ذکر کچھ دلی والوں کا
میر باقر علی دلی کے آخری داستان گو تھے۔ ان کے ساتھ یہ فن ختم ہوگیا۔
پھولوں کی ایک مالا ہے ۔ جس چمن کے یہ پھول ہیں اس پرکبھی کی خزاں آچکی ہے وہ کبھی کا اجڑ چکا ہے لیکن یہ پھول صدا بہار ہیں ، ان پر خزاں کا کبھی گزر نہ ہو گا، یہ چمنستان دلی کے پھول ہیں ۔ ہر پھول کا رنگ جدا ، ہر پھول کی خوشبو الگ ۔ محمود عزیز نے ایک کتاب '' ذکر کچھ دلی والوں کا '' مرتب کرکے ان پھولوں کی شناخت کرائی ہے ۔ یہ کام ان کے کرنے کے لائق تھا کہ وہ خود بھی تو اس اجڑے چمن سے آئے ہیں۔
سید ناصر علی کہتے ہیں '' محمود عزیز دلی والے ہیں اور اس پر فخرکرتے ہیں کہ دلی ہے ہی یگانہ روزگار اور وہ خود گفتار وکردار میں دلی کی طرح منفرد ہیں ۔ وہ کراچی کی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کو لکھنے پڑھنے اور خدمت زبان اردو سے دلچسپی ہے۔''
محمود عزیز نے اپنی کتاب میں جن کچھ دلی والوں کا ذکرکیا ہے وہ کچھ نہیں، بہت کچھ ہیں ۔ ان کی شخصیت، ان کے کام اور ان کے کردار کا بہت ذکر ہوا ہے۔ محمود عزیزکا اعزاز یہ ہے کہ انھوں نے ان اذکار کو جمع کیا ہے۔ ایک شخصیت سرسید کی ہے جن کے بارے میں مولوی عبدالحق فرماتے ہیں۔ ''دورگزشتہ میں ایسی عظیم ہستی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی نہ اس کے بعد مسلمانوں کو نصیب ہوئی ۔
اس کا زبردست عزم، استقلال، بے لوث خدمت، انہماک، ایثار، اصابت رائے اور خلوص ایسی خوبیاں تھیں جو ایک فرد واحد میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں۔ انھوں نے شکست خوردہ، افسردہ دل قوم میں بیداری پیدا کی، ان کے بجھے ہوئے دلوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا، اپنی مدد آپ کرنا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ خودداری اور حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے قومیت کا خیال انھوں نے دلایا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ قوم کی حیثیت سے پیش کیا۔''
دہلی کی ایک یادگار ہستی کے عنوان سے محمود عزیز مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کرتے ہیں۔ جوش صاحب نے ان کو مشرقی علوم کا حرف آخرکہنے کے بعد مولانا کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ قرآن، حدیث، منطق، حکمت، تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، ادب اور شاعری کے امام تھے تاہم اس جید عالم، عربی، فارسی اور اردو کے ماہر کے بارے میں معلومات کم کم ہیں۔
علامہ راشد الخیری '' مصور غم'' کے نام سے دنیائے ادب ناواقف نہیں۔ محمد عزیز لکھتے ہیں علامہ کا قلم مسلمانوں کی دم توڑتی معاشرتی، اخلاقی اور تمدنی روایات کی پاسبانی و تحفظ کے لیے وقف ہوگیا بالخصوص طبقہ نسواں جو مظلومیت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی عزت و عظمت کی بحالی کے لیے ان کا قلم ساری زندگی رواں رہا اور ان کے حقوق کا دفاع کرتا رہا علامہ کو نسوانی محاورے پر پوری قدرت تھی جس سے وہ معاشرے کی صحیح عکاسی کرتے تھے۔
محمود عزیزکی نظر میں ''خواجہ حسن نظامی اردو کے باکمال و بے مثال ادیب تھے جنھوں نے اپنی تحریروں سے اردو نثر کو امر کردیا۔ وہ بڑی من موہنی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کا گھر مرجع خلائق تھا۔ خواجہ صاحب ایسے پیر تھے جو مریدوں سے نذر نیاز وصول کرنے کے قائل نہ تھے۔ چل پھر کر اپنی روزی خود پیدا کرتے تھے۔ وہ کتابوں کی تجارت کرتے تھے اور ایک ماہنامہ ''منادی'' بھی نکالتے تھے۔ خواجہ صاحب نے جتنے موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے اردو نثر میں شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔''
اشرف صبوحی دہلوی کے بارے میں محمود عزیز کہتے ہیں کہ ان کی نثر کی محمد حسن عسکری نے یہ کہہ کر تعریف کی تھی کہ تخیل کی زبان میں ان سے بہتر نثر کوئی نہیں لکھ سکتا۔ محمود عزیز لکھتے ہیں کہ اشرف صبوحی کی کتاب ''دلی کی چند عجیب ہستیاں'' دلی کی یادوں، شخصیات اور واقعات کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ان کے کرداروں کے ذریعے دلی کے تہذیب و تمدن کے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
میر باقر علی دلی کے آخری داستان گو تھے۔ ان کے ساتھ یہ فن ختم ہوگیا۔ محمود عزیز بتاتے ہیں کہ میر باقر علی کے نانا امیر علی قلعے کے قصہ خواں تھے اور وہ میر کاظم علی تھے جنھوں نے داستان سرائی شروع کی۔ یہ میر باقر علی کے ماموں تھے۔ انھوں نے داستان گوئی کے فن کو معراج پر پہنچادیا۔ میر باقر علی داستان گوئی میں اپنے وزن کے استاد تھے۔ انھیں اس فن میں جو ملکہ حاصل ہوا اس کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔ وہ ساری عمر اپنی معلومات اور علم بڑھاتے رہے۔ انھوں نے اساتذہ کے درس میں طلبا کے ساتھ بیٹھ کر مختلف علوم و فنون کی تحصیل کی اور داستان سرائی میں اس سے فائدہ اٹھایا۔ میر باقر علی کو سر سنگیت میں بھی دسترس حاصل تھی۔ داستان گوئی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی آوازکے زیر و بم، لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ اور موقعے کی مناسبت سے ہر متنفس کی حرکات و سکنات کی ایسی کامیاب نقل اتارتے کہ حقیقت کا گماں ہوتا۔
آغا شاعر دہلوی کی شخصیت اور شاعری پر اپنے مضمون میں محمود عزیز لکھتے ہیں کہ ان کی شاعری نے کم عمری ہی میں لوگوں کا دل موہ لیا تھا ان کے طرز کلام نے دھوم مچا دی۔ ان کے کلام سے مشاعرے اٹھ جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ ان کے اشعار کا پورے ہندوستان میں شہرہ تھا۔ آغا شاعر نے رباعیاں کہی ہیں اور عمر خیام کے فارسی کلام کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے نثری کارنامے بھی کچھ کم نہیں، وہ صحافی اور ادیب تھے۔ انھوں نے ناول، ڈرامے، تنقیدی مضامین لکھ کر اردو کی بڑی خدمت کی۔
ملا واحدی صاحب طرز ادیب تھے۔ محمود عزیز ان کے طرز تحریر کے بارے میں مولانا ماہر القادری کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ''ملا واحدی کی زبان قلعہ معلی کی ٹکسالی زبان ہے۔ ان کی نثر سادہ، عام فہم اور تکلفات سے خالی ہے۔ اظہار مفہوم اور ادائے مطلب کے لیے وہ اتنے ہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جتنے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں میں زبان کی چاشنی اور روز مرہ کے چٹخارے کے علاوہ سادگی اور پرکاری بھی ملتی ہے۔''
محمود عزیز کی کتاب میں جمیل الدین عالی پر بھی ایک مضمون ہے۔ عالی بھی فرزند دلی ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے:
جانتے ہیں تمام گو کوئی مانتا نہیں
سن تو رکھا ہے تم نے عالی دہلوی کا نام
محمود عزیز لکھتے ہیں ''پہلی بات جو عالی نے باور کرائی وہ یہ کہ دہلوی ہیں، لہٰذا دہلی کی زبان اور محاورہ ان کی شاعری کی شان اور وہاں کی شستہ و رفتہ زبان ان کے کلام کی آن ہے۔ ان کے خاندان میں کئی معروف شاعر ہو گزرے ہیں کہ ان کا خاندانی تعلق غالب اور میر درد سے ہے۔ ان بزرگوں کا فیض اپنی جگہ مگر عالی جی نے تعلیم سخن میں اپنا مقام خود اپنی فراواں صلاحیتوں سے پیدا کیا جس میں ان کی محنت، مطالعہ، جہاں گردی، بڑی شخصیتوں کی صحبت، کاملین فن سے استفادہ اور غور و تدبر کام آیا۔'' عالی غزلوں، گیتوں، دوہوں کے شاعر ہیں۔
عالی کی غزل میں قدیم و جدید کا خوبصورت امتزاج ہے، ان کے دوہے موسیقی اور نغمگی ہیں، ان کے گیت قلب کو گرمانے والے اور روح کو تڑپانے والے ہیں۔ ان کے نغمات حب الوطنی سے بھرپور اور پراثر ہیں۔
شان الحق حقی کا تعلق مشہور عالم دین شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے خاندان سے تھا۔ محمود عزیز لکھتے ہیں ''حقی ایک نادر علمی و ادبی شخصیت تھے۔ ہمارے ہاں ان جیسے عبقری صفت لوگ کم کم پائے جاتے ہیں۔ وہ باکمال ادیب، منفرد شاعر، ماہر لسانیات، مشاق ترجمہ نگار، صاحب نظر لغت نویس تھے ۔ وہ ٹھوس علمی کام کرنے کے شائق، کمر دہری کرنے والی مشقت کے عادی تھے۔ ان کا قول تھا۔ ''خلوص نیت کے بغیر نہ علم کی خدمت کی جاسکتی ہے اور نہ علم سے خدمت لی جاسکتی ہے۔دنیا میں جتنی ترقی نظر آتی ہے اسی ذوق بے پرواہ کا فیض ہے۔''
محمود عزیز نے مسٹر دہلوی کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا اصل نام مشتاق احمد چاندنہ تھا۔ محمود لکھتے ہیں ''وہ ادبی و شعری حلقوں میں اپنے طنزیہ، مزاحیہ کلام کی بنا پر مشہور و مقبول تھے۔ ان کا کلام ہماری معاشرتی ناہمواریوں، شکست و ریخت، انحطاط، سطحیت، ذہنی افلاس، چاپلوسی، آرام طلبی، بے عملی اور شہرت طلبی کی کہانی سناتا ہے۔ مسٹر دہلوی ان ہی خرابیوں اور بوالعجبیوں پر اپنے اشعار کے تیر و نشتر چلا کر طنز و مزاح کی کمیاب صفت سے تعمیری اور اصلاحی مقاصد کا حصول چاہتے تھے۔''
سید ناصر علی کہتے ہیں '' محمود عزیز دلی والے ہیں اور اس پر فخرکرتے ہیں کہ دلی ہے ہی یگانہ روزگار اور وہ خود گفتار وکردار میں دلی کی طرح منفرد ہیں ۔ وہ کراچی کی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کو لکھنے پڑھنے اور خدمت زبان اردو سے دلچسپی ہے۔''
محمود عزیز نے اپنی کتاب میں جن کچھ دلی والوں کا ذکرکیا ہے وہ کچھ نہیں، بہت کچھ ہیں ۔ ان کی شخصیت، ان کے کام اور ان کے کردار کا بہت ذکر ہوا ہے۔ محمود عزیزکا اعزاز یہ ہے کہ انھوں نے ان اذکار کو جمع کیا ہے۔ ایک شخصیت سرسید کی ہے جن کے بارے میں مولوی عبدالحق فرماتے ہیں۔ ''دورگزشتہ میں ایسی عظیم ہستی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی نہ اس کے بعد مسلمانوں کو نصیب ہوئی ۔
اس کا زبردست عزم، استقلال، بے لوث خدمت، انہماک، ایثار، اصابت رائے اور خلوص ایسی خوبیاں تھیں جو ایک فرد واحد میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں۔ انھوں نے شکست خوردہ، افسردہ دل قوم میں بیداری پیدا کی، ان کے بجھے ہوئے دلوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا، اپنی مدد آپ کرنا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ خودداری اور حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے قومیت کا خیال انھوں نے دلایا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ قوم کی حیثیت سے پیش کیا۔''
دہلی کی ایک یادگار ہستی کے عنوان سے محمود عزیز مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کرتے ہیں۔ جوش صاحب نے ان کو مشرقی علوم کا حرف آخرکہنے کے بعد مولانا کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ قرآن، حدیث، منطق، حکمت، تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، ادب اور شاعری کے امام تھے تاہم اس جید عالم، عربی، فارسی اور اردو کے ماہر کے بارے میں معلومات کم کم ہیں۔
علامہ راشد الخیری '' مصور غم'' کے نام سے دنیائے ادب ناواقف نہیں۔ محمد عزیز لکھتے ہیں علامہ کا قلم مسلمانوں کی دم توڑتی معاشرتی، اخلاقی اور تمدنی روایات کی پاسبانی و تحفظ کے لیے وقف ہوگیا بالخصوص طبقہ نسواں جو مظلومیت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی عزت و عظمت کی بحالی کے لیے ان کا قلم ساری زندگی رواں رہا اور ان کے حقوق کا دفاع کرتا رہا علامہ کو نسوانی محاورے پر پوری قدرت تھی جس سے وہ معاشرے کی صحیح عکاسی کرتے تھے۔
محمود عزیزکی نظر میں ''خواجہ حسن نظامی اردو کے باکمال و بے مثال ادیب تھے جنھوں نے اپنی تحریروں سے اردو نثر کو امر کردیا۔ وہ بڑی من موہنی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کا گھر مرجع خلائق تھا۔ خواجہ صاحب ایسے پیر تھے جو مریدوں سے نذر نیاز وصول کرنے کے قائل نہ تھے۔ چل پھر کر اپنی روزی خود پیدا کرتے تھے۔ وہ کتابوں کی تجارت کرتے تھے اور ایک ماہنامہ ''منادی'' بھی نکالتے تھے۔ خواجہ صاحب نے جتنے موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے اردو نثر میں شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔''
اشرف صبوحی دہلوی کے بارے میں محمود عزیز کہتے ہیں کہ ان کی نثر کی محمد حسن عسکری نے یہ کہہ کر تعریف کی تھی کہ تخیل کی زبان میں ان سے بہتر نثر کوئی نہیں لکھ سکتا۔ محمود عزیز لکھتے ہیں کہ اشرف صبوحی کی کتاب ''دلی کی چند عجیب ہستیاں'' دلی کی یادوں، شخصیات اور واقعات کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ان کے کرداروں کے ذریعے دلی کے تہذیب و تمدن کے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
میر باقر علی دلی کے آخری داستان گو تھے۔ ان کے ساتھ یہ فن ختم ہوگیا۔ محمود عزیز بتاتے ہیں کہ میر باقر علی کے نانا امیر علی قلعے کے قصہ خواں تھے اور وہ میر کاظم علی تھے جنھوں نے داستان سرائی شروع کی۔ یہ میر باقر علی کے ماموں تھے۔ انھوں نے داستان گوئی کے فن کو معراج پر پہنچادیا۔ میر باقر علی داستان گوئی میں اپنے وزن کے استاد تھے۔ انھیں اس فن میں جو ملکہ حاصل ہوا اس کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔ وہ ساری عمر اپنی معلومات اور علم بڑھاتے رہے۔ انھوں نے اساتذہ کے درس میں طلبا کے ساتھ بیٹھ کر مختلف علوم و فنون کی تحصیل کی اور داستان سرائی میں اس سے فائدہ اٹھایا۔ میر باقر علی کو سر سنگیت میں بھی دسترس حاصل تھی۔ داستان گوئی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی آوازکے زیر و بم، لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ اور موقعے کی مناسبت سے ہر متنفس کی حرکات و سکنات کی ایسی کامیاب نقل اتارتے کہ حقیقت کا گماں ہوتا۔
آغا شاعر دہلوی کی شخصیت اور شاعری پر اپنے مضمون میں محمود عزیز لکھتے ہیں کہ ان کی شاعری نے کم عمری ہی میں لوگوں کا دل موہ لیا تھا ان کے طرز کلام نے دھوم مچا دی۔ ان کے کلام سے مشاعرے اٹھ جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ ان کے اشعار کا پورے ہندوستان میں شہرہ تھا۔ آغا شاعر نے رباعیاں کہی ہیں اور عمر خیام کے فارسی کلام کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے نثری کارنامے بھی کچھ کم نہیں، وہ صحافی اور ادیب تھے۔ انھوں نے ناول، ڈرامے، تنقیدی مضامین لکھ کر اردو کی بڑی خدمت کی۔
ملا واحدی صاحب طرز ادیب تھے۔ محمود عزیز ان کے طرز تحریر کے بارے میں مولانا ماہر القادری کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ''ملا واحدی کی زبان قلعہ معلی کی ٹکسالی زبان ہے۔ ان کی نثر سادہ، عام فہم اور تکلفات سے خالی ہے۔ اظہار مفہوم اور ادائے مطلب کے لیے وہ اتنے ہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جتنے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں میں زبان کی چاشنی اور روز مرہ کے چٹخارے کے علاوہ سادگی اور پرکاری بھی ملتی ہے۔''
محمود عزیز کی کتاب میں جمیل الدین عالی پر بھی ایک مضمون ہے۔ عالی بھی فرزند دلی ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے:
جانتے ہیں تمام گو کوئی مانتا نہیں
سن تو رکھا ہے تم نے عالی دہلوی کا نام
محمود عزیز لکھتے ہیں ''پہلی بات جو عالی نے باور کرائی وہ یہ کہ دہلوی ہیں، لہٰذا دہلی کی زبان اور محاورہ ان کی شاعری کی شان اور وہاں کی شستہ و رفتہ زبان ان کے کلام کی آن ہے۔ ان کے خاندان میں کئی معروف شاعر ہو گزرے ہیں کہ ان کا خاندانی تعلق غالب اور میر درد سے ہے۔ ان بزرگوں کا فیض اپنی جگہ مگر عالی جی نے تعلیم سخن میں اپنا مقام خود اپنی فراواں صلاحیتوں سے پیدا کیا جس میں ان کی محنت، مطالعہ، جہاں گردی، بڑی شخصیتوں کی صحبت، کاملین فن سے استفادہ اور غور و تدبر کام آیا۔'' عالی غزلوں، گیتوں، دوہوں کے شاعر ہیں۔
عالی کی غزل میں قدیم و جدید کا خوبصورت امتزاج ہے، ان کے دوہے موسیقی اور نغمگی ہیں، ان کے گیت قلب کو گرمانے والے اور روح کو تڑپانے والے ہیں۔ ان کے نغمات حب الوطنی سے بھرپور اور پراثر ہیں۔
شان الحق حقی کا تعلق مشہور عالم دین شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے خاندان سے تھا۔ محمود عزیز لکھتے ہیں ''حقی ایک نادر علمی و ادبی شخصیت تھے۔ ہمارے ہاں ان جیسے عبقری صفت لوگ کم کم پائے جاتے ہیں۔ وہ باکمال ادیب، منفرد شاعر، ماہر لسانیات، مشاق ترجمہ نگار، صاحب نظر لغت نویس تھے ۔ وہ ٹھوس علمی کام کرنے کے شائق، کمر دہری کرنے والی مشقت کے عادی تھے۔ ان کا قول تھا۔ ''خلوص نیت کے بغیر نہ علم کی خدمت کی جاسکتی ہے اور نہ علم سے خدمت لی جاسکتی ہے۔دنیا میں جتنی ترقی نظر آتی ہے اسی ذوق بے پرواہ کا فیض ہے۔''
محمود عزیز نے مسٹر دہلوی کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا اصل نام مشتاق احمد چاندنہ تھا۔ محمود لکھتے ہیں ''وہ ادبی و شعری حلقوں میں اپنے طنزیہ، مزاحیہ کلام کی بنا پر مشہور و مقبول تھے۔ ان کا کلام ہماری معاشرتی ناہمواریوں، شکست و ریخت، انحطاط، سطحیت، ذہنی افلاس، چاپلوسی، آرام طلبی، بے عملی اور شہرت طلبی کی کہانی سناتا ہے۔ مسٹر دہلوی ان ہی خرابیوں اور بوالعجبیوں پر اپنے اشعار کے تیر و نشتر چلا کر طنز و مزاح کی کمیاب صفت سے تعمیری اور اصلاحی مقاصد کا حصول چاہتے تھے۔''