قانون اور پھر قانون
مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ وقت اورجرائم کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ نظام انصاف و قانون کو بھی چلنا چاہیے تھا۔
پچھلے دنوں ان کالموں میں قانون اور جرائم پر کچھ باتیں ہوئی تھیں جو قطعی ناکافی تھیں کیونکہ قانون اور جرم و سزا کے نام پر ہمارے معاشرے میں اتنا کوڑا کرکٹ جمع ہو چکا ہے یایوں کہئے کہ اس '' جھولی '' میں اتنے چھید ہو چکے ہیں کہ باتوں سے اس کی اصلاح احوال ممکن ہی نہیں ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں '' باتوں '' کا شوراتنا زیادہ ہے اور ''کانوں '' کے درمیان سوراخ اتنے بڑے اور کھلے ہوئے ہیں کہ بولنا نہ بولنا برابر ہے اور پھر یہ جو قانون یاتعزیراتی نظام کی عمارت ہے وہ دراڑوں، درزوں، شکستوں اور بلوں سوراخوں سے اتنی خستہ ہو چکی ہے کہ '' مرمت '' کا امکان ہی باقی نہیں رہا ہے۔ جرائم نشوونما پاکر پورا '' قد کاٹھ '' نکال چکے ہیں اور نظام اسے وہی بچپن کا جانگیہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہے جو نہ صرف چھوٹا اور سکڑچکا ہے بلکہ گل سڑ بھی چکا ہے۔
سیدھے الفاظ میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جرائم ایم اے، پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اورتعزیراتی نظام اسی کچی پکی میں بار بار فیل ہو رہا ہے، اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ہم کر چکے ہیں کہ ہم مذہبی یا اسلامی نظام انصاف کی بات بالکل ہی نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہیے کیونکہ اس کے لیے معاشرے کا بھی اسلامی اور قرآنی ہونا ضروری ہے ۔
جس معاشرے میں جس میں روزہ کے اندر تمام ''حلال '' چیزیں حرام اور تمام '' حرام '' چیزیں حلال ہو جاتی ہیں جس میں زکوۃٰ کو اس کے مستحقین کے منہ سے چھین کر ''سیاسی تنظیموں '' کو کھلایا جاتا ہو جہاں حج صرف ایک ٹائٹل اور مال حرام کے جواز کے سوا کچھ نہ ہو۔ جہاں سیکڑوں مذہبی جماعتیں اور لیڈر اپنا الگ الگ نظام مصطفیٰ رکھتی ہوں اور اسے دوسروں پر '' نافذ '' کر رہی ہوں، جہاں دین کی دکانیں دنیاوی دکانوں سے زیادہ ہوں، وہا ں قرآنی نظام عدل نافذ کرنے کی باتیں دھوکے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
قرآن نے جس معاشرے کی تشکیل کا نظام پیش کیا ہے، وہ اگر نافذ ہو جائے تو جرائم کا امکان ہی باقی نہیں رہتا ۔کہتے ہیں کہ ابراہیم ابن ادھم سے ہارون یا مامون نے پوچھا کہ چوری کی سزا کیا ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ اگر مستی میں چوری کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر اس نے '' مجبور '' ہوکر چوری کی ہے تو اس ملک کے حاکم کا '' سر '' کاٹنا چاہیے۔ اکثر بزرجمہر قرآنی سزاؤں کو سخت اور خاکم بدہن ظالمانہ سمجھتے ہیں اور یہ جانتے تک نہیں کہ یہ سزائیں ایک تو '' انتہائی '' ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ تک اور اس کے نیچے بھی سزائیں ہیں جو '' حکم '' موقع و حالات کے مطابقت سے دے سکتا ہے یا بری بھی کر سکتا ہے لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب حقیقی قرآنی معاشرہ قائم ہو توکسی فرد کا جرم کے لیے سوچنا بھی ممکن نہیں کیونکہ '' انصاف '' پر مبنی معاشرے میں '' جرائم '' پیدا ہی نہیں ہوتے ۔ صرف اگر تجارت کو اسلامی بنایا جائے، سود ختم کر دیا جائے اور زکوۃٰ باقاعدگی سے ان کے '' مستحقین '' (سیاسی اداروں کو نہیں ) دی جائے تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو جرم کا ارتقاب کرکے خود کو عذاب میں ڈالے ۔
جہاں تک ہمارے ملک میں موجودہ نظام عدل و انصاف کاتعلق ہے جسے تعزیرات ہند عرف تعزیرات پاکستان کہا جاتا ہے جو اصل میں انڈین پینل کوڈ ہے اورجس کے بہت بڑے بڑے '' ماہرین '' یہاں پڑے ہوئے ہیں، کروڑوں کتابیں بھری ہوئی ہیں اور درسگاہوں میں جس کی مقدس تعلیم دی جاتی ہے، اس کا بنیادی مقصد تووہی ہے جو بتایا جا چکا ہے کہ حکومت کرنے والے اور اس کے حامیوں موالیوں اور مراعات یافتہ گان لاڈلوں کو بھوکے ننگے محروم مجبور اور حیوان نما عوام کے دست برد سے بچایا جائے لیکن پھر بھی اشک شوئی کے لیے اس میں کچھ '' عوامیت '' کی تسکین کا سامان بھی رکھا گیا، اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ اتنا مہنگا ہوکہ حاصل کبھی نہ کیا جا سکے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے دو جانے پہچانے کردار ہوتے ہیں۔
مقتول کے بیان نزع اور بعد از مرگ پاگل ثابت کرنا تو ہم بتا چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں قانون کی پرانی کتابوں میں ایسی کوئی '' نظیر '' بھی مل جائے کہ مقتول نے دماغی حالت خراب ہونے کی وجہ سے خود ہی اپنے آپ کو قتل کیا یا خود کشی کی یا آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر غلط فہمی میں خود کو چور سمجھ کر مار ڈالا لیکن اس سے دوسرے درجے کا جرم جس میں کوئی زخمی ہو جاتا ہے، اس کے لیے اس انڈین پینل کوڈ سے درجات مقرر کیے گئے ہیں جو بڑے دلچسپ ہیں، فائر کرکے زخمی کرنے والا 307یعنی ارادۂ قتل کامتوجب ہو جاتا ہے کیونکہ فائر چھپانے کی چیز ہے اور نہ اس کا زخم۔ شاید اس میںشک نکالنے کے مظاہرے ہوتے رہے ہو ں یا چونکہ گولی مارنے والے اور کھانے والے کے درمیان فاصلہ بھی خاص شک خیز ہوتا ہے جس میں یہاں وہاں بہت سارے سفید اور کالے کوٹ بھی لٹکے ہوتے ہیں اور بلکل مارے ہوئے گواہ بھی ۔
پھر زخم کی بنیاد پر زخمی کے کئی درجات ہیں جو ریپ یعنی عصمت دری کی طرح '' میڈیکلی '' ثابت کرنا ہوتے ہیں اور بار ثبوت مدعی کے سر جب کہ شک کا فائدہ '' معصوم ملزم '' کے پاس ہوتا ہے۔ زخم کا پہلا درجہ تو '' شارپ ویپن '' کا ہے ۔کسی بھی تیز دھار آلے، چاقو چھری نیزے قینچی کلہاڑی وغیرہ کا زخم اس میں آجاتا ہے ورنہ '' بلنٹڈ'' کا یعنی کنددھارے کا مستحق ہوتا ہے ۔ اب کنددھار یا بغیر دھا ر کے آلات ضرر توبے شمار ہیں۔
لکڑی، پتھر، اینٹ، لوہے کی راڈ کچھ بھی اس میں آسکتا ہے۔ گھونسا، لات بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر ہڈی نہیں ٹوٹی ہے تو کوئی پرچہ کوئی دفعہ لاگو نہیں ہوتی، چاہے کسی کو ان آلات سے مار مار کر پیلا کیوں نہ کردیا گیا ہو۔ ہاں اگر ایک تھپڑ یا گھونسے سے ناک کی ہڈی یا انگلی کا ناخن ٹوٹا ہو تو یہ گریوٹی یعنی پرچہ ہوجاتا ہے ورنہ مضروب اپنے سبز ، کالے یا نیلے جسم کو کتنا بھی دکھائے پرچہ بنتا ہی نہیں چنانچہ اکثر پیشہ ور اورروزانہ کے کاروباری یا بطور خود پولیس والے '' نان گریوٹی '' مارنے کے اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ ان کا مارا ہوا '' دفعہ '' بھی نہیں مانگتا ۔
اس سلسلے میں ایک اور زبردست چیز '' ریمانڈ '' کا ذکر نہ کرنا ممکن ہی نہیں جن میں ایک کو جسمانی ریمانڈ اور دوسرے کو جوڈیشل ریمانڈ کہا جاتا ہے۔ جسمانی ریمانڈ میں پولیس ملزم کو اپنے تھانے کی حوالات میں لے جاتی ہے۔ اب یہ پولیس کی صوابدید بلکہ ثوابدید ہے کہ وہ ملزم کو کتنے '' نفلوں '' کا ثواب دیتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ملزم جسمانی ریمانڈ میں بھی تھانے کے اندر فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولیات حاصل کرے ورنہ عام طور پر اس کی حالت حوالات میں اس مردے کی ہوتی ہے جو عالم برزخ میں منکر نکیر کے ہاتھ کا تختہ مشق بنتا ہے ۔
انگریزوں نے جسمانی ریمانڈ کے لیے شرط رکھی تھی کہ حوالات میں لے جانے پر اور پھر ریمانڈ کے بعد پیشی سے پہلے علاقے کا سرکاری ڈاکٹر ملزم کا معائنہ کرے گا کہ پولیس والوں نے امانت میں خیانت تو نہیں کی ہے۔ ظاہر ہے پولیس والے ایسی خیانت کیوں کریں گے جو دکھائی دے چنانچہ اس کے لیے پولیس والوں کے موجدوں نے بہت سارے ایجادات کر رکھی ہیں جن میں مارنے پیٹنے بلکہ ہاتھ لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی جو ہر کسی کو معلوم ہیں اور ان میں اکثر نا گفتی ہوتی ہیں۔ صرف ایک دو مثالیں سن لیجیے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کی نیپ کے خلاف کارروائی کی ۔ تو تھانوں میں کسی کو بھی مارا پیٹا نہیں جاتا تھا،صرف گھر کی خواتین کو تھانے بلایا جاتا ۔ ملزم سے کہا جاتا کہ اعترافی بیان دیتے ہو یا ... ظاہر ہے ، وہ اعترافی بیان دے دیتا تھا۔
کتنے ہی ایسے تھے جو توالدو تناسل کے قابل نہیں رہے، خود ہمارے ایک دوست پشتو کے شاعر جو حال ہی میں فوت ہوئے تھے ۔ تھانے سے '' لاجنسی '' ہو کر لوٹے تھے اور مرتے دم تک اپنے آپ کو روتے رہے ۔
کیونکہ اس نظام قوانین نے پولیس کو یہ '' جو تفتیش '' کا ہمہ جہت آلہ دیا ہوا ہے اور جو ہمیشہ الٹا چلتا ہے، اس کے لیے معصوم کو مجرم بنانا اور مجرم کو شک کی مدد پہنچانے کے ہزار گن پائے جاتے ہیں ۔
مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ وقت اورجرائم کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ نظام انصاف و قانون کو بھی چلنا چاہیے تھا لیکن ہمارے نظام میں جولوگ قانون سازی کے لیے چنے جاتے ہیں، وہ صرف ایسی قانون سازی سے دلچسپی رکھتے ہیں جس میں خود ان کی مراعات کا پہلوہو ۔ اس کے سوا ان کو کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ جتنے جرائم بڑھتے ہیں اتنے ہی ان کا ووٹ اور نوٹ بینک بھی بڑھتا ہے، اگر آج ہی آئین اور تعزیرات میں موجودہ گھسے پٹے قوانین کو صحیح معنوں میں کوٹوں اور کورٹوں سے آزاد کر دیا جائے تو نہ جانے کتنے حاکم میلوں دور ہونے والے '' قتل '' میں پھانسی کے مستوجب ہو جائیں گے ۔