان کے بارے میں کیا کہوں برا لگا ہوگا زمانہ انھیں کہہ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی بازی گری یا سیاسی بندر کا تماشہ لگا ہوا ہے۔ مداریوں سے آپ واقف ہیں کچھ نئے بھی ہیں اور ان کے بندروں اور سیاسی قلابازیوں سے بھی آپ واقف ہیں۔
ٹی وی پر Animal World میں ہم سب دیکھتے رہتے ہیں کہ بندروں کے اپنے اپنے علاقے اور خود انحصاری ہوتی ہے اس لفظ خود انحصاری کو وسیع ترین معنوں میں سمجھ لیجیے ہم تشریح نہیں کرسکتے، ضرورت بھی نہیں ہے آپ سمجھدار ہیں۔ تو اس خود انحصاری کو چھیننے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں ناکامی، کامیابی اور زخم خوردگی ہوتی رہتی ہے۔ ماہرین (اسلامی نقطہ نظر سے قطع نظر) کہتے ہیں کہ انسان نے یہاں سے آغاز کرکے تہذیب کی اعلیٰ منزلیں طے کی ہیں۔ یہ درست ہے یا نہیں یہ بات الگ ہے مگر ہمارے سیاسی میدان کے آسمان پر کچھ ایسے ہی مناظر ہیں۔
پانچ سال کسی کے، پانچ سال کسی اور کے، اس نے اس کی ترقی کے منصوبے روک دیے، اس نے آکر اس کا کام روک دیا مقصد ذاتی خود انحصاری مصیبت میں جنگل کے باسی آپ اور میں، یہ ہم سے سب چھین لیتے ہیں اور آپس میں بانٹ لیتے ہیں، ہم سب لوگ ووٹ ہاتھ میں لیے سوچتے رہتے ہیں اس بار یہ ٹھیک ہے اور ووٹ نوٹ میں تبدیل ہوکر ان کے بینک اکاؤنٹ میں، ٹیکس بڑھاؤ، مہنگائی کرو، ملک چلاؤ ان کے پیسے سے اور ملائی خود کھا جاؤ جنگل راج ہے اپنا۔ کم یا زیادہ ہے ایسا ہی اس بار زیادہ کی حد بھی گزر گئی۔
ایک حصہ بلوچستان کی اسمبلی پر قبضہ ہوگیا ہے (لوگوں کا خیال ہے) دعویٰ ہے جب چاہے، اس حکومت کو ختم کرسکتے ہیں کریں گے نہیں، جمہوریت یعنی دوسرے لفظوں میں سیاست دانوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا اور اسے کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے، کل ان کی حمایت کی ضرورت پڑی تو کیا ہوگا، جس ٹی وی پروگرام کا حوالہ دیا اس کے تناظر میں سوچیے گا 73 کے آئین کے تناظر میں نہیں اس کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے سب نے۔
اس پر زیادہ کچھ کہنا کسی قسم کی توہین نہ ہوجائے لہٰذا آپ کی سمجھ کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹی وی کا مذکورہ پروگرام نظر میں رکھتے ہوئے کالم پڑھتے رہیے۔ ان کے علاقے میں کیا ہو رہا ہے اور ان کو مسلسل دو افراد یعنی دو اشخاص کی دو پارٹیاں نشانہ بناتی ہیں ظاہر ہے یہ سیاست کا روز مرہ ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے مگر دوسروں کی روزانہ کی بنیاد پر Dry Cleaning کے ساتھ ساتھ اپنے ''وارڈ روب'' (کپڑوں کی الماری) کا بھی تو اس روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
شہر کچرے کے ڈھیر، گندا پانی سڑکوں پر، رشوت کا بازار گرم، نوکریوں کی فروخت، زمینوں پر قبضے، کسانوں پر ظلم، پولیس عوام کی دشمن، گھروں میں اندھیرا، گیس ناپید اور ایسا بہت کچھ ایک عام بات، اب اس داستان سرائے میں صرف ایک دن 31 جنوری 2018 کا ایک شہر اور قرب و جوار کا احوال یوں ہے۔
1۔ بااثر مافیا نے قدیم قبرستانوں پر قبضہ کرلیا۔ حیدرآباد ضلع انتظامیہ کی اور بلدیہ اعلیٰ کی چشم پوشی کے باعث حیدرآباد اور لطیف آباد کے قدیمی قبرستانوں پر قبضوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا، اس قبضے کو قائم رکھنے کے لیے مذہبی عبادت گاہیں قائم کردی گئیں۔ مکانات جو اس آڑ میں تعمیر ہوئے ان کو بجلی اور گیس فراہم کردی گئی ہے۔ یعنی مردوں کی بے دخلی کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ شاید باپ کی قبر پر بیٹے کا گھر بن جائے۔
2۔ نشے میں دھت ہوکر ہوٹل میں توڑ پھوڑ کرنے والا گرفتار۔ مددگار پولیس نے ملزم کو متعلقہ تھانے کے حوالے نہیں کیا، رشوت لے کر چھوڑنے کا خدشہ۔ علمدار چوک پر واقعہ پیش آیا، مددگار پولیس ون فائیو نے جن کا تعلق قاسم آباد حیدر آباد سے تھا بھٹائی نگر تھانے کے بجائے نسیم نگر تھانے کے حوالے کردیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں سے ملزم کو آزاد ہونے میں زیادہ سہولت ہوگی۔
3۔ کوٹری بلدیاتی نمایندوں اور سی ایم او تنازعہ کوٹری گندگی کا ڈھیر، کونسلروں کا مطالبہ سی ایم او کو تبدیل کیا جائے۔ کہتے ہیں سی ایم او کرپشن میں ملوث ہے۔ صرف سی ایم او تعجب ہے۔
4۔ سڑک سے گاڑیاں ہٹانے پر شوروم مالک نے پولیس افسر کی پٹائی کردی۔ پولیس طلب کرنے پر ملزمان فرار۔ اے ایس آئی کا پیٹی بھائی کی مدد کرنے سے گریز۔ ٹریفک پولیس اہلکار بے یار و مددگار۔ ایک یوسی چیئرمین نے اے ایس آئی کو جو پیٹا گیا تھا شو روم کے اندر لے جا کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ یعنی قانون کو فروخت کردیا گیا۔ طاقت کو درست قرار دے دیا گیا چاہے غلط استعمال ہو۔
5۔ ایک صوبائی وزیر پریس کانفرنس کر رہے ہیں جنھوں نے صوبائی اسمبلی میں ایک خاتون سے بدتمیزی کی تھی پھر معافی مانگ کر بہن بنایا۔ وہاں ایک کاغذ اٹک اٹک کر پڑھ رہے تھے اور اسمبلی زعفران زار تھی۔ داخلہ ان کا محکمہ نہیں ہے مگر فاروق ستار کو مشورے اور راؤ انوارکو کوئی رعایت نہ دینے کا اعلان کر رہے تھے حیدرآباد میں۔
6۔ ریسٹ ہاؤس چھاپہ، دس سالہ بچی بازیاب، 4 افراد گرفتار۔ لائبہ کو 3 روز قبل کراچی سے اغوا کر کے سیہون کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا گیا تھا ۔ کراچی پولیس کی سیہون میں کارروائی۔ ریسٹ ہاؤس کا مالک اس کے دو بیٹے حراست میں۔ اہلیہ اور ایک ساتھی فرار، پولیس کے چھاپے ۔ یعنی سیہون کی پولیس کاروبار میں مصروف ہے اور امن و امان فروخت ہو رہا ہے۔
7۔ عمر کوٹ کم عمر لڑکی سے شادی، دولہا نکاح خواں سمیت سات افراد کو قید و جرمانہ۔ اچھی خبر ہے ایسا ضرور ہونا چاہیے اور جلد ہونا چاہیے۔
تو جس پروگرام کا حوالہ چل رہا ہے نا یہ اس کی جھلکیاں اور ایک چھوٹے سے علاقے کی پورے سندھ کا جو حال ہے وہ بیان کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کی ضرورت ہے۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں پر اگر ان کے بقول ان کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ کیا بنیں گے کھنڈر، جو سندھ کے اکثر شہر بنے ہوئے ہیں اور ادھر ان کی نظر نہیں پڑتی۔ اپنا دامن کون دیکھے۔ ملک کو Monkey State بنا رکھا ہے ان لوگوں نے مل کر اور انھوں نے اولادوں، رشتے داروں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کر رکھا ہے آپ کے ووٹ کی قیمت پر جو یہ آپ سے ہر قیمت پر لے لیں گے۔
آپ بھی اس جنگل میں جان بچانے کے لیے دے دیں گے۔ داستان سرائے میں آج میں نے آپ کی اور اپنی جنگل اسٹوری بیان کی ہے۔ خدا کے علاوہ اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ خدا کب مہربان ہوگا، خدا جانے۔
داستان سرائے کے عنوان سے ہمارا کالم جنوری میں چھپا ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی بسیت کے ایک مصرعے کا ترجمہ ہے جس کا مکمل ترجمہ یہ ہے کہ ''مورکھوں کے گھر پانی پر ہیں اور پیاسے مرتے ہیں۔''
تو داستان سرائے پڑھ کر دوستوں نے پسند کیا خاص طور پر سندھی کے قدیم روزنامے سے منسلک مہربان دوست میر اعظم تالپور نے اسے بہت سراہا، میں نے کافی چیزوں کو مذکور کیا تھا اور کچھ کو برا کچھ کو اچھا لگا ہوگا، سچوں کو سچ اچھا لگتا ہے اور ''سچل ساروسچ'' کہلاتا ہے، جھوٹوں اور ان کے بارے میں کیا کہوں برا لگا ہوگا زمانہ انھیں کہہ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی بازی گری یا سیاسی بندر کا تماشہ لگا ہوا ہے۔ مداریوں سے آپ واقف ہیں کچھ نئے بھی ہیں اور ان کے بندروں اور سیاسی قلابازیوں سے بھی آپ واقف ہیں۔
ٹی وی پر Animal World میں ہم سب دیکھتے رہتے ہیں کہ بندروں کے اپنے اپنے علاقے اور خود انحصاری ہوتی ہے اس لفظ خود انحصاری کو وسیع ترین معنوں میں سمجھ لیجیے ہم تشریح نہیں کرسکتے، ضرورت بھی نہیں ہے آپ سمجھدار ہیں۔ تو اس خود انحصاری کو چھیننے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں ناکامی، کامیابی اور زخم خوردگی ہوتی رہتی ہے۔ ماہرین (اسلامی نقطہ نظر سے قطع نظر) کہتے ہیں کہ انسان نے یہاں سے آغاز کرکے تہذیب کی اعلیٰ منزلیں طے کی ہیں۔ یہ درست ہے یا نہیں یہ بات الگ ہے مگر ہمارے سیاسی میدان کے آسمان پر کچھ ایسے ہی مناظر ہیں۔
پانچ سال کسی کے، پانچ سال کسی اور کے، اس نے اس کی ترقی کے منصوبے روک دیے، اس نے آکر اس کا کام روک دیا مقصد ذاتی خود انحصاری مصیبت میں جنگل کے باسی آپ اور میں، یہ ہم سے سب چھین لیتے ہیں اور آپس میں بانٹ لیتے ہیں، ہم سب لوگ ووٹ ہاتھ میں لیے سوچتے رہتے ہیں اس بار یہ ٹھیک ہے اور ووٹ نوٹ میں تبدیل ہوکر ان کے بینک اکاؤنٹ میں، ٹیکس بڑھاؤ، مہنگائی کرو، ملک چلاؤ ان کے پیسے سے اور ملائی خود کھا جاؤ جنگل راج ہے اپنا۔ کم یا زیادہ ہے ایسا ہی اس بار زیادہ کی حد بھی گزر گئی۔
ایک حصہ بلوچستان کی اسمبلی پر قبضہ ہوگیا ہے (لوگوں کا خیال ہے) دعویٰ ہے جب چاہے، اس حکومت کو ختم کرسکتے ہیں کریں گے نہیں، جمہوریت یعنی دوسرے لفظوں میں سیاست دانوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا اور اسے کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے، کل ان کی حمایت کی ضرورت پڑی تو کیا ہوگا، جس ٹی وی پروگرام کا حوالہ دیا اس کے تناظر میں سوچیے گا 73 کے آئین کے تناظر میں نہیں اس کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے سب نے۔
اس پر زیادہ کچھ کہنا کسی قسم کی توہین نہ ہوجائے لہٰذا آپ کی سمجھ کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹی وی کا مذکورہ پروگرام نظر میں رکھتے ہوئے کالم پڑھتے رہیے۔ ان کے علاقے میں کیا ہو رہا ہے اور ان کو مسلسل دو افراد یعنی دو اشخاص کی دو پارٹیاں نشانہ بناتی ہیں ظاہر ہے یہ سیاست کا روز مرہ ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے مگر دوسروں کی روزانہ کی بنیاد پر Dry Cleaning کے ساتھ ساتھ اپنے ''وارڈ روب'' (کپڑوں کی الماری) کا بھی تو اس روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
شہر کچرے کے ڈھیر، گندا پانی سڑکوں پر، رشوت کا بازار گرم، نوکریوں کی فروخت، زمینوں پر قبضے، کسانوں پر ظلم، پولیس عوام کی دشمن، گھروں میں اندھیرا، گیس ناپید اور ایسا بہت کچھ ایک عام بات، اب اس داستان سرائے میں صرف ایک دن 31 جنوری 2018 کا ایک شہر اور قرب و جوار کا احوال یوں ہے۔
1۔ بااثر مافیا نے قدیم قبرستانوں پر قبضہ کرلیا۔ حیدرآباد ضلع انتظامیہ کی اور بلدیہ اعلیٰ کی چشم پوشی کے باعث حیدرآباد اور لطیف آباد کے قدیمی قبرستانوں پر قبضوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا، اس قبضے کو قائم رکھنے کے لیے مذہبی عبادت گاہیں قائم کردی گئیں۔ مکانات جو اس آڑ میں تعمیر ہوئے ان کو بجلی اور گیس فراہم کردی گئی ہے۔ یعنی مردوں کی بے دخلی کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ شاید باپ کی قبر پر بیٹے کا گھر بن جائے۔
2۔ نشے میں دھت ہوکر ہوٹل میں توڑ پھوڑ کرنے والا گرفتار۔ مددگار پولیس نے ملزم کو متعلقہ تھانے کے حوالے نہیں کیا، رشوت لے کر چھوڑنے کا خدشہ۔ علمدار چوک پر واقعہ پیش آیا، مددگار پولیس ون فائیو نے جن کا تعلق قاسم آباد حیدر آباد سے تھا بھٹائی نگر تھانے کے بجائے نسیم نگر تھانے کے حوالے کردیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں سے ملزم کو آزاد ہونے میں زیادہ سہولت ہوگی۔
3۔ کوٹری بلدیاتی نمایندوں اور سی ایم او تنازعہ کوٹری گندگی کا ڈھیر، کونسلروں کا مطالبہ سی ایم او کو تبدیل کیا جائے۔ کہتے ہیں سی ایم او کرپشن میں ملوث ہے۔ صرف سی ایم او تعجب ہے۔
4۔ سڑک سے گاڑیاں ہٹانے پر شوروم مالک نے پولیس افسر کی پٹائی کردی۔ پولیس طلب کرنے پر ملزمان فرار۔ اے ایس آئی کا پیٹی بھائی کی مدد کرنے سے گریز۔ ٹریفک پولیس اہلکار بے یار و مددگار۔ ایک یوسی چیئرمین نے اے ایس آئی کو جو پیٹا گیا تھا شو روم کے اندر لے جا کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ یعنی قانون کو فروخت کردیا گیا۔ طاقت کو درست قرار دے دیا گیا چاہے غلط استعمال ہو۔
5۔ ایک صوبائی وزیر پریس کانفرنس کر رہے ہیں جنھوں نے صوبائی اسمبلی میں ایک خاتون سے بدتمیزی کی تھی پھر معافی مانگ کر بہن بنایا۔ وہاں ایک کاغذ اٹک اٹک کر پڑھ رہے تھے اور اسمبلی زعفران زار تھی۔ داخلہ ان کا محکمہ نہیں ہے مگر فاروق ستار کو مشورے اور راؤ انوارکو کوئی رعایت نہ دینے کا اعلان کر رہے تھے حیدرآباد میں۔
6۔ ریسٹ ہاؤس چھاپہ، دس سالہ بچی بازیاب، 4 افراد گرفتار۔ لائبہ کو 3 روز قبل کراچی سے اغوا کر کے سیہون کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا گیا تھا ۔ کراچی پولیس کی سیہون میں کارروائی۔ ریسٹ ہاؤس کا مالک اس کے دو بیٹے حراست میں۔ اہلیہ اور ایک ساتھی فرار، پولیس کے چھاپے ۔ یعنی سیہون کی پولیس کاروبار میں مصروف ہے اور امن و امان فروخت ہو رہا ہے۔
7۔ عمر کوٹ کم عمر لڑکی سے شادی، دولہا نکاح خواں سمیت سات افراد کو قید و جرمانہ۔ اچھی خبر ہے ایسا ضرور ہونا چاہیے اور جلد ہونا چاہیے۔
تو جس پروگرام کا حوالہ چل رہا ہے نا یہ اس کی جھلکیاں اور ایک چھوٹے سے علاقے کی پورے سندھ کا جو حال ہے وہ بیان کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کی ضرورت ہے۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں پر اگر ان کے بقول ان کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ کیا بنیں گے کھنڈر، جو سندھ کے اکثر شہر بنے ہوئے ہیں اور ادھر ان کی نظر نہیں پڑتی۔ اپنا دامن کون دیکھے۔ ملک کو Monkey State بنا رکھا ہے ان لوگوں نے مل کر اور انھوں نے اولادوں، رشتے داروں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کر رکھا ہے آپ کے ووٹ کی قیمت پر جو یہ آپ سے ہر قیمت پر لے لیں گے۔
آپ بھی اس جنگل میں جان بچانے کے لیے دے دیں گے۔ داستان سرائے میں آج میں نے آپ کی اور اپنی جنگل اسٹوری بیان کی ہے۔ خدا کے علاوہ اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ خدا کب مہربان ہوگا، خدا جانے۔